پاکستانیوں کا کام نمبر ون
اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ دنیا میں وہ کون سا ’’کام‘‘ ہے جو سب سے زیادہ کیا جاتا ہے
لاہور:
اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ دنیا میں وہ کون سا ''کام'' ہے جو سب سے زیادہ کیا جاتا ہے تو جواب میں شاید آپ یہ کہیں کہ سب سے زیادہ کام یہ انسان لوگ ''کھانے پینے'' کا کرتے ہیں بلکہ اسی کام کے لیے جیتے ہیں اور مرتے ہیں، لیکن یہ جواب غلط ہو گا کہ یہ کام تو جانور حتیٰ کہ لیڈر لوگ بھی کرتے ہیں، دوسرا شاید یہ جواب دیں کہ انسان سب سے زیادہ باتیں کرتا ہے لیکن یہ بھی صحیح جواب نہیں ہے کیوں کہ ہم نے ''کام'' کہا ہے اور باتیں ''کام'' کی ضد ہیں۔ مانا کہ صرف انسان وہ واحد مظلوم ہے جو حیوان ناطق ہے اور سب سے بڑا ظالم بھی ہے کہ یہ ہتھیار خود ہی پر آزماتا اور کشتوں کے پشتے لگاتا رہتا ہے،
اشک سے میر ے فقط دامن صحرا نہیں تر
کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ کمر پانی میں
تو جس کام کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ کام ہے از خود نوٹس... ساری سیاہی ختم ہو جائے گی اور از خود نوٹس کی ایک جلد بھی مکمل نہ ہو سکے، لیکن جس از خود نوٹس کی طرف ہمارا اشارہ ہے اس کے لیے جج ہونا یا قانون سے واقف ہونا ضروری نہیں بلکہ لکھا پڑھا ہونے کی بھی چنداں ضرورت نہیں، از خود نوٹس لے کر چلو بھر پانی میں اپنی ناک رکھ دے،ویسے تو تقریباً ہر پاکستانی ''از خود نوٹس'' لینے میں ماہر ہوتے ہیں جب بھی دو آدمی آپس میں ملتے ہیں یہی کام کرتے ہیں کیوں کہ از خود نو ٹس لینا ہی صحیح پاکستانیت کی پہچان ہے۔
لنکا میں جیسا کہا جاتا ہے کہ سب باون گزے ہوتے ہیں ویسے ہی پاکستان میں ہر کوئی از خود نوٹسیا ہوتا ہے اور جو جو از خود نوٹس لینے کے فن سے بہرور نہیں ہوتے انھیں کھلے عام اجازت ہے کہ بھاڑ میں جائے... بھاڑ وغیرہ تو آج کل ہوتا نہیں حالانکہ جھونکنے والے بہت ہیں اس لیے از خود نوٹس کی صلاحیت نہ رکھنے والے یہاں سے نکل کر یہاں وہاں بھٹکتے ہیں، کنٹینروں میں مرتے ہیں، لانچوں میں غرق ہوتے ہیں یا کسی ملک کی جیل میں سڑتے رہتے ہیں ورنہ جن کو از خود نوٹس لینا آتا ہے وہ کیا پاگل ہیں کہ جو یہاں سے کہیں اور جائے کہ از خود نوٹس کے سب سے زیادہ ''مواقع'' اس ملک میں دستیاب ہیں اور پھر آج کل تو حکومت نے یہ مواقع اور بھی بڑھائے ہوئے ہیں ... پانامہ ہے لوڈ شیڈنگ ہے، عمران خان ہیں، علامہ طاہر القادری ہیں، شیخ رشید ہیں بلکہ ایان علی اور میرا بھی ہیں، امریکا ہے، افغانستان ہے، بھارت ہے کشمیر ہے دہشتگردی ہے مطلب یہ کہ کیا کچھ نہیں ہے
شفق، دھنک، مہتاب، ہوائیں، بجلی، تارے، نغمے، پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو
لیکن ایسا ہوتا ہے کہ ایک فن کے ہزاروں لاکھوں ماہرین میں کچھ لوگ ٹاپ ٹین یا ٹاپ فائیو میں ہوتے ہیں ہم یہاں صرف ''ٹاپ تین'' کا از خود نوٹس لیں گے ان میں سب سے پہلے تو ہمارے کپتان صاحب ہیں جو کرکٹ کے بعد اب ''از خود نوٹس'' کے کھیل میں بھی عالمی نمبر ون ہیں ان کو از خود نوٹس لینے کے اس فن شریف میں جو یدطولیٰ حاصل ہے کہ اگر کوئی مکھی بھی ان کے گرد بھنبھنائے یا نہ بھنبھنائے تو اس کا بھی از خود نوٹس لے سکتے ہیں اور ایسا از خود نوٹس ... کہ مکھی کی اگلی اور پچھلی سات پشتیں تک ایسی سیدھی ہو جائیں گی کہ پھر اس علاقے میں پرویش نہیں کریں گی جہاں سو میل کے دائرے میں خان صاحب یا ان کا از خود نوٹس پایا جاتا ہے۔
