مستقبل کے معماروں کا مستقبل
بلاشبہ کسی بھی قوم کے بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں،
بلاشبہ کسی بھی قوم کے بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، آج کے یہ بچے پڑھ لکھ کر کل ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے، انھی بچوں میں سے کوئی ڈاکٹر بنے گا، کوئی انجینئر، کوئی قانون دان، کوئی کمپیوٹر ماسٹر، کوئی سیاست دان، کوئی صحافی، کوئی ماہر سماجیات بنے گا، الغرض وہ شعبہ ہائے زندگی کے کسی نہ کسی ایک شعبہ سے وابستہ ہوکر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ لیکن کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں خاک چھاننے والے یہ پھول جیسے معصوم بچے کس کرب میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہائے افسوس! ان بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں، وہ اپنے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، کیوں؟ نہ گھر ہے، نہ کوئی ٹھکانہ، آج اس فٹ پاتھ پر تو کل دوسری گلی کے نکڑ پر، یا کسی پائپ لائن کے ہول میں بسیرا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ معصوم بچے ہیں جنھیں عرف عام میں اسٹریٹ چلڈرن کہا جاتا ہے۔ آخر مستقبل کے ان معماروں کا اپنا مستقبل کیا ہوگا؟
پوری دنیا میں ہر سال اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے گھروں سے محروم بچوں سے اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کی کفالت کے لیے بھی اہم اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ گلوبل رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق آج کی جدید دنیا کے 41 ممالک میں بچوں پر ہونے والے تشدد کو یا تو روایتی سماجی سرپرستی حاصل ہے یا پھر ایسے ممالک میں حکومت تشدد کو رکوانے میں بے بس ہے۔ ایسے ممالک میں بچوں کو نہ صرف ہاتھوں سے مارا جاتا ہے بلکہ ان ممالک میں بچوں پر ڈنڈوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہیں جب کہ دیگر ممالک میں افغانستان، بنگلہ دیش، ایران اور فلسطین قابل ذکر ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے وطن عزیز میں بھی اسٹریٹ چلڈرنز موجود ہیں، جن کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل کے معمار آوارہ کیوں ہیں؟ یعنی وہ اپنے گھروں سے کیوں بھاگ جاتے ہیں؟ یہ ایک معاشرتی المیہ ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ وہ والدین جو بات بات پر اپنے بچوں پر جارحانہ تشدد کرتے ہیں، ان کے ساتھ زیادتی سے پیش آتے ہیں، انھیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ کیا وہ ایک اور اسٹریٹ چائلڈ تو پیدا نہیں کررہے ہیں؟ اسی طرح تعلیمی درسگاہوں میں بھی بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں واضح قانون سازی کے باوجود آج بھی بچوں کو جسمانی و جنسی تشدد کا سامنا ہے۔
بچوں پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 6 فیصد بچے جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور ایسے بچے اکثر گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق ملک میں موجود اسٹریٹ چلڈرن جہاں جسمانی تشدد کا شکار ہیں وہیں وہ جنسی ہوس کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔ 60 فیصد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ افسوس صد افسوس! ہمارا معاشرہ تشدد، درندگی، سماجی قدروں سے انحراف اور جنسی کج روی کی اندھیری کھائی میں گرتا جارہا ہے۔ جس کا نشانہ معصوم اور پھول جیسے بچے بن رہے ہیں۔ اخلاقی اقدار کی زبوں حالی اور ناآسودگی کے ستائے ہوئے کج رو عناصر معاشرے کے شفاف چہرے کو کس طرح داغدار کرتے ہیں پاکستانی سماج آج اس کی گھناؤنی اور دردناک تصویر پیش کررہا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر آوارہ گھومنے والے بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کو جرائم پیشہ عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر ان بچوں کے ذریعے گاڑیوں کے شیشے نکالنے، موٹر سائیکل، موبائل فون چھیننے کی وارداتیں، مسافر بسوں میں جیبیں کاٹنے، چوریاں کرنے اور گداگری کا کام کرواتے ہیں۔ اسٹریٹ چلڈرنز کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو والدین کی مرضی سے روزی کمانے دوسرے ملکوں اور شہروں سے اسمگل ہوکر آتے ہیں، جس میں زیادہ تر بنگالی، برمی اور افغانی بچے ہیں۔ دوسرے وہ پاکستانی بچے جو والدین کی سختی اور تشدد سے گھر چھوڑ کر بھاگ نکلتے ہیں، ان بچوں میں مزدوری کے دوران مالکان کے تشدد سے فرار ہونے والے بچے بھی شامل ہیں۔
اکثر بچے گلیمر کی دنیا کی چمک دمک اور مہنگے موبائل فون اور دیگر سامان آسائش کی وجہ سے چوری کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سڑکوں پر نظر آنے والے ان آوارہ بچوں کی عمر طویل نہیں ہوتی، ان کی روزمرہ خوراک اچھی نہیں ہوتی جس سے ان کی نشوونما بہتر نہیں ہوپاتی اور ان سے ہونے والے جنسی فعل یا کاروبار کے باعث یہ بچے مہلک انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس سی، ایچ آئی وی ایڈز، گنوریہ، سی فلس جیسی موذی بیماریاں شامل ہیں۔ ان موذی بیماریوں کے لاحق ہونے سے ان معصوم بچوں کی عمر طویل نہیں ہوپاتی اور یہ بچے جان لیوا موذی بیماریوں میں مبتلا ہوکر 10 سے 15سال کی عمر میں ہی مرجاتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن جنوبی ایشیا کی 2011 کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 30 ہزار سے زائد بچے غریب و مفلس پائے گئے، جن میں سے 1700 بچے پارکوں، کھلے میدانوں، ریلوے اسٹیشنوں اور فٹ پاتھوں پر رہ رہے تھے۔ بچوں کے حقوق پر کام کرنے والا سماجی ادارہ روشنی ٹرسٹ کے مطابق کراچی میں سالانہ 4 ہزار بچے مختلف وجوہات پر لاپتہ ہوجاتے ہیں، لاپتہ بچوں کے مقدمات درج نہ ہونے کے باعث یہ واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔ واضح رہے کہ 2011 میں عدالتی حکم کے مطابق حکومت سندھ اور اس کے متعلقہ ادارے بے گھر اور غریب بچوں کو پناہ، تحفظ اور تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ذمے دار ہیں۔ محکمہ سماجی بہبود نے بے سہارا بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی پر عمل درآمد کے لیے حال ہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کے علاوہ پہلے ہی سے سندھ میں حکومتی دعوؤں کے مطابق 12 کے قریب چائلڈ پروٹیکشن یونٹس فعال ہیں، لیکن اس کے باوجود بے گھر بچے گلی کوچوں میں بے یار و مددگار نظر آرہے ہیں۔
یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ اگر نجی اور سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ سے کہا جائے کہ وہ اسٹریٹ چلڈرنز کو بھی تعلیم دیں تو ان کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ یہ بچے ہمارے اسکول کا ماحول خراب کریں گے لہٰذا ہم انھیں اسکول میں داخلہ نہیں دے سکتے۔ شاید انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ اگر آج ہم ان آوارہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے تو آنے والے وقت میں یہ معصوم بچے کسی کے ہتھے چڑھ کر انھیں غلط راستے پر لگا سکتے ہیں، اس طرح ان کی زندگی اندھیری کھائی کی نذر ہوسکتی ہے جو ملک و قوم کے لیے سودمند نہیں ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم اسپاک کی اسٹیٹ آف چلڈرن رپورٹ 2014 کے مطابق پنجاب میں 13 ملین لڑکے اور 6.8 ملین لڑکیاں، سندھ میں 6.1 ملین لڑکے اور 3.3 لڑکیاں، خیبرپختونخوا میں 2.4 ملین لڑکے اور 1.7 ملین لڑکیاں، جب کہ بلوچستان میں 1.77 ملین لڑکے اور 0.9 ملین لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی سطح پر بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بھوک و افلاس کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جائے، کیوں کہ غربت کے باعث پاکستان میں بچوں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ بچوں کو بنیادی تعلیم، صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے ملک گیر سطح پر ایسے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان بچوں کو گھر جیسی سہولتیں فراہم کی جائیں، ان کی نفسیاتی تربیت کی جائے تاکہ وہ ماں باپ سے بچھڑنے کے غم کو بھلا سکیں۔ اگر بچے والدین سے ناراض ہوں تو ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں این جی اوز اور مخیر حضرات بھی اپنا کردار ادا کریں۔