یہ کھیل کب تک

ایک شخص بھری ہوئی بس کے پائیدان پر لٹکا ہوا سفر کر رہا تھا۔


Muqtida Mansoor August 25, 2016
[email protected]

ایک شخص بھری ہوئی بس کے پائیدان پر لٹکا ہوا سفر کر رہا تھا۔ چند مسافروں کے اترنے سے اتنی جگہ بنی کہ وہ بس کے اندر جاسکے۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اسے سکون سے سفر کرنے کا موقع ملا۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ اس کا اصل حق تو بس کی نشست پر بیٹھ کر سفر کرنا ہے، جس کا اس نے ٹکٹ لیا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کی دگرگوں صورتحال میں ایک مسافر کے لیے یہی بہت ہوتا ہے کہ اسے بس کے اندر گھس جانے کا موقع مل جائے۔

یہی کچھ معاملہ پاکستان کے شہریوں کا ہے، جنھیں اونٹ کے منہ میں زیرہ مل جائے تو خدا کا شکر اداکرتے ہیں۔ اگر پیٹرول پر چند روپے کم ہوجائیں تو خدا کا شکر۔ کسی روز بجلی کی اگرغیر علانیہ لوڈ شیڈنگ نہ ہو، تو خدا کا شکر۔ علانیہ لوڈ شیڈنگ کے تو بہر حال عادی ہوچکے ہیں۔

اگر نلکوں میں کسی روز کچھ دیر زیادہ پانی آجائے تو خدا کا شکر۔ اگر کسی روز شہر میں کوئی احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو اور وقت پر گھر پہنچ جائیں، تو خدا کا شکر۔ غرض کہ ہر وہ سہولت جو شہریوں کا بنیادی حق ہے، اس کا عشرعشیر بھی مل جائے تو خدا کا شکر۔ ویسے تو خدا کا شکر ہر حال میں کرتے رہنا چاہیے کہ جب تک سانس کی یہ ڈوری چل رہی ہے، وہ اللہ ہی کا احسان ہے۔ مگر درج بالا مشکلات اللہ کی نہیں بندوں کی پیدا کردہ ہیں جو بری حکمرانی کا شاخسانہ ہیں۔ مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نہ اپنے شہری حقوق سے آگاہ ہیں اور نہ ان فرائض ہی کا ادراک ہے، جو ہماری ذمے داری ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم ان تمام معاملات میں غیر سنجیدہ ہیں، جو ریاست کو آگے بڑھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔

ایک سے زائد مرتبہ لکھا ہے کہ سال بھر استعمال کے لیے جوتا ہو یا کپڑوں کا جوڑا، وہ توہم چھان پھٹک کر خریدتے ہیں، مگر پانچ برس کے لیے اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کہیں برادری، کہیں وڈیرہ شاہی اور کہیں قبائلی وابستگی ہمیں میرٹ پر فیصلہ نہیں کرنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب نااہل اور موقع پرست عناصر منتخب ہونے کے بعد بری حکمرانی کا باعث بنتے ہیں، تو ہم واویلا مچاتے ہوئے انھیں یاد کرنا شروع کردیتے ہیں جنہوں نے چار مختلف ادوار میں 32 برس حکومت کی اور نظم حکمرانی میں کسی قسم کی بہتری کے بجائے خرابیِ بسیار میں اضافہ کا باعث بنے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ جس طرح جوتا اور جوڑا خریدنے میں احتیاط برتے ہیں، اسی طرح اپنے نمایندوں کے انتخاب میں بھی محتاط ہوجائیں، تو اس ملک کا مقدر سنور سکتا ہے۔

ملک کو درپیش مسائل کو سمجھنے کے لیے سیاسی تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں خرابی بسیار کا اصل سبب وہ سہ فریقی کشمکش ہے، جو روز اول سے آج تک جاری ہے۔ یعنی ایک طرف طاقتور سول و ملٹری بیوروکریسی ہے، جو روز اول سے ریاستی منصوبہ سازی کو اپنی قبضہ میں رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف منتشر سیاسی قیادت ہے جو سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہونے کی وجہ سے عوام کی صحیح رہنمائی کرنے سے قاصر ہے۔ تیسری طرف وہ اہل دانش ہیں، جو ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں 70برس گزر جانے کے باوجود کوئی واضح اور ٹھوس نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے ریاست روز اول سے کوئی واضح سمت اختیار کرنے میں ناکام ہے۔

اگر اب تک سامنے آنے والی سیاسی قیادتوں کا جائزہ لیں، تو پاکستان کے ابتدائی دور میں جو قیادت سامنے آئی وہ1946کے انتخابات کے نتیجے میں ابھری تھی۔ ایوب خان کے BDسسٹم کے نتیجے میں ملک کے دونوں حصوں میں ایک نیا سیاسی کیڈر ابھر کر سامنے آیا۔ اس کیڈر نے 1970کے عام انتخابات میں 1946والے کیڈر کو سیاسی منظرنامے سے ہٹنے پر مجبور کردیا۔یہ سیاسی کیڈر ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کی نمایندگی کر رہا تھا۔ یہ ماضی کی رومانیت اور جدید دور کی حقیقت پسندی کا امتزاج تھا۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی اسی ابھرتی سیاسی فکر کے نمایندہ تھے۔ یہ فکری رجحان پاکستانی سیاست کے افق پر 1985 تک جاری رہا۔

