امریکا میں ایک ماہ قیام کے تاثرات

پچھلے دنوں امریکا میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد غلط یا صحیح ہمارا یہ دکھ ایک مرتبہ پھر عود کر آیا ہے


Sajid Ali Sajid August 25, 2016
[email protected]

پچھلے دنوں امریکا میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد غلط یا صحیح ہمارا یہ دکھ ایک مرتبہ پھر عود کر آیا ہے کہ ہم نے برسہا برس دنیا کی اس سب سے بڑی سپر پاورکا ''حواری'' حاشیہ بردار اور حلیف ہونے کے باوجود بہت ساری بری باتیں تو سیکھیں مگر کوئی ایک اچھی بات نہیں سیکھ سکے جیسا کہ ہمیں بظاہر نظر آیا۔ امریکی حکمرانوں نے اپنے ایک عام شہری کو بھی اتنی اچھی زندگی فراہم کر رکھی ہے کہ ان پر اندرون و بیرون ملک سات خون معاف ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے حال اور ماضی کے حکمرانوں نے اپنی اور اہل و عیال کی زندگیوں میں تو انقلاب برپا کر دیا مگر ایک عام پاکستانی آج بھی پانی اور بجلی کے بنیادی مسائل سے دوچار ہے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ ہمارے اس لکھے سے پاکستانیوں کے شب و روز میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے مگر ایک موہوم سی تبدیلی کی امید میں ہمیں اپنی بھڑاس بہرحال نکالنی ہے۔

ہم نے اپنا دورہ کیلیفورنیا اسٹیٹ کے ایک شہرسینوزے سے شروع کیا اور پھر لاس اینجلس اور شکاگو سے لے کر نیویارک تک گئے امریکا میں داخل ہوتے ہی جو بات سب سے پہلے اسٹرائیک کرتی ہے وہ قانون کا احترام ہے جو ان کے ٹریفک نظام سے ہی واضح ہو جاتا ہے کیا مجال کہ کوئی ڈرائیور سیٹ بیلٹ نہ باندھے، ٹریفک سگنل توڑے اور اسٹاپ کے سائن پر نہ رکے۔

ہو سکتا ہے بعض لوگ وہاں قانون کی پابندی قانون نافذ کرانے والوں کے خوف سے کرتے ہوں مگر بہت بڑی تعداد رضاکارانہ طور پر ایسا کرتی ہے اور انھوں نے اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا رکھا ہے۔ مثلاً امریکا دنیا کے انتہائی صاف ستھرے ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ انھوں نے وہاں اس مسئلے کو ایک لحاظ سے جڑ سے پکڑا ہوا ہے۔ امریکی معاشرے میں صفائی ستھرائی کرنے والے گاربیج مین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بچے جن سپر ہیروز کے کھلونوں سے کھیلتے ہیں ان میں سپرمین اور اسپائڈرمین کے ساتھ ساتھ گاربیج مین بھی ہے۔

چنانچہ جس زمانے میں ہم واپس آنے والے تھے تو ہم نے وہاں کے ایک مقامی اخبار میں یہ دلچسپ خبر پڑھی کہ سیکرامینٹو میں رہنے والے ایک چھ سالہ انتہائی بیمار بچے ایتھان ڈین کی آخری خواہش یہ نہیں کہ وہ ڈزنی لینڈ جائے یا کسی سپر ہیرو سے ملے بلکہ وہ اپنا ایک دن گاربیج مین کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے، بالآخر میک اے وش فاؤنڈیشن کے تعاون سے اس کی یہ خواہش جو آخری بھی ہو سکتی ہے پوری کی گئی۔

اس نے ایک گاربیج وین میں سفرکیا جو مکمل طور پرآٹو میٹک ہوتی ہے راستے میں اس نے کوڑا کرکٹ اٹھایا جس کے وہاں دو حصے ہوتے ہیں یعنی ایک وہ جو ری سائیکل ہو سکتا ہے اور دوسرا جسے تلف کرنا پڑتا ہے اپنی منزل پر پہنچ کر شہر کے میئر نے اس کا استقبال کیا اور اس بچے کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد کی گئی۔ کاش ہمارے یہاں بھی اس پیشے کے لوگوں کی زندگیاں اتنی ہی صاف ستھری ہو جائیں ان کی اتنی ہی عزت و احترام ہونے لگے اور ان کی کوڑا کرکٹ اٹھانے والی گاڑیاں اتنی صاف اور چمکتی ہوئی ہونے لگیں کہ بچے ان میں سفر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔ پھر ایسے تعلیم یافتہ اور باشعور شہری بھی چاہئیں جو کوڑاکرکٹ کو ادھر ادھر بکھیرنے کے بجائے اس کی صحیح جگہ پر ڈالنے لگیں۔

امریکا میں دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ ان کے یہاں سرمایہ دارانہ نظام ہے مگر کم ازکم ہمارا جس کمیونٹی اورجن لوگوں سے واسطہ پڑا ان میں ہمیں Haves اورs Have Not میں اتنا زیادہ فرق نظر نہیں آیا ۔ امریکا میں تقریباً ہر شخص اگر وہ نارمل اور برسر روزگار ہو اور اس کا دماغ خراب نہ ہو، ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے، اسے زندگی کی بنیادی ضرورتیں میسر ہیں۔ کیلیفورنیا سے لے کر نیویارک تک ہم نے دیکھا کہ کیا مجال ایک لمحے کے لیے بھی بجلی گئی ہو یا پانی کی فراہمی میں خلل واقع ہوا ہو۔ گھر پر ہمیں ڈیکوریشن پیس کے طور پر جا بجا مختلف سائزکی موم بتیاں نظر آئیں۔ مگر کوئی جلی ہوئی موم بتی دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔

ہر عام امریکی کو رہنے کے لیے چھوٹا بڑا اچھا سا گھر اور سفر کرنے کے لیے اچھی کار میسر ہے اور کار نہ ہو یا استعمال نہ کرنا چاہیں تو ہر بڑے شہر میں ٹرین اور بسوں کی صورت میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی سہولت موجود ہے بہت سے لوگ ریلوے اسٹیشنوں پرگاڑیاں پارک کر کے پھر ٹرین میں دفتر چلے جاتے ہیں خود ہمارے صاحبزادے جو ایپل میں سرکٹ ڈیزائن انجینئر ہیں آدھے راستے تک تقریباً ایک گھنٹہ سفرکر کے پک اپ پوائنٹ تک جاتے ہیں جہاں سے ایپل کی ڈبل ڈیکر وین انھیں سینوزے تک لے جاتی ہے۔

شکاگو میں جہاں ہماری بیٹی ندا رہتی ہیں اور داماد سید عثمان ہمایوں شیئرز ہیڈ آفس میں ڈائریکٹر ہیں ہر ہفتے ایک لیڈی کام کرنے آتی ہیں (جن کو ہمارے یہاں ماسی کہا جاتا ہے) ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ جس گاڑی میں آتی ہیں وہ ہمارے دامادکی کار سے زیادہ قیمتی ہے۔ اسی گھر میں ہماری ملاقات ایک ''گیجٹ'' الیکسا سے ہوئی جو پوچھنے پر وقت بھی بتاتی ہے اور درجہ حرارت بھی۔ اس سے آپ جنرل نالج کا کوئی سوال بھی پوچھ سکتے ہیں جس کا وہ فوراً جواب دیتی ہے اور فرمائش کرنے پر وہ کسی بھی زبان کا کوئی سا مقبول گیت بھی سناتی ہے۔

اب تھوڑا سا سطحی قسم کا تذکرہ وہاں کی صدارتی سیاست کا۔ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسز ہیلری کلنٹن جیسی طاقتور امیدوار کے سامنے میڈیا کی مخالفت اور منفی سوچ کے باوجود خاصی مقبولیت حاصل کر لی ہے وہ جیت سکتے ہیں اور ان کے امریکی صدر بننے کے بعد کا منظر خاصا خوفناک ہے۔

ایک عام امریکی کو خوف ہے کہ تارکین وطن Immigrants خاص طور پر مسلمانوں کی تعداد جن کا فیملی سسٹم ''بوجوہ'' Intact ہے بڑھتی چلی جائے گی اور ایک دن ان سے زیادہ ہو جائے گی۔ اس لیے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ چاہے موجودہ تارکین وطن کسی نہ کسی طرح لڑ مر کر ''سروائیو'' کر جائیں مگر ان کی مزید آمد کا سلسلہ نئے قوانین بنا کر روک دیا جائے۔ یہ کام اگر آج نہیں توکل ضرور ہو جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے کیمپوں کی سوچ میں جو فاصلہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹرمپ امریکا کو پہلے کی طرح ''عظیم'' بنانا چاہتے ہیں جب کہ خاتون اول مشعل اوباما کے نزدیک امریکا آج بھی دنیا میں عظیم ترین ہے۔

ہمیں نجانے کیوں مغربی ملکوں کے دوغلے طرز عمل پر حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی بظاہر غلط یا صحیح ان کے ایجنٹوں نے پاکستان سمیت پوری اسلامک بیلٹ میں وار تھیٹرز کھول رکھے ہیں اور جب یہ بے خانماں برباد مسلمان جان بچانے کے لیے پرامن مغربی ملکوں کا رخ کرتے ہیں تو ان کا راستہ روکا جاتا ہے۔ خودکش دھماکے کرائے جاتے ہیں۔

بہرحال جو صورت حالات ابھر رہی ہے اس میں پاکستانیوں کے لیے امریکا سمیت مختلف خوشحال ملکوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں بلکہ جیساکہ ہم نے مشاہدہ کیا بعض سمندر پار پاکستانیوں کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں وطن واپسی کی خواہش بھی کلبلانے لگی ہے۔

یہ بات ہمارے ملک و قوم خاص طور پر حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ان کے لیے یہ بات چیلنج کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں انقلاب برپا کر کے اسے ایسا خوشحال اور ترقی یافتہ بنا دیں کہ لوگوں کو بہتر زندگی کی جستجو میں بیرون ملک جانے کی ضرورت نہ رہے۔ اس کام میں مغربی ممالک خاص طور پر امریکا کو بھی ہماری مدد کرنی ہو گی اور نااہل اورکرپٹ حکمرانوں کی سرپرستی چھوڑ کر ایسے حکمراں ہم پر مسلط کرنے ہوں گے جو یہ تبدیلی لاسکیں۔ خود ہمیں آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنی ہو گی اور لوگوں کو تعلیم یافتہ، باشعور اور قانون کا احترام کرنے والا بنانا ہو گا۔

مگر فی الوقت جیسا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے حالات بتاتے ہیں دنیا کو چلانے والے طاقتور حکمراں کسی اور ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں جس کا علم کسی ایسے ماہرکو ہی ہو سکتا ہے جو علم نجوم پر دسترس رکھتا ہو اور غیب کا حال جانتا ہو۔ ظاہر ہے ہم ان میں شامل نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں