ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے

اُنہیں اپنا جمہوری اور آئینی حق تو ہمیشہ یاد رہتا ہے لیکن قانونی اور دستوری فریضہ یاد نہیں رہتا۔

mnoorani08@gmail.com

ہمارے لوگوں کو یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے کہ احتجاج کرنا، جلسے منعقدکرنا، جلوس نکالنااور اِس بہانے شہر اور سڑکیںبندکر دینا اُن کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ یہاں ہر کسی کو اپنا یہ حق تو ضرور یاد رہتا ہے لیکن اِسی آئین کے تحت اُس کے ذمے جو فرائض ہیں وہ اُسے یاد نہیں رہتے۔ یہی خصلت ہمارے سیاستدانوں میں بھی بھری ہوئی ہے۔

اُنہیں اپنا جمہوری اور آئینی حق تو ہمیشہ یاد رہتا ہے لیکن قانونی اور دستوری فریضہ یاد نہیں رہتا۔ پرویز مشرف کے 9 سالہ غیر جمہوری دور کے بعد جب سے جمہوریت نے بمشکل ایک بار پھر سے پروان چڑھنا شروع کیا ہے ہماری اپوزیشن کو جمہوریت کے ثمرات سے فیضیات ہوتے ہوئے کوئی نہ کوئی ایشو اُٹھا کے حکومتِ وقت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے کا یہ حق تو بڑی شدت کے ساتھ یاد رہتا ہے مگر ملک کے ترقی و خوشحالی میں کوئی کردار ادا کرنا اُسے یاد نہیں۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد سے تو ہماری ایک سیاسی جماعت نے تو اِس حق کو اپنا مشغلہ اور وتیرہ بنا لیا ہے کہ ہر چند ماہ بعد اُسے جلسے کرنے، جلوس یا ریلی نکالنے اور سڑکوں یا شاہراہوں پرآ کر احتجاج کرنے کا شوق ستاتا رہتا ہے۔ کبھی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے ایشوکو جواز بناکے لانگ مارچ اور دھرنے کا اہتمام کر کے اورکبھی پانامہ لیکس کو بہانہ بنا کے وہ اپنا یہ جمہوری حق استعمال کرتی رہتی ہے۔ اُس کی کوشش یہی رہتی ہے کہ موجودہ حکومت اپنا مقررہ وقت پورا نہ کر پائے۔ وہ چاہے تو پارلیمنٹ پر حملہ کر دے ۔پی ٹی وی کی عمارت میں گھس کر توڑ پھوڑ کر دے اور لوگوں کو مارو، مر جاؤ اور سب کچھ جلا دینے کی باتیں کرے اِس ملک کا کوئی قانون اُسے منع نہیں کر سکتا۔

اگست2014ء میں جن حلقوں کے نتائج کو جواز بنا کے 126دنوں تک جو ہنگامہ برپا کیا گیا تھا وہ گرچہ تحقیقات ہونے پر طے شدہ منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔ بس نادرا کی جانب سے صرف غیر تصدیق ووٹوں کی نشاندہی کی گئی جسے وہ اپنے موقف اور الزامات کی سچائی اورصداقت سمجھ رہے ہیں، جب کہ اِن غیر تصدیق ووٹوں کے بارے میں یہ کسی طرح بھی پتہ نہیں چل پایا ہے کہ وہ کس جماعت کو پڑے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ ملک کے سارے حلقوں کے نتائج کا اگر اِسی طرح'' فورینسک'' جائزہ لیا جائے تو یہی بد انتظامی اور غلطی ہر حلقے میں دکھائی دے گی۔ ب

لکہ گزشتہ تمام الیکشنوں کے نتائج اور ووٹ اگر دوبار تصدیق کے لیے بھیجے جائیں تو یہی خرابی کھل کر سامنے آئے گی کہ ناقص انتظام کے تحت ہونے والے اِن انتخابات میں لاکھوں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔ اب کیا اِسی بناء پرگزشتہ سارے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر اُن کے نتیجے میں بننے والی تمام حکومتوں کو ناجائز اور جعلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنی آسان اورعام فہم سی بات ہمارے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ کپتان کو سمجھ نہیں آ رہی۔

شومئی قسمت سے اب اُن کے ہاتھ ایک نیا ایشو ہاتھ آ گیا ہے ۔ وہ ہے پانامہ لیکس۔ جسے لے کر وہ اگلے دو سالوں تک اِسی طرح اپنی سیاست بھی چمکاتے رہیں گے اور اُسے سڑکوں اور شاہراہوں پر گھسیٹے اور رگڑتے بھی رہیں گے اور وہ یہ کیوں نہ کریں۔ یہ اُن کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ جس سے اُنہیں کوئی نہیں روک سکتا۔


