پرویز خٹک کی ادارہ سازی کی طرف توجہ
وزیراعلیٰ بیورو کریسی کے نظام میں موجود نقائص کو بھی جانتے ہیں
ISLAMABAD:
کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرزکا شکریہ کہ جس نے پشاور میں اجلاس منعقد کر کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے ملنے ٗ ان کی باتیں سننے اور گزشتہ تین سال میں کیے گئے حکومتی اقدامات کے بارے میں آگاہی کا موقع فراہم کیا۔ ایک تو پرویز خٹک خود کم آمیز اور میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اچھے اقدامات کے باوجود میڈیا میں پروجیکشن نہ سہی ان کے اقدامات کو مناسب کوریج بھی نہیں مل سکی۔ حیرت ہوتی تھی کہ 32 سالہ عوامی سیاسی کیریئر رکھنے والے پرویز خٹک وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعدکہاں غائب ہو گئے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی عوامی شخصیت جس کا اوڑھنا بچھونا ہی عوام ہوں وہ وزیراعلیٰ ہاؤس ٗ آفس تک محدود ہو کر رہ جائیں۔پرویز خٹک اپنی سیاسی اور پارلیمانی زندگی میں ہمیشہ اقتدار میں ہی رہے انھوں نے اپوزیشن کی سیاست نہیں کی ٗ ابھی بھی پی ٹی آئی وفاق میں اپوزیشن جب کہ صوبے میں اقتدار میں ہے۔اس لیے وہ بیورو کریسی کے انداز واطوار اور ان سے کام لینا بخوبی جانتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بیورو کریسی کے نظام میں موجود نقائص کو بھی جانتے ہیں اور RED TAPISM کے بھی شکار رہے ہیں۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو والے پرویز خٹک نے گفتگو کے دوران دو تین بار اس امر کا اظہار بھی کیا کہ بہت سے کام بیورو کریسی کی روایتی لیت ولعل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے اور ایک معمولی سرکاری نوٹ نے اہم ترین کاموں کو التوا میں ڈالے رکھا جس کو تبدیل کرنے کے لیے انھیں قانون سازی کرنی پڑتی رہی جس پر خاصا وقت ضایع ہوا۔
خیبر پختونخوا سالہا سال سے مسائل اور Bad Governance کا شکار رہا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی سے زیادہ پرویز خٹک کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ انھوں نے صوبے میں قانون سازی اور ادارہ سازی کی طرف توجہ دے کر گڈ گورننس کے لیے ٹھوس بنیادیں رکھیں۔ ادارہ سازی کسی بھی ملک و معاشرے کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے ٗ ادارے مضبوط ہوں گے تو حکومت کا انتظامی ڈھانچہ موثر انداز میں کام کرے گا جس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچے گا۔ گزشتہ سالوں کی دہشتگردی نے خیبر پختونخوا کا معاشرتی تانا بانا بکھیر کے رکھ دیا تھا۔ اس لیے عوامی نیشنل پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے تو ادارہ سازی کہاںسے ہوتی۔ اس سے قبل ایم ایم اے کا دور روایتی سیاست کا دور قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ نے گزشتہ تین سالوں میں بہت سے تلخ اور سخت فیصلے بھی کیے پہلے اپنے اتحادی آفتاب شیرپاؤ کو ناراض کیا ٗ بعد ازاں جماعت اسلامی کے ساتھ ناراضگی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ سراج الحق بہت گہرے سیاستدان ہیں جو انھیں جانتے ہیں وہ اس بات کی ضرور تائید کریں گے کہ وہ بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں رہنا چاہتے ہیں۔
بظاہر نحیف نظر آنے والے پرویز خٹک اپنے ارادوں سے انتہائی مضبوط دکھائی دیے وہ مجلس آرا ء شخصیت ہیں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ اپنے زمانہ طالبِ علمی میں لاہور میں قیام کے دوران پاک ٹی ہاؤس اور دیگر ادبی سرگرمیوں میں بھی خاموش شرکت کرتے رہے ہیں۔ اس لیے سیاسی سماجی معاملات میں ان کے دیکھنے کا روایتی انداز نہیں وہ روایتی انداز سیاست اور طرز حکمرانی کے بھی خلاف ہیں اس لیے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے ادارہ سازی پر توجہ دی۔ ان کاموقف ہے جو یقینا درست ہے کہ عوام کو اداروں سے ریلیف ملنا چاہیے افراد سے نہیں ۔ اداروں کا تو مقصد ہی عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے جب کہ فرد کسی دوسرے فرد کا کام کرتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی عزتِ نفس مجروح ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس لیے اداروں کی فعالیت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
سی پی این ای کا وفد جس کی قیادت صدر ضیاء شاہد اور سیکریٹری جنرل اعجاز الحق کر رہے تھے ٗکو وزیراعلیٰ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام ٗ ویلج کونسل تک اختیارات کی منتقلی ٗ پولیس ٗ تعلیم کے نظام پر قابلِ ذکر کام ہوا اور خصوصی توجہ دی گئی ہے لیکن ابھی خاصا سفر باقی ہے۔ ابھی بھی لوگوں کو مختلف مسائل کے سلسلے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صحت کا شعبہ بھی بہت زیادہ توجہ کا متقاضی ہے۔ اسپتالوں ٗ بنیادی مراکز صحت کی حالت بھی ابتر ہی ہے اس کی طرف صوبائی حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ کو ذاتی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک رہا صوبائی حکومت کا معاملہ ہے یہ بات درست ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ٹیم لیڈر کے طور پر ادارہ سازی کی طرف توجہ دی ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے اقدامات سے ملک کے عوام تو کیا صوبے کے اپنے عوام بھی بے خبر ہی رہے اور انھیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ صوبے میں کون کون سے قوانین منظور ہو چکے ہیں اور وہ کس طرح ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس عرصے میں وزیراعلیٰ کوئی ایسی میڈیا اسٹرٹیجی نہیں بنا سکے جس سے ان اہم کاموں کے بارے میں ملک بھر کے عوام جان سکتے۔ اس بارے میں ان کا موقف تھا کہ وہ پہلے کچھ ایسا کرتے جس کی تشہیر بھی کی جاتی۔ اب مشیر اطلاعات مشتاق غنی ٗ سیکریٹری اطلاعات طاہر حسن اور محکمہ اطلاعات کے افسران بھی خاصے سرگرم ہیں۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ اب پرویز خٹک تین سال کے عرصے میں کیے گئے ادارہ سازی کے عمل ٗ فلاحی اقدامات کو عوام کے سامنے موثر انداز میں رکھ سکیں گے۔
گزشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر خیبر پختونخوا میں اقتدار حاصل کیا۔ عوام کی پی ٹی آئی سے توقعات دوسری سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ احتجاجی سیاست کے حق میں نہیں۔ عوامی مقبولیت میں تحریک انصاف کا شمار بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ہوتا ہے وہ چاروں صوبوں میں عوامی سطح تک موجود ہے اسے اسٹریٹ پاور بھی حاصل ہے ۔ تحریک انصاف میں سیاسی کارکنوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عمران خان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں کہ وہ اس ہجوم کو کیسے ایک منظم سیاسی قوت میں تبدیل کرتے ہیں۔