منادی ہے قتل طفلاں سارے شہر میں
ماں بچے کی سائیکی بڑی عجیب ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں۔
ماں بچے کی سائیکی بڑی عجیب ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں۔ ایک کمزور سی چڑیا بھی اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے چیل سے لڑ جاتی ہے۔ اپنے بچوں کو کھونے کا دکھ والدین کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں کیا۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ بازار میں ہوں، آپ نے اپنے بچے کا ہاتھ تھاما ہوا ہے، کسی شاپ پر رک گئے ہوں، خریداری میں مصروف ہیں، بچہ آپ کا ہاتھ چھڑا کر دکان میں رکھی چیزوں میں دلچسپی لے رہا ہے، آپ مطمئن ہوکر خریداری میں مصروف ہوگئے، کچھ دیر بعد جب آپ جانے کے لیے مڑیں تو بچہ غائب ہو۔ آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ یقیناً زمین پاؤں کے نیچے سے سرک جائے گی۔
ایسا میرے ساتھ بھی ہوا تھا، اپنی آٹھ سالہ چھوٹی بیٹی کو نہ پاکر میرے اوسان خطا ہوگئے تھے، تھوڑی دیر تو ضبط کرتے ہوئے اسے ڈھونڈا، آس پاس کی دکانوں میں تلاشا، لیکن اس کا کہیں پتا نہ تھا، اب تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹے اور میں نے باقاعدہ رونا شروع کردیا، اب کیا ہوگا۔ پبلک جمع ہونا شروع ہوگئی، کچھ تماشا دیکھنے کو تو چند واقعی ہمددری میں۔ مجھے پبلک پلیس کا احساس ہوا تو فوراً اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنے کی ایکٹنگ کی، آس پاس بچی کو تلاش کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی، کچھ دور جاکر وہ مل گئی، ایک طرف کھڑی رو رہی تھی۔
پوچھا یہاں کیسے آگئی؟ بتایا آپ جیسا ہی سوٹ ایک خاتون اور پہنے ہوئے تھی، اس کے پیچھے چل دی۔ میرا اس سے بچھڑنے کا عمل محض بیس منٹ پر محیط تھا، لیکن یہ بیس منٹ مجھے بیس صدیوں جیسے لگے۔ کیا کچھ ایسا برا تھا جو میں نے نہیں سوچا۔ آپ اس کرب کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس بات کو عرصہ گزر گیا، اب تو وہ سی اے فائنلسٹ ہے، لیکن ہم دونوں ہی اس تلخ تجربے کو کبھی نہیں بھلا سکے۔ حالانکہ وہ محض آٹھ سال کی تھی مگر اسے بھی اچھی طرح سب یاد ہے کہ ہم دونوں کس طرح ملنے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو رہے تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس قدر خودغرض ہوں کہ کسی ایسے دکھ کے بارے میں اب سوچنا ہی نہیں چاہتی، لیکن کیا کروں کہ ہر دوسرے دن بچوں کی گمشدگی کی خبر مجھے اس تلخ یاد کی جانب لے ہی آتی ہے۔ خدا کسی والدین کو اس کی اولاد سے جیتے جی نہ دور کرے۔ مثل مشہور ہے کہ مرے کا صبر ہوجاتا ہے پر کھوجانے والے کا صبر؟ اف خدایا! کس قدر کرب انگیز ہے، اس کا اندازہ صرف اولاد والے لگا سکتے ہیں۔
کتنے آرام سے ہمارے اسمبلی اراکین کہہ دیتے ہیں کہ بچے تو اغوا ہوتے رہتے ہیں یا پھر کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر خود ہی ناراض ہو کر گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ ارے بے خبرو! بے حسو! کبھی تمھارے اپنے چشم وچراغ کھوئے ہوں تو تمھیں پتہ چلے کہ بچے کھونے کا غم کیا چیز ہے۔ تمھیں تو ایک درجن گارڈز مہیا ہیں جو تمھارے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان والدین کا کرب کیا جانو؟ ایسے بھی ہیں جن کے بچوں کو گم ہوئے کئی مہینے سال ہوگئے۔ وہ کس طرح زندگی گزار رہے ہوں گے؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ واردات کم ہونے کے بجائے بچوں کی گمشدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
