یومِ آزادی کشمیر کے نام
کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات سے پاکستان کے عوام کو ڈرایا نہیں جاسکتا۔
پاکستان عالمی طاقتوں کی سازشوں اور مغربی و مشرقی سرحدوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث مشکل دور سے گزررہا ہے مگر جشنِ آزادی کے موقعے پر سیاسی وعسکری قیادت اور عوام نے جس طرح بے مثال اتحادکا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس سے دشمن کو یہ پیغام پہنچ گیا ہوگا کہ پاکستانی عوام متحد ہیں اور سیاسی وعسکری قیادت وطن کے تحفظ اور دفاع کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
کوئٹہ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات سے پاکستان کے عوام کو ڈرایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مظالم کر کے بھارت آزادی کی تحریک کو کچل نہیں سکتا۔ اس موقعے پر وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے پیغام میں یہ اعلان کرکے پاکستانیوں اور کشمیری عوام کے دل جیت لیے ہیں کہ اس سال کے یوم آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے نام کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیریوں کی نئی نسل نے نئے جذبے کے ساتھ آزادی کا علم اٹھایا ہے۔
14 اگست کو کشمیریوں کے نام اس لیے کیا گیا کہ انھوں نے آزادی کے لیے بھارت کا ریاستی جبر برداشت کیا مگر اپنے عظیم جذبے کو زندہ رکھا۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہیں۔کشمیر کے نہتے عوام ان مظالم کو اپنے حق خود ارادیت کے حصول کی وجہ سے برداشت کررہے ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت 70 برس سے غصب کر رکھا ہے۔ یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دیا گیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں برسر اقتدار آنے والے رہنماؤں نے اس حق کو تسلیم کیا تھا لیکن بعد میں بھارتی قیادت کی نیت خراب ہوگئی۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد نسل درنسل جاری ہے اور اپنی آزادی کے لیے کشمیریوں کی ہر نسل نے جان، مال، عزت، آبرو سمیت ہر قسم کی قربانیاں پیش کی ہے۔ گزشتہ دنوں مقبول وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی میں جذبہ حریت کو نئی توانائی ملی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی جو نئی لہر آئی ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اب کشمیری عوام حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کی سوچ اور عزم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں بھارتی فوجوں نے ظلم و تشدد اور جبروبربریت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اب تک 100 سے زائد کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ، سیکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو زخمی کردیا گیا اور پیلٹ گن استعمال کرکے نہتے کشمیریوں کو معذورکردیا گیا بعض نوجوان تو اپنی آنکھوں کی بینائی سے ہی محروم ہوگئے۔ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، ذرایع ابلاغ پر پابندی ہے، موبائل فون سروس بھی بند کردی گئی ہے۔ کشمیری طبی امداد اورغذائی قلت کا شکار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرے اور اپنی فوج کو واپس بلائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا اہتمام کرے۔ اب کشمیرکی آزادی کو ریاستی جبر اور بے جا طاقت کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر براہِ راست مذاکرات کی دعوت بھی دیدی ہے جس کا اس نے اب تک مثبت جواب نہیں دیا۔ اس کی بجائے بھارتی قیادت مسلسل پاکستان پر بے جا الزام تراشی کررہی ہے۔
اخلاقی گراوٹ کی انتہا تو یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے بلوچستان پر بات کرکے اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اس کے ایما پر ہوتی رہی اور اس کا ایک ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادوکی گرفتاری بھی ہے۔ اس سے قبل سارک کانفرنس میں اسلام آباد میں بھارتی وزیر داخلہ نے شرکت کی تو انھوں نے تمام سفارتی آداب کو نظراندازکردیا اور اس کانفرنس کو ہی متنازع بنادیا اور پاکستان کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کے عشائیے میں شرکت کیے بغیر دہلی روانہ ہوگئے۔ اس موقعے پر چوہدری نثار علی نے بھارت اور اس کے وزیر داخلہ کو آڑھے ہاتھوں لیا اور پاکستانی قوم کی حقیقی ترجمانی کا حق ادا کردیا۔ یہی نہیں بلکہ سابق بھارتی وزیر مانی شنکر آئیر نے اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی وزیر داخلہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے بھی چوہدری نثار علی کے موقف کی تائید کی ہے۔
انھوں نے اپنے آرٹیکل میں واضح کیا کہ کس طرح راج ناتھ کے دورے نے پاکستان کو واضح برتری فراہم کی۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ بھارتی وزیر داخلہ نے سارک کانفرنس کو متنازع بنادیا۔ دراصل یہ پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت ہر عالمی فورم پر پسپا ہورہا ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا معاملہ ہو یا سارک کانفرنس ہو۔ بھارت کو مسلسل پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں دہشتگردی کو مسلسل ہوا دے رہا ہے۔ جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے بھی واضح کیا ہے کہ کشمیری عوام قابض بھارتی فوج کے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان کشمیری بھارتیوں کی مدد کرتا رہے گا۔ انھوں نے سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ بلاشبہ صدر مملکت ممنون حسین نے درست کہا ہے کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی ہر سطح پر اورہر قسم کی مدد جاری رکھے گا۔ دراصل کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے نے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت کی بنیاد رکھی ہے۔
کشمیرکے مسئلے پر بھارت تین بار پاکستان پر جنگیں مسلط کرچکا ہے۔ جب کہ 71 کی جنگ میں پاکستان کو دولخت کرنے میں بھی بھارت نے ہی سازش تیارکی تھی جو پاکستان کی سالمیت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔کشمیر میں بھارتی فوج کے ریاستی مظالم ہوں، بلوچستان میں بھارتی مداخلت ہو یا پھر پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے '' را'' کے ایجنٹوں کی کارروائیاں ہوں۔ ان کا مقصد محض پاکستان کوکمزورکرنا ہے مگر یہ بھارت کی بھول ہے۔
اس بار جشنِ آزادی پر اس نے پاکستانی قوم کو جس طرح متحد دیکھا ہے اس سے اس کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ دوسری جانب صدر مملکت ممنون حسین، وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سیاسی وفوجی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت نے اپنی شاندار پالیسیوں سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو تقویت بخشی اور یومِ آزادی پر قوم کو ایک پرچم کے سائے تلے جمع کرکے حب الوطنی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ 11 اگست کے دن کے حوالے سے اور یومِ آزادی کے حوالے سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں نے اپنے وطن سے محبت کے اظہارکے لیے ریلیاں نکالیں اور تقریبات کا انعقاد کیا۔ مسلم لیگ ن سندھ کے اقلیت ونگ کی جانب سے بھی جشنِ آزادی کا کیک کاٹا گیا۔ اس طرح اقلیتوں سمیت پوری پاکستانی قوم نے جشنِ آزادی کی خوشیوں کو ایک نئے انداز سے منایا۔