اخلاقیات برائی کا جواب اچھائی سے ایک برطانوی نژاد پاکستانی نے سبھی کے دل موہ لیے

امین چودھری اور بین گالن کے واقعے کو بریڈ فورڈ میڈیا نے نمایاں انداز میں اجاگر کیا۔

امین چودھری اور بین گالن کے واقعے کو بریڈ فورڈ میڈیا نے نمایاں انداز میں اجاگر کیا۔ : فوٹو : فائل

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، برطانوی شہر بریڈ فورڈ کا رہائشی پاکستانی نژاد تیس سالہ امین چودھری اپنے کسی کام سے جارہا تھا۔ راہ میں ایک ہوٹل کے سامنے سے گزر ہوا۔ ہوٹل کے دروازے پر ایک انگریز نوجوان استادہ تھا۔ نوجوان نے گندمی رنگت والے امین کو دیکھا، تو اس کی طرف نفرت انگیز متعصب جملے اچھال دیئے۔ جذبات بھڑکا دینے والے جملے سن کر امین چودھری رک گیا۔ آگے کا واقعہ پڑھنے سے قبل کچھ ذکر بریڈ فورڈ کا ہوجائے۔

آپ نہیں جانتے، تو جان لیجیے کہ برطانیہ میں سب سے زیادہ پاکستانی بریڈ فورڈ میں آباد ہیں۔ اسی لیے لندن سے 172 میل دور واقع یہ شہر ''بریڈستان'' بھی کہلاتا ہے۔ شہر کی آبادی پانچ لاکھ اکیاسی ہزار ہے اور اس میں سے 20 فیصد یعنی ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ ان پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق میر پور (آزاد کشمیر) سے ہے۔ مسلم بھارتیوں اور بنگلہ دیشیوں کو ملایا جائے، تو شہر کی 25 فیصد آبادی مسلمان قرار پاتی ہے۔ شہر کے 45 فیصد باشندے انگریز ہیں۔

یہ بریڈ فورڈ ہی ہے جہاں جولائی 2001ء میں ایشیائی اور انگریز نوجوانوں کے مابین زبردست فساد ہوا تھا۔ فساد کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلم مہاجرین کی مخالف انتہا پسند برطانوی سیاسی جماعت، نیشنل فرنٹ نے شہر میں مظاہرہ کیا۔ اس میں بڑی تعداد میں قدامت پسند انگریز شریک ہوئے۔ یہ انگریز ایشیائی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگانے لگے۔ ایشیائی نژاد نوجوانوں کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے گوروں پر ہلّہ بول دیا۔ جلد ہی فساد کئی علاقوں میں پھیل گیا۔ گورے اور ایشیائی نوجوانوں نے ایک دوسرے کی دکانوں، کاروں اوردفاتر پر حملے کیے۔

اس فساد کے بعد بریڈ فورڈ میں سفید فام اور ایشیائی باشندوں کے مابین تناؤ بڑھ گیا۔ شہر میں ایک دوسرے پر اشتعال انگیز جملے اچھالنا معمول بننے لگا۔ اس واقعے کو گزرے پندرہ سال بیت چکے مگر تناؤ میں خاص کمی نہیں آئی۔ اس پس منظر کے باعث جب امین چودھری گورے کی سمت بڑھا تو وہ یہی سمجھا کہ ایشیائی نوجوان جملہ کرنے لگا ہے۔ لہٰذا وہ بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگیا۔

لیکن امین چودھری نے قریب پہنچ کر اسے سلام کیا، ہاتھ ملایا اور سفید فام نوجوان سے حال چال پوچھنے لگا۔ اس 27 سالہ گورے کا نام بین گالن تھا۔ وہ ہکا بکا ہوکر امین کو گھورنے لگا۔ باتوں باتوں میں امین کو معلوم ہوا کہ گالن بے روزگار ہے۔ یہی نہیں، وہ رقم کی قلت کے باعث اپنے فلیٹ سے بھی محروم ہوچکا۔ اب وہ ایک خیراتی ادارے میں قیام پذیر تھا۔ امین جان گیا کہ یہ گورا نوجوان اسے دیکھتے ہی غصّے میں کیوں آیا؟ دنیائے مغرب میں یہ خیال عام ہے کہ باہر سے ایشیائی و افریقی آکر ان کی ملازمتوں پر قبضہ کررہے ہیں۔