لگتا ہے کسی خاص حکمت عملی کے تحت یہ گھناؤنا کاروبار چلایا جارہا ہے، جس کی کوئی پکڑ نہیں۔ کس قدر مضبوط نیٹ ورک ہے جو ہاتھ نہیں آرہا، اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی گمشدگی ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیا کرتے ہوںگے؟ ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ کیا انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر ایک گودام میں قید کرکے اکٹھا کیا گیا ہوگا؟ ان سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کو شش کرتے ہوں گے کہ ہمارے ہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات سے لے کر ہاتھ پاؤں سے معذور کرکے بھیک مانگنے تک سب ہی کام کیے جارہے ہیں۔ سائنس کی ترقی نے بھی تو ان کے کام میں چاندی بلکہ سونا لگادیا ہے۔ ان بچوں کی افزائش کرو، بڑے ہوجائیں تو ان کے خون سے لے کر اعضا تک سب کچھ فروخت کرکے دھن دولت کمائی جاسکتی ہے۔
کون پوچھنے والا ہے؟ ہر جگہ مک مکا سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر نواب آف کالا باغ کے حوالے سے ایک واقعہ کوڈ کیا جارہا ہے کہ ان کے زمانے میں ایک بچہ اغوا ہوگیا۔ انھوں نے فوراً ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او کو وارننگ دے دی اگر بچہ جلد نہ ملا تو تمھارے بچے بھی چھین لیے جائیں گے۔ پولیس نے جانفشانی سے کام کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ جلد بازیاب ہوگیا۔
کیا ضروری ہے خود پر دکھ بیتے تب ہی کسی کے کرب وغم کا اندازہ کیا جائے؟ یہ سوال کس سے کیا جائے ابھی تو اسی ادھیڑ بن میں ہوں۔ اغوا کی یہ وارداتیں پنجاب سے شروع ہوئیں اور وبا کی صورت دیگر شہروں اور بالخصوص کراچی میں بھی وارداتیں ہورہی ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ہم نے دیکھا ہے کہ نوعمر بچے بھی شامل ہوتے ہیں، ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے، انھیں جنت و حوروں کا لالچ دیا جاتا ہے۔ نادان خوشی سے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ گروہ بڑے منظم انداز سے اپنی کارروائی کر رہے ہیں۔ ہم انھیں کس طرح ختم کرسکتے ہیں؟ یہ ارباب اختیار کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔ آخر کب تک بچوںکے ساتھ والدین سائے کی طرح رہیں گے؟ اسکول بند کرنے کی صلاح بھی سامنے آئی، لیکن اس کا یہ حل نہیں۔ اغوا کی گھناؤنی وارداتیں کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں، جنگ زدہ اسلامی ممالک میں بچوں کے اغوا، کرنے ان کے اعضا کو فروخت کرنے کا گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔
ملائیشیا میں اسی قسم کی تجارتی خریدو فروخت کی خبریں اخباروں کی سرخیوں میں ہم پڑھتے ہیں۔ ان بچوں کے تجارتی حوالے سے استعمال کے واقعات افسوسناک ہیں، لیکن ہمارے ملک میں اس قدر تیزی سے اس جرم میں اضافہ حیران کن ہے۔ حکومتی سطح پر جو کام ہورہا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن والدین کو بھی اس سلسلے میں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کی خود حفاظت کیجیے انھیں گھر سے باہر نکلنے نہ دیں اسکول اور ٹیوشن جاتے ہو ئے ان کو کڑی نگرانی میں بھیجیںان کی تفریح کا سامان گھر میں مہیا کریں اپنے آس پاس مشکوک لوگوں کو نظر میںرکھیں کوشش کریں محلے کے دوسرے بچوں کا بھی دھیان رکھیں کام کرنے والے بچوں کی بھی دیکھ بھال ہماری اخلاقی ذمے داری ہے اسی میں ہم سب کا مفاد ہے۔
یہ ہمارا باہمی خزانہ ہیں جنکی حفاظت مل جل کر ہو سکتی ہے ۔صدیوں پہلے فرعون نے محض اپنی بقاء کے لیے تمام ملک کے بچوں کو قتل کروا دیا تھا، ایک ماںنے اپنے بچے کی حفاظت کا سامان یوں پیدا کیا کہ اسے دریا کے سپرد کر دیا، ماں بچے کی محبت کی سائیکی بڑی عجیب ہے دونوں ایک دوسرے کے بناء نہیں رہ سکتے، بچے کو بھی معلوم ہوتا ہے ماں میرے لیے پریشان ہے اسے میری فکر ہے۔ شاعر نے بہت خوبصورت پیرائے میں یوں بیان کیا ہے۔
منادی ہے قتل طفلان سارے شہر میں
ماں مجھے بھی مثل موسیٰ بہادے نہر میں