’جنرل ضیاالحق تاریخ کے غیر مطبوعہ اوراق‘
جنرل ضیاالحق کی برسی آئی اورخاموشی سے گزر گئی۔
جنرل ضیاالحق کی برسی آئی اورخاموشی سے گزر گئی۔ تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر نوازشریف کو شاید خبر بھی نہیں ہو سکی ہو گی ۔ وقت وقت کی بات ہے۔یہ وہی نوازشریف ہیں، جن کے بارے میںجنرل ضیاالحق کا یہ جملہ بہت مشہورہوا تھا کہ 'خداکرے میری عمر بھی نوازشریف کو لگ جائے، اور وہ بھی 17اگست کو جنرل ضیاالحق کی قبر پر باقاعدہ حاضری دیا کرتے تھے۔جنرل ضیاالحق اوران کادوراب تاریخ کا حصہ ہیں۔اگران کے مداح کم نہیں توان کے مخالف بھی کم نہیں۔ چوہدری شجاعت حسین، جنرل ضیاالحق دورمیں محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے ،پہلے وزیراطلاعات ونشریات پھروزیر صنعت وتجارت۔
پچھلے دنوں چوہدری شجاعت حسین ان کی رہایش گاہ سے ملاقات ہوئی۔ معلوم ہواکہ ان دنوں اپنی سیاسی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔چوہدری صاحب جس طرح بغیر کسی لگی لپٹی کے، بات کہنے کے عادی ہیں ، اس تناظر میں لگتا یہی ہے کہ ان کی یادداشتیں کافی دلچسپ ہو گی۔جنرل ضیاالحق کی برسی کا کسی نے ذکرکیاتوان کی شخصیت اوران کے دورکاذکربھی چھڑگیا۔' جنرل ضیاالحق کوآپ نے کیسا پایا؟' میں نے پوچھا۔انھوں نے کچھ دیرکے لیے توقف کیا، جیسا کہ ان کا انداز ہے اورپھر ایک لمبی سانس بھرکے کہا،'جنرل ضیاالحق کے مخالف ان کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں،اوران کوصرف فوجی ڈکٹیٹراورمارشل لاایڈمنسٹریٹرکے طورپر دیکھتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ایک بہت ہی شریف الطبع حکمران تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات اپنے والد کی شہادت کے دوتین روز بعد ہوئی تھی۔ وہ میرے والدکے جنازہ میں شرکت کے لیے آنا چاہتے تھے، لیکن سیکیورٹی کلیرنس نہ ملنے کی وجہ سے نہیںآسکے تھے۔ دوتین روزبعد وہ تعزیت کے لیے گجرات ہمارے گھر آئے اورکہا کہ چوہدری صاحب کی شہادت کاان کو بہت رنج ہوا ہے اوریہ کہ چوہدری صاحب ایک دلیراورایک بااصول آدمی تھے۔ '
کہتے ہیں 1985ء میںجنرل ضیاالحق نے آپ کی وساطت سے الٰہی بخش سومروکو پیغام بھجوایا کہ ان کو وزیراعظم بنایاجارہا ہے،لیکن اگلے دن بنا محمدخان جونیجوکو دیا؟ میں نے بات آگے بڑھائی۔چوہدری شجاعت حسین مسکرائے اورکہا،' یہ اندازہ تو تھا کہ وزیراعظم سندھ سے ہی ہوگا، لیکن کون ہوگا، یہ کسی کومعلوم نہ تھا۔22 مارچ سے ایک روز پہلے جنرل ضیاالحق نے ڈاکٹر بشارت الٰہی، پرویزالٰہی اورمجھے بلوایا اورکہا کہ آپ جاکے الٰہی بخش سومروکو بتادیںکہ کل انھی کو وزیراعظم نامزدکیاجارہاہے۔ ہم سیدھے سندھ ہاوس پہنچے۔ رات کاایک بج رہا تھا۔ الٰہی بخش سومروصوفہ پرنیم درازتھے۔ ہم نے ان کو یہ خوشخبری دی تو بڑے خوش ہوئے،بلکہ ہمیں مٹھائی بھی کھلائی۔ گزشتہ روز صبح ایوان صدر پہنچے، تو دبے دبے لفظوں میں الٰہی بخش سومروکومبارک بادیں دی جارہی تھی۔ الٰہی بخش سومرومطمئن نظرآرہے تھے۔ لیکن جیسے ہی ضیاالحق نے خطاب کے دوران اپنے مخصوص اندازمیں ہاتھ ملتے ہوئے کہاکہ' میں موجودہ حالات میں محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کرتا ہوں' تو سب لوگ ششدر رہ گئے۔'
کب اورکیسے آپ کویہ اطلاع ملی کہ جنرل ضیاالحق اب اس دنیا میں نہیں رہے؟اوراس کے فوراً بعداسلام آباد میں کیا ہوا؟'یہ دن بھی میں کبھی نہیں بھول سکتا'چوہدری شجاعت حسین نے کہا۔'17اگست 1988ء کی سہ پہر کو میں اپنے گھرآ رہا تھا تھا جب یہ اطلاع ملی کہ بہاولپور کے قریب جنرل ضیاالحق کا طیارہ کریش کر گیا ہے، جس میں ضیاالحق، اختر سمیت 29 فوجی افسر جاں بحق ہو گئے ہیں ۔
غلام اسحاق خان چیئرمین سنیٹ تھے ۔ انھوں نے راولپنڈی کی اولڈ پریزیڈنسی میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں مسلح افواج کے سربراہوں کے علاوہ وفاقی وزراکو بھی شرکت کی ہدایت کی گئی ۔ میں پہنچا تو دیکھاکہ وفاقی وزرا میں سے اسلم خٹک اورسرتاج عزیز پہنچ چکے ہیں ۔ غلام اسحاق خان کمیٹی روم میںجاچکے تھے اورسروسز چیفس کے ساتھ ان کی علیحدہ میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹہ بعد غلام اسحاق خان باہر آئے اورہمارے پاس آکے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے، میں نے تینوںچیفس سے کہا ہے کہ اگرفوج اقتدار سنبھالنا چاہتی ہے توسنبھال لے۔