پانامہ لیکس کو لے کر آجکل اُنہوں جس ''تحریک ِ احتساب'' کو شروع کیا ہوا ہے۔ اُس کا مقصد بظاہرکرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف ایک احتسابی جنگ لڑنا ہے، مگر اِس احتسابی جنگ میں اُنہوں نے جن لوگوں کے ساتھ مک مکا یا اتحادکیا ہوا ہے وہ اتفاق سے سارے کے سارے کرپشن میں بھر پور طریقے سے لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ کل تک وہ جن لوگوں کوکرپشن کا بادشاہ تصورکیا کرتے تھے آج اُنہی کے ساتھ مل کے کرپشن مٹانے کی تحریک چلانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

پانامہ لیکس کو وہ اپنی دم توڑتی سیاست کے لیے ایک ''جام صحت'' سمجھتے ہوئے اِس قدرمضطرب اور بے چین ہوئے جا رہے ہیں کہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اِس بار ناکام ہو گئے تو پھر اِس ملک کا وزیرِاعظم بن جانے کا اُن کا سنہری خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔ بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت بھی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ اِسی لیے وہ ہر حال میں اِس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اُنہیں اب اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ اِس کے بعد اُن کی مقبولیت جاتی ہے تو جائے لیکن وہ یہ جوا کھیل کر ہی رہیں گے۔

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اِس تحریک کے پسِ پردہ اپنی سیاسی چال بڑے تدبر اور ہوشیاری کے ساتھ چل رہی ہے۔ وہ خان صاحب کی طرح احتجاجی سیاست سے تو گریزاں ہے لیکن اگلے الیکشن کے لیے خود کو تیار کرنے کی مہم پر ضرور نکلی ہوئی ہے۔ وہ حکمرانوں کو ٹف ٹائم دینے اور اُسے ڈراتے رہتے کے اپنے مشن پر مکمل ڈٹی ہوئی ہے۔ وہ اِس تحریک کو اِس نہج تک پہنچانے کے کسی عمل میں حصے دار نہیں بننا چاہتی کہ سارا نظام ہی تلپٹ ہو جائے اور ملک ایک بار پھر غیر جمہوری دور میں بھٹکتا پھرے۔ اِسی لیے وہ کسی ایسی تحریک میں شامل بھی نہیں ہو گی جس کے نتائج میاں صاحب سے زیادہ خود اُس کو بھگتنے پڑیں۔ اُسے معلوم ہے کہ یہ پانامہ لیکس تو ایسا شوشہ ہے جس کی اگر شفاف اور غیرجاندارانہ تحقیقات ہو گئی تو ساری سیاست ہی ختم ہو جائے گی اور بات رفتہ رفتہ اُس کے گریباں تک پہنچ جائے گی۔ لہذا اِسے اِسی طرح معطل اور لاینحل ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔

موجودہ ساری سیاسی بے چینی اور کشمکش سے ایک بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اِس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اور مخلص نہیں ہے ۔کوئی جماعت بھی اتنی پارسا اور نیک نہیں ہے جس کے لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھویا ہو۔کوئی براہِ راست مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہے توکوئی بالواسطہ طور پر اُس سے فیضیاب ہوتی رہی ہے۔ کسی نے کک بیکس سے پیسے کمائے ہیں تو کسی نے کمیشن سے اربوں روپے بنائے ہیں۔کسی نے قرضے معاف کرواکے جاگیریں بنائی ہیں تو کسی نے ٹیکس چوری کر کے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک جائیدادیں بنائی ہیں۔ وہ سب جانتی ہیں کہ جس دن اِس ملک میں صحیح اور سخت احتساب کیا گیا کوئی بھی سیاسی جماعت خود کو اُس احتساب سے بچا نہیں پائے گی۔

لہذا سب کی کوشش یہی ہے کہ یہ معاملہ اِسی طرح ٹلتا رہے اور بات صرف الزام تراشیوں اور بہتان طرازیوں تک ہی محدود رہے۔ تا کہ وہ عوام میں اپنے سیاسی ساکھ اور قد و قامت کو بڑھاتے رہیں۔ یہ پانامہ لیکس کا معاملہ اگر سامنے نہ بھی آیا ہوتا تو پھر بھی ہماری اپوزیشن نے کسی اور مسئلے کو بنیاد بنا کر یہی کچھ کرنا تھا۔ الیکشن سے قبل سیاسی گرما گرمی ایک فطری عمل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جو افہام و تفہیم ابتدائی دنوں میں نظر آ رہی تھی اُس کاخاتمہ یقینی تھا۔ اِسے آپ جمہوریت کا حسن کہہ لیں یا سیاسی جماعتوں کی مجبوری۔ الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت عوام کا سامنا کرنے کے لیے اِسی طرح کے داؤ پیچ ضرور آزماتی ہے۔
Load Next Story