بہادر لوگوں کاہوش ربا خطہ

بالکل اندازہ نہیں تھا کہ گلگت بلتستان کے دورے میں اتنے معجزے دیکھنے کو ملیں گے۔


[email protected]

بالکل اندازہ نہیں تھا کہ گلگت بلتستان کے دورے میں اتنے معجزے دیکھنے کو ملیں گے۔ روانگی کے وقت سب سے پہلے یہی خدشہ لاحق رہا کہ اسلام آباد سے گلگت کے لیے فلائٹ جائے گی یا ''موسم کی خرابی''کے باعث کینسل ہوجائے گی، خوشگوار حیرت اسوقت ہوئی جب پی آئی اے کی فلائٹ عین وقت پر روانہ ہوگئی۔ بہت سے مسافروں کا خیال تھا کہ پی آئی اے میں بہتری آئی ہے، عوام ریلوے میں آنے والی بہتری کابھی ذکر کرتے ہیں جو خوش آئیندہے۔ طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے کا وقت بڑا سحرانگیز ہوتا ہے ، فطرت تمام پردے ہٹاکراپنے حسن کوبے نقاب کردیتی ہے۔گلگت ایئرپورٹ پر اترے تو ہوا میں خوشگوار سی خنکی تھی، جہاز مسافروں سے بھرا ہوا تھا مگر ایئرپورٹ مکمّل طور پر پرسکون اور شانت تھا، نہ شور نہ ہنگامہ نہ مسافروں کا رش، جہاز سے اترا تو ریسیو کرنے والوں میں نیوٹیک کے ڈائریکٹر جنرل نعیم صدیقی کے علاوہ گلگت میں تعینات ڈی آئی جی ہیڈکواٹرزانعام الرحمن بھی تھے۔

انعام میرے پاس نیشنل پولیس اکیڈیمی میں زیرِ تربیّت رہا تھا ،پڑھنے لکھنے کا شوقین سنجیدہ اور شستہ اطوار۔گلگت ایئرپورٹ کے اسٹیشن منیجر نے بھی گرمجوشی سے خیرمقدم کیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ''میں آپ کی تحریروں کا مستقل قاری ہوں'' گلگت میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتوںاور فنّی تربیّت کے اداروںکا معائنہ کرنے کے علاوہ زیرِ تربیّت نوجوانوں سے ملنے کا پروگرام تھا۔ مقامی اسٹاف نے میرے لیے سیرینا ہوٹل میں کمرہ بک کرارکھا تھا۔ انعام نے کہا ''تربیّتی ادارے کھلنے میں ابھی کچھ وقت ہے اتنی دیرآپ پولیس ریسٹ ہاؤس میں آرام کرلیں '' ریسٹ ہاؤس ایئرپورٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھااس لیے گاڑی میں بیٹھنے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔ پولیس ریسٹ ہاؤس کا ماحول بھی دلفریب تھا اور کرایہ بھی کم تھا اس لیے ہم نے ہوٹل کی بکنگ کینسل کرادی اور وہیں رہنے کا پروگرام بنالیا۔گلگت جیسا پرسکون ایئرپورٹ میں نے کہیں نہیں دیکھا، نہ جگہ جگہ چیکنگ نہ بے جا سیکیوریٹی۔ اﷲ کرے ایسے حالات قائم و دائم رہیںاور یہاں کا امن و سکون کسی دشمن کی گندی نظر اور برے ارادوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔

گلگت بلتستان کے وزیرِاعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن ایک پرجوش، ایماندار اور باکردار شخص ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ قبلہ شاہ صاحب کی مالی اور اخلاقی کرپشن کی داستانیں یہاں زبان زدِ خاص و عام تھیں۔ اُنکے بعد اِس علاقے کو ایسا درویش منش وزیرِ اعلیٰ نصیب ہونا بھی عوام کے لیے ایک معجزے سے کم نہیںہے۔ حافظ صاحب پوری فیملی کے ہمراہ اسلام آباد میںجی بی ہاؤس کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں مگر پی پی پی کے وزیرِ اعلیٰ نے سرکاری رہائش گاہ ہوتے ہوئے بھی اپنا ذاتی گھر ہائر کیا ہوا تھا جسکا جی بی کی غریب حکومت پانچ ہزار ڈالر ماہانہ معاوضہ یا جرمانہ قبلہ شاہ صاحب کو ادا کرتی تھی۔ اسکردو میں موصوف نے اپنے ذاتی گھر پر کروڑوں روپیہ سرکاری خزانے سے لگوادیااورمحکمہ تعلیم کی سیکڑوں اسامیاں پیسے لے کر فروحت کردیں، مگر کرپشن کے خلاف ''جہاد'' کرنے والے مجاہدین جناب بلاول بھٹو صاحب اور جناب اعتزاز احسن صاحب مکمل طور پر خاموش رہے اپنوں کی کرپشن انھیں انتہائی فرحت بخش اور روح افزأ لگتی رہی اس لیے انھوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔

وزیرِ اعلیٰ سے اسلام آباد میں ہی ملاقات ہوگئی تھی جب انھیں کہا گیا کہ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے کے نوجوانوں کو باروزگار بنانے کے لیے انھیں ہنر سکھانا ہوگا اور اس کے لیے اعلیٰ معیار کے ادارے قائم کرنا ہونگے تو ان کا ردّ ِعمل بڑا مثبت اور پرجوش تھا۔ انھوں نے فوری طور پر چیف سیکریٹری کو ہدایات دے دیں۔ چیف سیکریٹری طاہر حسین ایک پروفیشنل اور محنتی آفیسر ہیں ، پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے پیشرؤں (جن میں سے کئی چیف سیکریٹری سال میں چارمہینے اور کئی سال میں صرف تیس دن جائے تعیناتی پر جلوہ افروز رہے)کے برعکس زیادہ وقت وہیں گزارتے ہیں ، مگر ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی افسر بھی نیک نیّتی اور جوش و جذبے کے ساتھ کام کریں اور سُستی کے چوغے اُتار کر اپنی رفتار تیز کریں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں فنّی تربیّت کا ایک بھی سرکاری ادارہ نہیں ہے پولی ٹیکنیکل کالج کی عمارت کئی سالوں سے زیرِ تعمیر ہے۔ چیف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ میں متعلقہ سیکریٹری ایجوکیشن بھی موجود تھا، ہم وہاں کے ہزاروںنوجوانوں کو ہنرمند بنانا چاہتے ہیںاور انشااﷲبنائیں گے مگروہاں کے سیکریٹری ایجوکیشن کو نہ اس میں دلچسپی ہے اور ذاتی'' مصروفیات ''کی وجہ سے نہ اس کے پاس نیوٹیک سے میٹنگ کرنے کا وقت ہے ۔ بہرحال اس بار چیف سیکریٹری طاہر صاحب نے ذاتی طور پر یقین دلایا ہے کہ یہ کالج اس سال کے آخر تک مکمّل ہوجائے گا اور اگلے سال وہاںفنّی تربیّت کے کورس شروع ہوجائیں گے۔

راقم نے تجویز کیا کہ اس ادارے میں تربیّت اور ڈسپلن کا معیار بہتررکھنے کے لیے اس کا سربراہ کسی ملٹری افسرکو مقّرر کیاجائے کیونکہ ٹریننگ کے ساتھ فوجی افسروں کی کمٹمنٹ سول افسروں سے کہیں زیادہ ہے ۔ چیف سیکریٹری کی زبانی معلوم ہوا کہ اس سال (اگست سے پہلے تک) سات لاکھ سیّاح گلگت بلتستان آئے ۔جس سے ضروریات کی بنیادی اشیاء۔آٹا اور پٹرول ختم ہوگئے اور اس قلّت پر کئی دنوں تک قابو نہ پایا جاسکا۔ اس علاقے میں سیّاحت کا فروغ بڑا خوش آئیند ہے، اب تک سیاحّوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔آئیندہ اس سلسلے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔

ناردرن ایریا فورس کے کمانڈر میجر جنرل عاصم سلیم ایک پر عزم کمانڈر ہیںان سے ملاقات بڑی حوصلہ افزاء رہی، ان کی قیادت اور نگرانی میں فوج نے جی بی حکومت کو چار مہینوں میں بیس کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت اسکول تعمیر کرکے دے دیاہے۔امیّد ہے کہ فوج کاتعمیر کردہ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بھی ایک ماڈل ادارہ ہوگا۔ اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد ہم فنّی تربیّت کے ادارے دیکھنے کے لیے نکل پڑے جہاں نیوٹیک کے تربیّتی کورس چل رہے ہیں،یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس پسماندہ علاقے میں بھی لڑکے کہیں الیکٹریشن کا کورس کررہے ہیں اور کہیں آٹو کیڈ کا ۔ لڑکیاں کمپیوٹر پر گرافک ڈیزائیننگ بھی سیکھ رہی ہیں اور ایمبرائیڈری اورفیشن ڈیزائننگ بھی اور اس کے ساتھ ساتھ پتھروں کو ہیرے بنانے کی تربیّت بھی لے رہی ہیں جس کے لیے جَیم اینڈ جیولری انسٹیٹیوٹ میں بڑی تعداد میں زیرِتربیّت لڑکیوں سے ملاقات ہوئی ، ہر ادارے میں لڑکے اور لڑکیاں پر اعتماد بھی تھے اور پر عزم بھی۔ ہر جگہ طلباء و طالبات کا حوصلہ بڑھایا گیا اور انسٹرکٹرز کو مزیدمحنت کرنے کی تلقین کی گئی۔ آخر میں تمام اداروں کے سربراہوں کا اجلاس بلا کر انھیں فنّی تربیّت کی افادیّت اور ملک کے مستقبل کے لیے اس کی اہمّیت سے آگاہ کیا گیا۔

گلگت اور ہنزہ میں تعلیم ، صحت اور کمیونیٹی ڈویلپمنٹ کے شعبوںمیں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کاکام قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔ اے کے آر ایس پی کے ذمے داران بھی ہمارے ساتھ رہے۔ شام کو پروگرام کے مطابق ہم گلگت سے روانہ ہوکرڈیڑھ گھنٹے میں وادیٔ ہنزہ کی آغوش میں اترگئے۔۔ قدرتی حسن کیا ہے؟ پھولوں کے رنگ، آنکھوں کو طراوت بخشنے والا سبزہ ، ٹھنڈ ا اور میٹھا پانی، پھلوں سے لدے ہوئے پودے، چشموں کا ترنم، پرندوں کی چہچہاہٹ، فلک بوس پہاڑ، برف سے لپٹی ہوئی چوٹیاں۔ ہنزہ میں قدرتی حسن کے یہ تماتر مظاہراپنی حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ فطرت اپنے حسن کی تمام تر رعنائیوں ،دلفریبیوں اور جلوہ طرازیوں کے ساتھ یہاں ھمہ وقت موجود رہتی ہے۔ (جاری ہے)

احتیاط، احتیاط، احتیاط

نوٹ: کراچی میں کسی سیاسی جماعت کے خلاف بڑی کارروائی کے لیے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ الطاف حسین کی ذہنیت اور ملک کے بارے میں اس کے خیالات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، وہ تو دشمن ملک میں جاکر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا ہے۔ اسوقت اس کے خلاف کارروائی کیوںنہ کی گئی۔ماضی میں اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کے ساتھ اتحاد کیا تو غلط نہیں کیاکیونکہ ایم کیوایم کو مین اسٹریم میں رکھنا ضروری تھا۔ جرم توجنرل مشرّف نے کیا جس نے ان کے مجرموں اور قاتلوں کو جیلوں سے رہا کردیا، مشرّف سے اس کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

اب جب کہ ہمسایہ ملک میںپاکستان اور مسلمانوں کا بدترین دشمن حکمران بن گیاہے،ہمیں ملک کے اقتصادی مرکز میں بے پناہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے ناراض اور غصیلے بچوں کو بھی سینے سے لگا لیتی ہے، پوری کمیونیٹی ناراض تو ہوسکتی ہے ملک دشمن نہیں ہوسکتی۔کراچی میں رہنے والے ایم کیوایم کے مخالفوں کے اپنے بقول ایم کیوایم کے پچانوے فیصد لوگ محبِ وطن ہیں مگر وہ مجبور ہیں، ان کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ کراچی کے کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز دونوں نیک نام ہیں، انھیں دو چیزیں ہر وقت پیشِ نظر رکھنی چاہئیں۔

ملک کا مفاد اور تاریخ سے سیکھا گیا سبق !۔ فاشزم پر کھڑی کی گئی تنظیمیں خو د بخود فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ متباد ل سیاسی جماعتیں کھڑی کرنا فوج کا کام نہیں ہے، نہ فوج کو ایسا کرنا چاہیے۔ اِسوقت سخت احتیاط لازم ہے ایم کیو ایم کے لوگ خود الطاف کے عذاب سے نجات حاصل کرلیں گے اور کسی بہتر فرد کو اپنا قائد چن لیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں