بھارت افغانستان اور پاکستان
بچپن میں ہی زندگی میں کسی دوسری قوم سے واسطہ پڑا تو یہ تھی افغان قوم
بچپن میں ہی زندگی میں کسی دوسری قوم سے واسطہ پڑا تو یہ تھی افغان قوم۔ اگرچہ ہنود اور سکھوں وغیرہ کے ساتھ زندگی شروع کی اور یہ ہم مسلمانوں سے بالکل مختلف قسم کے لوگ تھے یعنی مذہب اور رہن سہن کے اعتبار سے لیکن ان کے ساتھ کسی حد تک گزر بسر ہوتی رہی جس میں اجنبیت زیادہ نہیں تھی مگر افغان وہ لوگ تھے جو مذہب میں ہمارے ہمنوا تھے، ہم مذہب تھے اور زندگی کی بہت سی روایات میں ہم جیسے تھے مگر پھر بھی ان کے ساتھ ایک کاروباری تعلق ضرور رہا، برادرانہ اور قریبی میل جول کا تعلق پیدا نہ ہو سکا۔
افغان ہمارے ہاں ہر سال محنت مزدوری کے لیے آتے تھے، بارانی زمینوں کی اصلاح اور ان کو ہموار کرنے میں ہم سے بہتر تھے۔ اسی طرح مشقت کے دوسرے کاموں میں بھی وہ برتر تھے لیکن وہ رہن سہن میں الگ تھلگ تھے اور مل ملا کر زندگی بسر کرنے کے قائل نہ تھے۔ یوں تو اپنی غربت کی وجہ سے وہ گاؤں میں جہاں مزدوری کرتے تھے وہاں گداگری بھی باقاعدہ کرتے تھے اور کھانا گھروں سے مانگ کر لے آتے تھے مگر کہیں علیحدہ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ مقامی آبادی سے ان کا تعلق بہت محدود تھا۔ ہمارے ہاں وادی سون میں وہ مزدوری کے لیے سردیوں کے موسم میں آتے تھے اور سردیاں ختم ہونے پر واپس چلے جاتے تھے۔ یہ ان کا ہر سال کا معمول تھا لیکن ان سے کبھی چوری چکاری کی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔
زبان کا فرق نہ ہوتا تو ان میں اجنبیت بہت کم تھی۔ نماز روزہ میں وہ ہم سے زیادہ محتاط تھے اور عام زندگی میں بھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ صرف اپنے کام یعنی محنت مزدوری سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے گھر میں پانی کے لیے جو چھوٹا سا کنواں تھا جسے 'کھوئی' کہا جاتا تھا وہ ان افغانوں نے کھودی تھی اور اس دوران ہمارے ساتھ ان مزدور افغانوں کے بڑے تعلقات بن گئے تھے۔
میں تو بچہ تھا لیکن بعد میں جب والد صاحب کے لیے ان مزدوروں کا لیڈر کام ختم کرنے کے بعد ایک پوستین لے آیا تو ہم بچوں کو بھی احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق محض ایک مزدور اور آجر کا ہی نہیں کچھ زیادہ بھی ہے اور وہ اپنی حلال کی کمائی سے ایک قیمتی تحفہ بھی لے آئے ہیں۔ وہ اپنی اس مزدوری کو مستقبل کا تعلق بھی سمجھتے ہیں۔ بعد میں بھی آنا جانا رہا اور تحفہ تحائف کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ افغان عوام سے یہ پہلا رابطہ تھا جو ہمارے بڑوں کے درمیان ایک مدت تک جاری رہا۔ افغانستان سے جو خان صاحب سال بہ سال آیا کرتے تھے وہ آنا بند ہو گئے اور معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں اور ان کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔ مرحوم ایک بہت ہی ملنسار شخص تھے۔ بعد میں ایک آدھ بار مرحوم کا بیٹا بھی والد صاحب سے ملنے آیا۔
یہ تھا افغان قوم سے میرا یا ہمارا پہلا رابطہ جو جب تک رہا اگرچہ یک طرفہ رہا لیکن کسی گلے شکوے کے بغیر۔ نہ ہم میں کوئی ان کے ہاں افغانستان جا سکا اور نہ ان کے بزرگوں کے بعد ان کی طرف سے رابطہ قائم رہا۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے مزدوری ترک کر کے کاروبار شروع کر دیا ہے۔ یہ فراخدل افغان تھے اور جب بھی پاکستان آتے تحفہ تحائف کے ساتھ اور ہم اگر ان کے لیے کوئی تحفہ پیش کرتے تو وہ شکریہ کے ساتھ معذرت کر دیتے بعد میں خواتین سے مشورہ دیا کہ ان کی خواتین کے لیے ہم کچھ تحفے دیں گی وہ قبول کر لیے جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا اور افغان کی کڑھائی کے کچھ تحفے جواب میں موصول ہوتے رہے۔
عرض یہ ہے کہ افغان مزدور پیشہ ضرور تھے مگر رکھ رکھاؤ والے اور ایک مدت تک تعلق نبھاتے رہے۔ بعد میں جب دو ملکوں کے درمیان سیاست کا تعلق پیدا ہوا تو باہمی تعلقات کی نوعیت بدل گئی اور یہ مشہور ہوا کہ افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں اور مسلم بھائی چارے اور صدیوں قدیم تعلقات کی قدر کرتے ہیں لیکن حکمران سیاست کرنے لگے ہیں اور یہ غالباً ان کی سیاسی مجبوریاں تھیں کہ افغان حکومت بھارت کی حامی بن گئی لیکن افغان عوام بدستور پاکستان کے ساتھ رہے بلکہ افغان سیاست میں یہ ایک مشکل پیدا ہو گئی کہ حکومت بھارت کے ساتھ مگر عوام پاکستان کے ساتھ۔ عوام اپنی پرانی قدیمی روش پر چلتے رہے جب کہ حکمرانوں کی مجبوریاں انھیں بھارت کے قریب لے گئیں۔
ایسا کیوں اور کیسے ہوا یہ ایک الگ موضوع ہے جو پھر کبھی بہرحال افغان عوام اب تک پاکستان کے ہمنوا ہیں اور افغان حکمران اپنے مفادات کے تحت بھارت کے ساتھ جو بھارت کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے اپنے دشمن کے سر پر ایک ایسی حکومت بٹھا دی ہے جو اس کی حامی اور ساتھی نہیں ہے لیکن یہ بات اب تک واضح ہے کہ افغان عوام اب بھی بھارت کو کافر سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنی حکومت کے قریبی تعلق پر خوش نہیں ہیں چنانچہ افغانستان کے اندر سے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو بھارت کو ہر گز پسند نہیں ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان دینی تعلق کا توڑ بھارت کے پاس نہیں ہے۔