جنرل ضیا کا مارشل لا، آگے بڑھتے پاکستانی معاشرے کو سمت معکوس میں لے جانے کا باعث بنا۔ جنرل ضیا الحق نے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پاکستان میں1970کے انتخابات کے بعد کمزور پڑنے والے قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری سسٹم کو ایک بار پھر مضبوط ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ ساتھ ہی طلبہ سرگرمیوں پر پابندی اور ٹریڈ یونین تحریک کے گہنا جانے کی وجہ سے سیاست میں نئے مڈل کلاس کیڈر کی آمد کا رستہ رک گیا۔ پاکستان میں قومی سیاست پر دوسرا وار 1985کے غیر جماعتی انتخابات تھے۔

ان انتخابات میں امیدواروں نے کسی قومی منشور یا ایجنڈے کے بجائے برادریوں ، قبائلی و لسانی شناخت اور فرقہ وارانہ تشخص کی بنیاد پر حصہ لیا۔ انفرادی اور علاقائی بنیادوں پر منتخب ہونے والے اراکین کو جب ایک جماعت کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم لیگ (جونیجو) وجود میں آئی۔ مگر یہ ایک ایسا بھان متی کاکنبہ تھی، جو کوئی واضح قومی نقطہ نظراور فکری رجحان دینے میں ناکام رہی کیونکہ اس میں موجود قیادت کی ذہنی سطح قومی کے بجائے علاقائی یا مقامی نوعیت کی رہی۔ سیاست کا یہ طرز عمل آج بھی جاری ہے۔

پیپلز پارٹی نے محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں قومی سیاسی تشخص کو قائم رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ لیکن پنجاب سے ابھرنے والے نئے سیاسی کیڈر نے سیاسی تشخص کو ایک نیا قومی رنگ دے کر پیپلز پارٹی کی رومانیت پسند سیاست کو پیچھے دھکیل دیا۔ نواز شریف کی شکل میں پنجاب کو سر سکندر حیات مرحوم کے بعد ایک نیا لیڈر مل گیا، اس لیے پیپلز پارٹی کی مقبولیت گہناتی چلی گئی ۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے روز اول ہی سے اپنی سیاست کا محور قومی کے بجائے پنجاب کی سیاست کو بنایا۔ اس یقین کی بنیاد پر کہ پنجاب میں اکثریت کی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) وفاق میں باآسانی حکومت سازی کرسکتی ہے، اس نے دیگر صوبوں میں اپنی جماعت کی تنظیم سازی کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے 2002کے عام انتخابات اور ان کے بعد سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ نے ایک بار پھر مقامی سیاست کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔2008کے عام انتخابات میںگوکہ پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی، مگر اتنی نشستیں نہیں مل سکیں کہ اکیلی حکومت سازی کر سکے۔ اس لیے چند دیگر جماعتوں کے تعاون سے ایک کمزور حکومت بنا پائی۔ دوسرے سندھ کے سوا اسے کسی دوسرے صوبے میں حکومت بنانے کا موقع نہیں مل سکا۔ گو کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے، مگر یہ دور جس طرح گزرا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف عدلیہ کے جوڈیشل ایڈونچر نے اسے کام نہیں کرنے دیا۔ دوسری طرف ہر روز ہونے والی دہشت گردی اور تیسری طرف ریاستی اداروں کے دباؤ نے اس کے پاؤں میں زنجیر ڈالے رکھی۔

بینظیر کی شہادت نے پیپلز پارٹی کے رہے سہے فکری اثاثے کو بھی منتشر کردیا۔ گو کہ پارٹی پر اپنے ابتدائی نظریات سے انحراف کے الزامات، پارٹی کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد ہی لگنا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن پھر بھی بہت کچھ ایسا تھا، جو کارکنوں کے تفاخرکا باعث تھا۔ مگر محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے جاں نشین اس احساس کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ یوں ایک ایسی جماعت جو ترقی پسند ، لبرل شہریوں اور غیر مسلموں کے لیے سایہ عافیت تصور کی جاتی تھی، اپنی افادیت کھو بیٹھی۔ یہیں سے پاکستان میں Mainstreamسیاست کے خاتمے کا بھی آغاز ہوا۔ جس پر2013کے عام انتخابات نے مہر ثبت کردی۔ اس دوران تحریک انصاف قومی سیاست کا پرچم اٹھا کر گو کہ آگے بڑھی مگر سیاسی بلوغت کی کمی، غیر واضح سیاسی افکار اور جذباتی طرز عمل کے باعث جلد ہی سیاسی طورپر گہناگئی۔آج تبدیلی کی علامت کے بجائے سیاسی کنفیوژن کی علامت بن چکی ہے۔

اس صورتحال میں اچھی حکمرانی(Good Governance) کے خواب دیکھنا تو دور کی بات، جمہورکی حکمرانی بھی خطرے میں گھری ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح حکمران اشرافیہ نے 70برس عوام کو بہلاتے پھسلاتے گزاردیے اور یہ طے نہیںکیا کہ ملک کے لیے کون سا نظام سود مند ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگلی صدی بھی اسی ادھیڑ بن میں گزرجائے گی کہ ملک کے لیے کون سا نظام یا طرز حکمرانی سود مند ہے۔ آنے والے زمانوں میں ہم تو نہ ہوں گے، مگر لگتا یہی ہے کہ قلمکاراور تجزیہ نگار اس مسئلے پر مستقبل میں بھی سردھن رہے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں