اوسٹیوسرکوما یہ مرض گھٹنے اور کہنیوں کی ہڈیوں کو متاثر کرتا ہے
عموماً یہ ٹیومر جسم میں موجود کسی بھی طویل ہڈی کے آخری سرے پر پایا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں کو لاحق ہونے والا یہ مرض دراصل کینسر کی ایک قسم ہے۔ اس بیماری میں زیادہ تر کولہے، گھٹنے اور کہنیوں کی ہڈیاں متأثر ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین اسے ہڈیوں کا ٹیومر بھی کہتے ہیں۔ تاہم یہ کینسر کی دنیا بھر میں عام اور مہلک اقسام سے مختلف ہے۔ اوسٹیوسرکوما کو کسی حد تک خطرناک کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ بیماری شدید نوعیت کی خرابیاں پیدا کرسکتی ہے اور جسم پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہمارے جسم میں مختلف خلیات پائے جاتے ہیں اور نشوونما پانے کے عمل کے ساتھ ان میں ٹوٹ پھوٹ بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ یہ خلیات خون کے ذریعے آکسیجن حاصل کرتے اور زندہ رہتے ہیں، لیکن قدرتی عوامل کے نتیجے میں اور بعض طبی پیچیدگیوں کی صورت میں ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ جسم میں موجود بہت پرانے خلیات اس مرض کی وجہ بنتے ہیں۔ اوسٹیوسرکوما کا شکار ہونے کے بعد ابتدائی عرصے میں کوئی بھی مریض صرف درد کی شکایت کرتا ہے۔
اس درد کی شدت میں رات کے وقت اضافہ ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ ناقابل برداشت ہوتا ہے، لیکن مختلف کیسز کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اس مرض کی وجہ سے ہونے والی تکلیف اور درد کی شدت میں فرق آتا رہتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق مریض مستقل درد کی شکایت بھی کرسکتا اور اسے کچھ وقفے کے لیے تکلیف سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ کھیل کود اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں لاحق ہونے والی تھکن ایک عام بات ہے اور آرام کرنے سے بچہ یا کوئی بھی نوجوانوں اس سے نجات پالیتا ہے، لیکن اس مرض میں اکثر اوقات ران یا گھٹنے کے نچلے حصے میں درد محسوس ہوتا ہے اور یہ شکایت مستقل ہو تو فوری ماہر معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر بچے کو یہی بیماری لاحق ہو۔ تکلیف اور درد کی اس شکایت کا کوئی دوسرا سبب بھی ہوسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کھیل کود کے دوران گھٹنے پر زیادہ زور پڑ گیا ہو یا پیر پر کوئی ضرب لگی ہو۔ عام طریقۂ علاج اور ادویہ کے ذریعے اس درد سے نجات مل جاتی ہے۔ اوسٹیوسرکوما کے مرض کی دیگر علامات میں متأثرہ حصّہ پر سوجن اور سوزش شامل ہیں۔ اس کی وجہ ٹیومر کے حجم میں اضافہ ہوتی ہے، لیکن بعض کیسز میں سوجن بھی ظاہر نہیں ہوتی۔
طبی محققین کے مطابق بعض مریضوں کی ہسٹری بتاتی ہے کہ وہ ہڈی میں فریکچر ہونے کی معالج کے پاس پہنچے تھے۔ ان کا عام طبی معائنہ اور ہڈیوں کا ٹیسٹ کرنے پر سامنے آیاکہ وہ اوسٹیوسرکوما کے مرض کا شکار ہیں جو مزید پھیل سکتا ہے۔ دارصل فریکچر ہوجانے کے بعد ہڈی پہلے جیسی مضبوط نہیں رہتی اور کینسر کا ٹیومر ہڈیوں کے اندرونی حصوں میں اپنی جگہ بنانے لگتا ہے۔ اسی لیے بعض کیسز میں سوجن بھی ظاہر نہیں ہوتی، لیکن درد کی شکایت رہتی ہے۔
اوسٹیوسرکوما پر طبی ماہرین کی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مرض کے لاحق ہونے کی دیگر وجوہ اور علامات کے ساتھ مؤثر علاج کے لیے محققین کام کررہے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کینسر کے ایسے سیل جن سے ٹیومر بنتا اور بڑھتا ہے وہ کہاں اور کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ ریڈیو تھراپی کرانا بھی اس ٹیومر کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم ریڈیو تھراپی ناگزیر ہو تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ محققین کا خیال ہے کہ کروموسومز بھی اوسٹیوسرکوما کے ٹیومر کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہ ایسا مرض ہے جو کسی دوسری بیماری اور اس کے علاج کے مخصوص طریقے کے سبب بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
بچوں میں اوسٹیوسرکوما اس وقت جنم لیتا ہے، جب ان کی ہڈیوں کی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اس دوران بچوں میں اوسٹیوسرپلاسٹی سیل بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سیل ہڈیوں پر حملہ کر دے تو ان کی نشوونما کا عمل متأثر ہوتا ہے اور ہڈیاں نارمل بچے کے مقابلے میں کم زور ہوتی ہیں۔ عموماً یہ ٹیومر جسم میں موجود کسی بھی طویل ہڈی کے آخری سرے پر پایا جاتا ہے۔
ان میں ران، کہنی اور گھٹنے کی نچلی یا اوپری ہڈیاں شامل ہیں۔ یہ ٹیومر گھٹنے کی ہڈی کے ساٹھ فی صد حصے تک پھیل سکتا جب کہ پندرہ فی صد کولہے کی ہڈی اور دس فی صد تک کہنی کی ہڈی کو متأثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جبڑے کی ہڈی کا آٹھ فی صد حصہ اس سے متأثر ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیومر کی کوئی مخصوص شکل نہیں ہوتی۔ ٹیومر کے سیل ہڈیوں کے گودے میں نشوونما پاتے ہیں۔
ہڈی و جوڑ کے ماہر معالج اس مرض کی علامات پانے پر تشخیص کے لیے متأثرہ ہڈی کا ایکسرے کرواتے ہیں اور اس کے بعد مختلف اسکین ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سی ٹی اسکین، پی ای ٹی اسکین، بون اسکین اور ایم آر آئی بھی شامل ہوتا ہے۔ بعض مریضوں کو ماہر ڈاکٹر سرجیکل بائیوپسی تجویز کرتا ہے۔ اوسٹیوسرکوما کی زیادہ بہتر تشخیص بائیوپسی کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔
اس طریقۂ تشخیص سے بیماری کی نوعیت اور اس کی شدت جاننے میں مدد ملتی ہے۔ اس بیماری کے آثار دانتوں کے معائنے کے دوران بھی سامنے آسکتے ہیں۔ دانت کی بیماری کا اصل سبب جاننے کے لیے جب ایکسرے کروایا جاتا ہے تو نچلے جبڑے میں اس کی ابتدائی علامات نظر آسکتی ہیں۔ بڑی عمر میں یہ مسئلہ اس وقت سر اٹھاسکتا ہے جب گھٹنوں یا کہنیوں کی درست سرجری نہ ہو اور انفیکشن ہوجائے۔ اس سے ہڈیوں میں اوسٹیوسرکوما کا ٹیومر پیدا ہوسکتا ہے۔
تاہم سرجری کے بعد ایسے کسی بھی مرض کا امکان کم کرنے کے لیے ڈاکٹر مختلف ادویہ اور طبی طریقے ضرور استعمال کرتے ہیں۔کینسر کی دیگر اقسام کی طرح ایک اسٹیج پر اوسٹیوسرکوما کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ طبی ماہرین نے دنیا بھر میں کینسر کی عام اقسام کی فہرست میں اس مرض کو آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