خان صاحب کے از خود نوٹس کو اگر ہمہ گیر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا اس وقت حکومت کا کوئی ادارہ یا محکمہ ایسا نہیں ہے جو بے پناہ کام نہ کر رہا ہو یہ الگ بات ہے کہ یہ کام وہ نہیں ہوتا جس کے لیے یہ ادارے اور محکمے بنائے گئے ہیں، خان صاحب ایکٹیو بھی بہت ہیں اتنی تیزی اور کثرت سے از خود نوٹس لیتے ہیں کہ ابھی ایک از خود نوٹس چل ہی نہیں رہا ہوتا کہ دوسرا از خود نوٹس اس سے آگے نکلنے کے لیے آگیا ہوتا ہے، یوں وہ سارے از خود نوٹس اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایک دوسرے کا از خود نوٹس لے رہے ہیں ان کا اپنا پسندیدہ اور ہارٹ فیورٹ از خود نوٹس تو ''دھرنا'' ہے لیکن دوسرے از خود نوٹسوں کے باعث ابھی تک ایک بھی دھرنا نوٹس مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
، حسرت ان دھرنوں پر... دوسرے اس فن کے ماہر جناب علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری تو از خود نوٹس لینے کے اتنے رسیا ہیں کہ اس چلچلاتی دھوپ اور کھڑکھڑاتی گرمی میں سات سمندر پار سے بھی اپنا آرام و آسائش چھوڑ کر اور سفر کا دکھ بھول کر اپنے اس فرض کو نبھانے آ جاتے ہیں، ذرا ان کا جذبہ دیکھیے شوق دیکھیے اور لگن دیکھیے کہ اس بے پناہ گرمی میں کینیڈا کے باغ و بہار موسم اور گل و گلزار ماحول کو چھوڑ کر آنا کوئی معمولی دل گردے کا کام ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی برکات سے کینیڈا کے موسم اور ماحول کو بھی اپنے ساتھ کنٹینر میں ڈال کر یہیں لے آتے ہیں۔
ان کی آمد اور جناب کپتان صاحب سے تعلق کا ایک فائدہ تو فوری طور پر ہوا ہے کہ انھوں نے اس مرتبہ کافی سارا کینیڈا کا موسم ان کو بھی دے دیا ہے جو وہ کنٹینر میں ڈال کر استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ سنا ہے کہ از خود نوٹس لینے کے لیے موسم اور ماحول مناسب ہونا چاہیے، ارے ہاں وہ اپنے اصلی جدی پشتی اور پروفیشل نوٹس باز و نوٹس ساز جناب شیخ رشید کو تو ہم بھول گئے، جو بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ فل ٹائم از خود نوٹس لینے والے ہیں، یہ باقی لوگ کو تو ساتھ میں کبھی کبھار کچھ اور کام بھی کر لیتے ہیں لیکن شیخ صاحب کے کیا کہنے ہیں کہ جب سے پیدا ہوئے ہیں انھوں نے از خود نوٹس لینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا ہے
سو پشت سے پیشہ آباء ''نوٹس گری''
کچھ ''لیڈری'' ذریعہ عزت نہیں مجھے
ویسے از خود نوٹس تو ہمارے جناب مدظلہ العالیٰ بھی لیتے ہیں لیکن ان کے زیادہ تر از خود نوٹس، تحفظات کے ہوتے ہیں اور نہایت متشرع اور وضو دار قسم کے از خود نوٹس ہوتے ہیں اور دوسری خوبی ان کے از خود نوٹسوں میں یہ ہے کہ نقد آور بھی ہوتے ہیں دیگر مذکورہ لوگوں کی طرح بانجھ قسم کے از خود نوٹس وہ کبھی جاری نہیں کرتے، بہرحال اب تو آپ قائل ہو گئے ہوں گے کہ اگر بین الاقوامی سطح پر از خود نوٹس کا کوئی میچ یا کپ یا مقابلہ ہوا تو پاکستان سے یہ مقابلہ کوئی بھی جیت نہیں پائے گا، کیوں کہ یہاں یہ فن ویسا ہی دوبہ ترقی اور ھمہ گیر ہے جیسا سوئٹزر لینڈ میں گھڑیوں کا کاروبار ہر گلی کوچے اور گھر میں ہوتا ہے۔