لیکن تینوںچیفس کاکہنا ہے کہ فوج اقتدار سنبھالنے کی خواہش مند نہیں، آپ ہی آئین کے مطابق صدرکا عہدہ سنبھالیں ۔کچھ دیر میں باضابطہ میٹنگ شروع ہو گئی، جس میں چیفس کے علاوہ اب ہم لوگ بھی شریک تھے۔سب سے پہلے اسلم خٹک نے فوج کے اس فیصلہ کوسراہا، پھر میں نے فوج کے فیصلہ کی تعریف کی اورکہا کہ ہمیں اس پرفوج کا شکرگزارہونا چاہیے ۔
اس دوران میں میاں نوازشریف بھی پہنچ گئے ۔ وہ آئے توان کو بھی میٹنگ کی ابتدائی کارروائی اورسروسز چیفس کے فیصلہ سے آگاہ کر دیاگیا۔ انھوں نے بھی اسے سراہا۔کچھ دیر میں سرحد کے وزیراعلیٰ فضل حق بھی آ گئے۔لیکن انھوں نے یہ جانے بغیر کہ میٹنگ میں کن فیصلوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، آتے ہی کہنا شروع کردیا کہ لوگ سڑکوں پرنکل آئے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ مارشل لا لگادیاجائے ۔ اس پر مجھے یادہے کہ غلام اسحاق خان نے سخت طیش میں پشتومیں ان سے کچھ کہا، جس پرفضل الحق خاموش ہوگئے۔ یہ ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ غلام اسحاق خان نے پشتو میں ان سے کیا کہا ہے، لیکن یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ انھوں نے بڑے سخت الفاظ میں فضل الحق کی سرزنش کی ہے۔'
کیا یہ درست ہے کہ جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد معلوم ہواکہ ان کا تو اپنا کوئی گھر ہی نہیں اوران کی بیوہ اور بچوں کو آپ نے اپنا گھر رہنے کے لیے دیا؟یہ بھی چونکہ بہت کم لوگوں کومعلوم ہے اس لیے میں نے براہ راست ان سے اس کی تصدیقی چاہی۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا،ان کی زندگی کایہ پہلو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے ۔ہمیں بھی۔ ہمیں بھی اس وقت ہی پتاچلا۔ ہوا یوںکہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے پر جب جنرل ضیاالحق کی بیوہ اور بچوں کو آرمی ہاوس خالی کرنے کے لیے کہا گیا، تو وہ بہت پریشان ہوگئیں۔انھوں نے نوازشریف سے بات کی۔ نوازشریف نے کہا کہ آپ لوگ اسلام آباداپنے ذاتی گھرمیںمنتقل ہو جائیں۔ بیگم شفیقہ ضیا نے کہا کہ اسلام آبادمیں ان کاکوئی گھر نہیں۔ صرف ایک خالی پلاٹ ہے۔
نوازشریف نے یہ کہہ کرکہ آپ لوگ کرایہ پرکوئی گھر لے لیں،انھیں ٹال دیا۔ اس پربیگم شفیقہ ضیا نے مجھ سے اور پرویزالٰہی سے بات کی کہ آپ ہی کچھ کریں ۔ ان دنوں اسلام آباد میں ہماراموجودہ گھرابھی زیرتعمیر تھااورہم اپنے ویسٹرج راولپنڈی والے گھر میں رہ رہے تھے۔ہم نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں،ہم اپنا یہ گھر خالی کر دیتے ہیں،آپ یہاں شفٹ ہو جائیں۔ ہم نے اسلام آباد میں ایک گھرکرایہ پرلے لیااوروہاں منتقل ہو گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بیگم شفیقہ ضیاالحق نے جب پوچھا کہ ہم لوگ کب تک یہاں رہ سکتے ہیں توہماری والدہ نے کہا کہ جب تک آپ چاہیں۔ اس طرح جنرل ضیاالحق کی بیوہ اوران کے بچے آرمی ہاوس سے ہمارے گھر منتقل ہو گئے، جہاں تین ساڑھے تین سال اس وقت تک مقیم رہے، جب تک کہ اسلام آباد میں ان کا اپنا گھر نہیں بن گیا۔'
جنرل ضیاالحق کے خلاف کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں اور لکھنے والے بہت کچھ لکھتے ہیں لیکن اب اس پرکیاکہیں گی کہ اپنے زمانے کی دنیا کی دوسری بڑی سپرپاورکے خلاف اسلحہ اور پیسہ کے اعتبار سے دنیا کی مہنگی ترین جنگ کی کمان کرنے وال یہ جنرل اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ اس کے پاس محلات تو دور کی بات ،کوئی اپنا گھر بھی نہیں تھااور یہ گواہی کسی اور کی نہیں ، چوہدری شجاعت حسین کی ہے ، جوکہتے ہیں کہ
صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتاہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے