پاکستان ناسور نہیں ناگزیر ہے
پاکستان ہمارے وجود ہی میں نہیں، بلکہ روح تک میں بسا ہوا ہے۔
KARACHI:
بات جذبات کی نہیں بلکہ ہوش و حواس کی ہے۔ کوئی بھی پاکستانی، چاہے وہ ادنیٰ درجے کا محب وطن ہی کیوں نہ ہو، یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے لئے غلط الفاظ استعمال کئے جائیں، اسے ناسور کہا جائے اور اس کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں۔
فلسفیانہ اور دانشورانہ مباحث اپنی جگہ، لیکن اب تک کی تاریخ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی ناگزیر تھا۔ خدانخواستہ، ثم خدانخواستہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو آج ایک غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت شاید ابتر سے بھی بدتر ہوتی۔ اس کا اندازہ مجھے اکتوبر 2004ء میں ہوا۔
اُس سال ''سائنس اینڈ ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک'' نامی ادارے نے دہلی میں اپنے ساؤتھ ایشیا گیٹ وے کی افتتاحی تقریب منعقد کی اور اس موقعے پر ہندوستان کے علاوہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور سری لنکا سے منتخب سائنسی صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس وقت نریندر مودی کی متعصب حکومت نہیں تھی لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار سے متعلق کچھ اہم مشاہدات ضرور ہوئے۔
ہندوستان میں سیکولر آئین اور قانون ہونے کے باوجود، زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ مثلاً یہ معلوم ہوا کہ اگر آپ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ہیں اور ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے مسلم تشخص سے پیچھا چھڑایئے، ورنہ ترقی کے دروازے آپ پر بند ہیں۔ دبے لفظوں میں اس کا اظہار ہندوستان کے کچھ مسلمان صحافیوں نے بھی کیا۔ یہاں ''مسلم تشخص'' کا مفہوم صرف عقیدے، عبادات اور مخصوص رسوم و رواج تک محدود نہیں بلکہ اس میں زبان سے لے کر رسم الخط تک، ہر وہ چیز شامل ہوجاتی ہے جس کا تعلق مسلمان ہونے سے ہے۔
پرانی دلّی ایک گنجان آباد علاقہ ہے لیکن ہندوستانی حکومت وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے گریزاں رہتی ہے، کیونکہ وہاں پر اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ دڑبوں جیسی چھوٹی چھوٹی کھولیاں، ضروریاتِ زندگی کی قلت اور غربت کی فراوانی گویا پرانی دلی کا طرہ امتیاز بن چکی ہیں۔ دریا گنج میں ہر اتوار کو کتابوں کا بڑا بازار ضرور لگتا ہے لیکن وہاں رہنے والے عام لوگوں کے لئے معیاری تعلیم کا حصول بہت مشکل ہے، خاص کر کہ جب وہ مسلمان ہوں۔
باوجودیکہ اردو، دلّی کی تیسری سرکاری زبان شمار ہوتی ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور عملاً وہاں اردو پڑھنے اور لکھنے پر ایک غیراعلانیہ پابندی موجود ہے۔
ممبئی (بمبئی) میں شیوسینا سے منظوری حاصل کئے بغیر کوئی مسلمان ذاتی فلیٹ یا مکان خرید ہی نہیں سکتا، چاہے وہ کتنا ہی باحیثیت کیوں نہ ہو۔ غرض کہ لکھنا جاری رکھا جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار سے متعلق ایسے کئی گھناؤنے زمینی حقائق سامنے آتے چلے جائیں گے جو پاکستان کے ناگزیر ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
یہ لکھتے وقت مجھے بے اختیار استاد محترم جناب سیّد قاسم محمود کی یاد آرہی ہے۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے آزاد پاکستان کی فضاؤں میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا۔ لیکن سیّد صاحب کی شاگردی میں آنے کے بعد ہی صحیح معنوں میں یہ معلوم ہوا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزادی کی قیمت کس طرح اپنے خون سے چکائی تھی، اور ہجرت کے دوران کیسی کیسی آزمائشیں درپیش ہوئی تھیں۔
ہجرت کے متعدد واقعات میں نے سیّد صاحب کی زبانی سنے، اور استادِ محترم جب یہ واقعات سنایا کرتے تھے تو ان کے لہجے کا زیر و بم اور چہرے کے تاثرات یکسر مختلف ہوا کرتے تھے۔ ان ہی قصوں میں جب وہ پاکستان کی سرزمین پر پہنچنے کا تذکرہ کیا کرتے تو ان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی طرح کی چمک ہوا کرتی تھی۔ پاکستان اُن کے وجود ہی میں نہیں، اُن کی روح تک میں بسا ہوا تھا، اور اس کا اظہار میں نے ایک مرتبہ نہیں، کئی بار براہ راست دیکھا۔ غرض یہ یادیں میرے لئے آج تک ناقابل فراموش ہیں، اور ہمیشہ رہیں گی۔
سیّد صاحب نے حکومتوں سے شکوے شکایتیں بھی کئے لیکن پاکستان سے اُن کی بے پایاں اور غیر مشروط محبت مرتے دم تک برقرار رہی، اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ترقی کے جتنے اور جیسے مواقع ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے حاصل ہیں، وہ غیر منقسم ہندوستان میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سرزمین پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ خرابیوں کی وجہ ریاست خود نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا انتظام چلانے والے اور یہاں رہنے والے لوگ ہیں۔
اکثر وہ یہ بات کہا کرتے تھے،
پاکستان سے مسلسل شکایت کرنے والوں کے بارے میں قاسم محمود کہتے تھے،
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بات جذبات کی نہیں بلکہ ہوش و حواس کی ہے۔ کوئی بھی پاکستانی، چاہے وہ ادنیٰ درجے کا محب وطن ہی کیوں نہ ہو، یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے لئے غلط الفاظ استعمال کئے جائیں، اسے ناسور کہا جائے اور اس کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں۔
فلسفیانہ اور دانشورانہ مباحث اپنی جگہ، لیکن اب تک کی تاریخ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی ناگزیر تھا۔ خدانخواستہ، ثم خدانخواستہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو آج ایک غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت شاید ابتر سے بھی بدتر ہوتی۔ اس کا اندازہ مجھے اکتوبر 2004ء میں ہوا۔
اُس سال ''سائنس اینڈ ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک'' نامی ادارے نے دہلی میں اپنے ساؤتھ ایشیا گیٹ وے کی افتتاحی تقریب منعقد کی اور اس موقعے پر ہندوستان کے علاوہ پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور سری لنکا سے منتخب سائنسی صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس وقت نریندر مودی کی متعصب حکومت نہیں تھی لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار سے متعلق کچھ اہم مشاہدات ضرور ہوئے۔
ہندوستان میں سیکولر آئین اور قانون ہونے کے باوجود، زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ مثلاً یہ معلوم ہوا کہ اگر آپ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ہیں اور ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے مسلم تشخص سے پیچھا چھڑایئے، ورنہ ترقی کے دروازے آپ پر بند ہیں۔ دبے لفظوں میں اس کا اظہار ہندوستان کے کچھ مسلمان صحافیوں نے بھی کیا۔ یہاں ''مسلم تشخص'' کا مفہوم صرف عقیدے، عبادات اور مخصوص رسوم و رواج تک محدود نہیں بلکہ اس میں زبان سے لے کر رسم الخط تک، ہر وہ چیز شامل ہوجاتی ہے جس کا تعلق مسلمان ہونے سے ہے۔
پرانی دلّی ایک گنجان آباد علاقہ ہے لیکن ہندوستانی حکومت وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے گریزاں رہتی ہے، کیونکہ وہاں پر اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ دڑبوں جیسی چھوٹی چھوٹی کھولیاں، ضروریاتِ زندگی کی قلت اور غربت کی فراوانی گویا پرانی دلی کا طرہ امتیاز بن چکی ہیں۔ دریا گنج میں ہر اتوار کو کتابوں کا بڑا بازار ضرور لگتا ہے لیکن وہاں رہنے والے عام لوگوں کے لئے معیاری تعلیم کا حصول بہت مشکل ہے، خاص کر کہ جب وہ مسلمان ہوں۔
باوجودیکہ اردو، دلّی کی تیسری سرکاری زبان شمار ہوتی ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور عملاً وہاں اردو پڑھنے اور لکھنے پر ایک غیراعلانیہ پابندی موجود ہے۔
ممبئی (بمبئی) میں شیوسینا سے منظوری حاصل کئے بغیر کوئی مسلمان ذاتی فلیٹ یا مکان خرید ہی نہیں سکتا، چاہے وہ کتنا ہی باحیثیت کیوں نہ ہو۔ غرض کہ لکھنا جاری رکھا جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار سے متعلق ایسے کئی گھناؤنے زمینی حقائق سامنے آتے چلے جائیں گے جو پاکستان کے ناگزیر ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
یہ لکھتے وقت مجھے بے اختیار استاد محترم جناب سیّد قاسم محمود کی یاد آرہی ہے۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے آزاد پاکستان کی فضاؤں میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا۔ لیکن سیّد صاحب کی شاگردی میں آنے کے بعد ہی صحیح معنوں میں یہ معلوم ہوا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزادی کی قیمت کس طرح اپنے خون سے چکائی تھی، اور ہجرت کے دوران کیسی کیسی آزمائشیں درپیش ہوئی تھیں۔
ہجرت کے متعدد واقعات میں نے سیّد صاحب کی زبانی سنے، اور استادِ محترم جب یہ واقعات سنایا کرتے تھے تو ان کے لہجے کا زیر و بم اور چہرے کے تاثرات یکسر مختلف ہوا کرتے تھے۔ ان ہی قصوں میں جب وہ پاکستان کی سرزمین پر پہنچنے کا تذکرہ کیا کرتے تو ان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی طرح کی چمک ہوا کرتی تھی۔ پاکستان اُن کے وجود ہی میں نہیں، اُن کی روح تک میں بسا ہوا تھا، اور اس کا اظہار میں نے ایک مرتبہ نہیں، کئی بار براہ راست دیکھا۔ غرض یہ یادیں میرے لئے آج تک ناقابل فراموش ہیں، اور ہمیشہ رہیں گی۔
سیّد صاحب نے حکومتوں سے شکوے شکایتیں بھی کئے لیکن پاکستان سے اُن کی بے پایاں اور غیر مشروط محبت مرتے دم تک برقرار رہی، اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ترقی کے جتنے اور جیسے مواقع ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے حاصل ہیں، وہ غیر منقسم ہندوستان میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سرزمین پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ خرابیوں کی وجہ ریاست خود نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا انتظام چلانے والے اور یہاں رہنے والے لوگ ہیں۔
اکثر وہ یہ بات کہا کرتے تھے،
''پاکستان نے ہمیں شناخت دی، عزت دی، مقام دیا لیکن اس کے بدلے میں ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہر شخص یہ تو پوچھتا ہے کہ پاکستان نے اسے کیا دیا، لیکن اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کرتا کہ اس نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔''
پاکستان سے مسلسل شکایت کرنے والوں کے بارے میں قاسم محمود کہتے تھے،
وہ لوگ جو اس ملک کی نیک نامی اور عزت کے لئے کچھ نہ کریں اور صرف یہی پوچھتے رہیں کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا، تو میرے نزدیک ان لوگوں کا وجود پاکستان کے لئے کسی ناسور سے کم نہیں۔'' یہ کہتے ہوئے استادِ محترم سیّد قاسم محمود کی آنکھیں سرخ ہوجایا کرتی تھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