سیارچے کو توڑنے اور چاند کے مدار میں دھکیلنے کا منصوبہ
کام یابی کی صورت میں ناسا مریخ تک رسائی کے لیے بیس قائم کرے گا
تسخیرِ قمر کے بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے ماہرین کے لیے اگلا ہدف مریخ مقرر کیا تھا۔ گذشتہ کئی عشروں سے سائنس داں، ماہرین فلکیات، انجنیئر اور دوسرے ماہرین مریخ تک انسانی رسائی کے لیے تصورات پیش کرنے، اور اس ہدف کے حصول کے لیے درکار ٹیکنالوجیز کے حوالے سے اختراع میں جُتے ہوئے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی روز افزوں پیش رفت کی بنیاد پر اس ضمن میں ہونے والی کوششوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ خلائی گاڑیاں تو کام یابی سے سُرخ سیارے کی سطح پر اتار دی گئی ہیں۔ اب ماہرین کی توجہ خلاباز بردار جہاز زمین کے اس پڑوسی کی جانب روانہ کرنے پر ہے۔
پہلے پہل ماہرین براہ راست سطح ارض سے مریخ کی جانب پرواز بھیجنے کے تصور پر توجہ دے رہے تھے۔ بعدازاں یہ تجویز سامنے آئی کہ زمین کے بجائے چاند کو اڈّا بنایا جائے اور وہاں سے مریخ کی جانب مشن کی روانگی ممکن بنائی جائے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ناسا نے ایک مشن کی منظوری دی ہے، مگر اس مشن کا مقصد چاند پراڈّا تعمیر کرنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد ایک سیارچے سے بڑا ٹکڑا علیحدہ کرکے اسے چاند کے مدار میں لے جانا اور پھر اس پر بیس قائم کرنا ہے! بہ ظاہر یہ سائنس فکشن فلموں کی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی سیارچے کو توڑنے کے بعد اس کا ایک حصہ دھکیل کر چاند کے مدار میں لے جایا جائے اور پھر اس پر اڈّا تعمیر کیا جائے، مگر سائنسی ترقی اور خلائی میدان میں انسان کی مہارت کے بعد اب یہ سب ناممکن یا محض تخیل کی بات نظر نہیں آتی۔
امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک خلا اور چاند سمیت دیگر سیاروں کا راز جاننے کے لیے وہاں جانے حتٰی کہ ان سیاروں کو آباد کرنے کے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ادھر ناسا برسوں سے کئی منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے اور دنیا سے چاند تک اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ ناسا نے مذکورہ مشن کی منظوری دے دی ہے۔ ابتدائی تیاریوں کے بعد 2021ء میں اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے گی۔ اس پروجیکٹ کو Asteroid Redirect Mission ( اے آر ایم ) کا نام دیا گیا ہے۔
دنیا کو بتایا گیا ہے کہ اے آر ایم کے دو حصے ہوں گے۔ ایک حصہ خلانورد بردار اسپیس کرافٹ جب کہ دوسرا روبوٹ خلائی جہازوں پر مشتمل ہوگا۔ خلائی ایجنسی نے فی الوقت منصوبے کے دوسرے یعنی روبوٹ خلائی جہازوں سے متعلق حصے پر کام شروع کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ناسا کی ہدایات کے مطابق منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں شمسی توانائی سے چلنے والے جدید روبوٹ خلائی جہاز تیار کیے جائیں گے۔
مریخ کی سطح پر کئی تحقیقی خلائی گاڑیاں مصروف عمل ہیں، مگر ان کا انحصار روایتی ایندھن پر تھا۔ شمسی توانائی سے چلنے والا روبوٹ خلائی جہاز ہی سیارچے کو دولخت کرنے اور پھر اسے چاند کے مدار میں لانے کا کام انجام دے گا۔ ناسا کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر رابرٹ لائٹ فوٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ان جہازوں کی تیاری کے لیے درکار کئی ٹیکنالوجیز پہلے ہی زیرتحقیق ہیں۔
اے آر ایم کے بارے میں جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے لیے زمین سے قریب ترین فاصلے پر موجود سیارچوں میں سے کسی کا انتخاب کیا جائے گا۔ سیارچے کا حتمی انتخاب 2020ء میں کیا جائے گا، تاہم سائنس داں اس منصوبے کے لیے حوالے کے طور پر2008 EV5 نامی سیارچے کا استعمال کررہے ہیں۔ سیارچے سے وسیع و عریض سنگی ٹکڑا علیحدہ کرنے کے بعد روبوٹ خلائی جہاز مطلوبہ ٹکڑے کو بہ تدریج قمری مدار کی طرف دھکیلنا شروع کرے گا، اور مخصوص مقام پر لاکر چھوڑ دے گا۔ بعدازاں اس پر بیس کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔ بیس قائم ہوجانے کے بعد یہاں مختلف تجربات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جن میں سرفہرست مریخ کی جانب خلاباز بردار اسپیس کرافٹ کی روانگی ہوگی۔ اس پورے منصوبے پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی روز افزوں پیش رفت کی بنیاد پر اس ضمن میں ہونے والی کوششوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ خلائی گاڑیاں تو کام یابی سے سُرخ سیارے کی سطح پر اتار دی گئی ہیں۔ اب ماہرین کی توجہ خلاباز بردار جہاز زمین کے اس پڑوسی کی جانب روانہ کرنے پر ہے۔
پہلے پہل ماہرین براہ راست سطح ارض سے مریخ کی جانب پرواز بھیجنے کے تصور پر توجہ دے رہے تھے۔ بعدازاں یہ تجویز سامنے آئی کہ زمین کے بجائے چاند کو اڈّا بنایا جائے اور وہاں سے مریخ کی جانب مشن کی روانگی ممکن بنائی جائے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ناسا نے ایک مشن کی منظوری دی ہے، مگر اس مشن کا مقصد چاند پراڈّا تعمیر کرنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد ایک سیارچے سے بڑا ٹکڑا علیحدہ کرکے اسے چاند کے مدار میں لے جانا اور پھر اس پر بیس قائم کرنا ہے! بہ ظاہر یہ سائنس فکشن فلموں کی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی سیارچے کو توڑنے کے بعد اس کا ایک حصہ دھکیل کر چاند کے مدار میں لے جایا جائے اور پھر اس پر اڈّا تعمیر کیا جائے، مگر سائنسی ترقی اور خلائی میدان میں انسان کی مہارت کے بعد اب یہ سب ناممکن یا محض تخیل کی بات نظر نہیں آتی۔
امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک خلا اور چاند سمیت دیگر سیاروں کا راز جاننے کے لیے وہاں جانے حتٰی کہ ان سیاروں کو آباد کرنے کے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ادھر ناسا برسوں سے کئی منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے اور دنیا سے چاند تک اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ ناسا نے مذکورہ مشن کی منظوری دے دی ہے۔ ابتدائی تیاریوں کے بعد 2021ء میں اس منصوبے کو عملی شکل دی جائے گی۔ اس پروجیکٹ کو Asteroid Redirect Mission ( اے آر ایم ) کا نام دیا گیا ہے۔
دنیا کو بتایا گیا ہے کہ اے آر ایم کے دو حصے ہوں گے۔ ایک حصہ خلانورد بردار اسپیس کرافٹ جب کہ دوسرا روبوٹ خلائی جہازوں پر مشتمل ہوگا۔ خلائی ایجنسی نے فی الوقت منصوبے کے دوسرے یعنی روبوٹ خلائی جہازوں سے متعلق حصے پر کام شروع کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ناسا کی ہدایات کے مطابق منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں شمسی توانائی سے چلنے والے جدید روبوٹ خلائی جہاز تیار کیے جائیں گے۔
مریخ کی سطح پر کئی تحقیقی خلائی گاڑیاں مصروف عمل ہیں، مگر ان کا انحصار روایتی ایندھن پر تھا۔ شمسی توانائی سے چلنے والا روبوٹ خلائی جہاز ہی سیارچے کو دولخت کرنے اور پھر اسے چاند کے مدار میں لانے کا کام انجام دے گا۔ ناسا کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر رابرٹ لائٹ فوٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ان جہازوں کی تیاری کے لیے درکار کئی ٹیکنالوجیز پہلے ہی زیرتحقیق ہیں۔
اے آر ایم کے بارے میں جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے لیے زمین سے قریب ترین فاصلے پر موجود سیارچوں میں سے کسی کا انتخاب کیا جائے گا۔ سیارچے کا حتمی انتخاب 2020ء میں کیا جائے گا، تاہم سائنس داں اس منصوبے کے لیے حوالے کے طور پر2008 EV5 نامی سیارچے کا استعمال کررہے ہیں۔ سیارچے سے وسیع و عریض سنگی ٹکڑا علیحدہ کرنے کے بعد روبوٹ خلائی جہاز مطلوبہ ٹکڑے کو بہ تدریج قمری مدار کی طرف دھکیلنا شروع کرے گا، اور مخصوص مقام پر لاکر چھوڑ دے گا۔ بعدازاں اس پر بیس کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے گا۔ بیس قائم ہوجانے کے بعد یہاں مختلف تجربات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جن میں سرفہرست مریخ کی جانب خلاباز بردار اسپیس کرافٹ کی روانگی ہوگی۔ اس پورے منصوبے پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