امین چودھری نے بین گالن سے موبائل نمبر لے کر وعدہ کیا کہ وہ اسے کوئی ملازمت دلوانے کی سعی کرے گا۔ یہ کہہ کر اس نے گالن کو گلے لگایا اور رخصت ہوا۔ ایشیائی نوجوان کے نیک اخلاق و اطوار اور انکسار نے اسے شرمندہ کردیا۔ مگر اسے یہ قطعاً امید نہیں تھی کہ وہ اسے ملازمت دلوا دے گا۔

اگلے ہی دن اسے امین کا فون موصول ہوا۔ دراصل اس کے ایک واقف کار کاروباری دوست کو ٹیلی فون آپریٹر کی ضرورت تھی۔ امین نے فوراً بین گالن کو فون کرکے دفتر کا پتا بتایا اور اسے وہاں پہنچنے کا کہا۔ گالن کو وہ ملازمت مل گئی۔ یہی نہیں، اسی شام امین نے اس کے لیے مناسب کرائے والا ایک فلیٹ بھی ڈھونڈ نکالا۔ غرض امین کے ایثار و قربانی نے بین گالن کا دل جیت لیا۔ وہ پھر اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوا اور نفرت انگیز جملے کہنے پر امین سے معذرت طلب کی۔ وہ پاکستانی نژاد مسلم تو پہلے ہی کھلے دل سے اسے معاف کرچکا تھا۔ بلکہ اس نے اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چلتے ہوئے اپنے مخالف کو دوست بنالیا۔ رحم دلی آپﷺکو بہت محبوب تھی۔

بین گالن کا کہنا ہے ''امین پر اشتعال انگیز جملے اچھالنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ امین کا بڑا پن ہے کہ اس نے مجھے معاف کردیا۔ میں اپنے کیے پر سخت شرمندہ ہوں۔ بہرحال اس واقعے کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور مجھے سبق مل گیا۔ میں نے جو کیا وہ میرے کردار سے لگا نہیں کھاتا اور میں نسل پرست نہیں۔ بس بیروزگاری اور شراب کے نشے نے مجھے بھٹکا دیا۔ اب میں اپنی نئی زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہورہا ہوں۔ شکریہ امین!''

اس انوکھے واقعے کے متعلق رحم دل امین کہتا ہے ''جب میں نے گورے کے نفرت انگیز جملے سنے تو قدرتاً پہلے مجھے غصہ آگیا۔ پھر مجھے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یاد آیا جو کامل اخلاق کے مالک تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ نسل پرستی کے عفریت کو امن و محبت کی نرم و میٹھی پھوار سے بھی ختم کرنا ممکن ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ میں دنیا کو سیدھے راستے پر چلانے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن لوگوں کو حق کی تعلیم تو دے سکتا ہوں۔''

امین چودھری اور بین گالن کے واقعے کو بریڈ فورڈ میڈیا نے نمایاں انداز میں اجاگر کیا۔ امین کو یقین ہے کہ یوں شہر میں ایشیائی نژاد باشندوں اور انگریزوں کے مابین افہام و تفہیم کی فضا جنم لے گی اور انہیں احساس ہوگا کہ نسل پرستی کا مقابلہ نفرت نہیں محبت سے کرنا ہی ممکن ہے۔ سبھی قومیتیں ایک دوسرے کا جتنا احترام کریں ، نسل پرستی اتنی ہی جلد اپنی موت آپ مرسکتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ برداشت بزدلی نہیں بلکہ خوش و خرم زندگی گزارنے کا اہم اصول ہے۔ حضرت علیؓ کا ایک خوبصورت قول اس انسانی خاصیت کو یوں عیاں کرتا ہے: ''پھول کی طرح بنو جو مسلنے والے ہاتھوں کو بھی خوشبو سے بھر دیتا ہے۔''
Load Next Story