دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی …
جس تیزی سے یہ جذبے ’عنقا‘ ہوئے جا رہے ہیں لگتا ہے جلد ہی ڈکشنری سے بھی یہ الفاظ خارج ہو جائیں گے
بھلا ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھوئے رہنے کو مرض سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے؟ لیکن ناسٹلجیا کی ٹرم استعمال کر کے اس کیفیت کو بھی ایک مرض کا نام دے دیا گیا ہے، عام طور پر اس مرض کا شکار ادھیڑ عمر اور ضعیف لوگ ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے فارغ اوقات بچپن و جوانی کی خوشگوار یادوں کے سہارے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھئی ہماری نظر میں تو یہ کوئی مرض نہیں، کیونکہ اس پُر وحشت دور میں بوڑھے تو کیا نوجوان بھی حقیقت سے نظریں چرائے اپنے ابتدائی دور کی روپہلی یادوں میں کھو کر اس پُرفتن دور سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ 'ہمارا دور بہت اچھا تھا' یہ جملہ تو اکثر بڑے بوڑھوں کے منہ سے سننے میں آتا ہے لیکن جب کوئی بیس پچیس سالہ جوان یہ کہے کہ 'پرانا زمانہ کس قدر خوشگوار تھا' تو آپ حیرت سے اس کا منہ تکنا شروع کر دیں گے کہ وہ کون سے پرانے زمانے کی بات کر رہا ہے۔ لیکن محض پندرہ بیس سال پہلے کے دنوں کا آج سے موازنہ کیا جائے تو احساس ہو گا کہ حقیقتاً وہ دور کسی حد تک پر سکون تھا۔
70ء اور 80ء کی دہائی کا تو کیا ہی کہنا کہ وہ دور محبت اور خلوص و مروت جیسے انمول جذبوں سے مہکتا تھا لیکن 90ء کی دہائی بھی ان دم توڑتے جذبوں کی یاد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جب نہ آج کی طرح افراتفری کا دور دورہ تھا نہ ہی وقت کی کمی کی شکایت، محلے اور پڑوس کی خبر گیری کا رواج تھا تو خاندانی محبتوں نے بھی دم نہیں توڑا تھا، لوگوں میں 'حقیقی انسانی جذبے' موجود تھے۔ ہم گزشتہ دور سے آج کے دور کا تقابل مہنگائی و دہشت گردی کے پیرائے میں نہیں کریں گے کیونکہ ہر دور میں مہنگائی کا گراف اس وقت کے لحاظ سے برتر ہی رہا ہے، دوم مہنگائی ہمیشہ قوت خرید سے مشروط رہی ہے، صاحب استطاعت کی ڈکشنری میں مہنگائی کا لفظ ہی نہیں ہوتا، یہ تو محض کم آمدنی والے افراد کے لیے مختص ہے۔ اس لیے اچھے دور کا تقابل ہم نایاب انسانی جذبوں کے پیرائے میں کریں گے۔
محبت، وفا، خلوص، ہمدردی... جس تیزی سے یہ جذبے 'عنقا' ہوئے جا رہے ہیں لگتا ہے جلد ہی ڈکشنری سے بھی یہ الفاظ خارج ہو جائیں گے اور آج کی نسل ان جذبوں کے ساتھ ان الفاظ کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہو جائے گی۔ کیا وجہ ہے کہ موجودہ پود ان جذبوں کی قدر سے بے بہرہ ہے بلکہ نصیحت کرنے والوں کو ان نگاہوں سے دیکھتی ہے جیسے ناصح کی دماغی کیفیت پر شک ہو۔ آج کی نسل محبت و خلوص کو لاحاصل اور ہمدردی کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔ خود غرضی و مفاد پرستی جیسے منفی جذبوں نے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔ آج بچوں کے پاس اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے لیے فرصت کے لمحات نہیں لیکن تفریحات، گیمز اور گھومنے پھرنے کے لیے وقت ہی وقت ہے، خاندان و رشتے داروں کی عزت تو کجا ماں باپ سے زبان درازی اور بدتمیزی جا بجا نظر آتی ہے۔ یا خدا! یہ نئی نسل کس ڈگر پر چلی جا رہی ہے۔
لوگ بجا پرانے وقت کو اچھا کہتے ہیں کہ جب خاندانی سسٹم اپنی اصل صورت میں بحال تھا، تمام رشتے ایک چھت تلے رہتے تھے، بڑوں کا احترام ہوتا تھا تو اپنے بہن بھائیوں کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا، یکساں محبت کسی طرح کا بھید بھائو نہیں، تمام بھائیوں کی کمائی ایک جگہ جمع ہوتی تھی اور بزرگ گھر کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وقت بدلتا گیا، معاشی حالات نے خونی رشتوں کو جدا ہونے پر مجبور کر دیا، لیکن محبتیں؟ اس میں تو حالات کو دوش نہیں دیا جا سکتا، وہ محبتیں کہاں کھو گئیں؟ بچوں کے مزاج میں سے تمیز و تہذیب کہاں گئی؟ خاندانی سسٹم کی یہی تو سب سے بڑی خوبی تھی، جوائنٹ فیملی سسٹم کیا ختم ہوا، نوجوان نسل نے اپنے قیمتی جوہر بھی گنوا دیے۔
اس نکتے پر بہت سوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن غیر جانبداری سے دیکھیں تو اکیسویں صدی جو ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کے ساتھ شروع ہوئی، اس نے سہولتوں کے ساتھ کئی منفی پہلو بھی انسانی زندگی میں داخل کر دیے۔ آج سے پندرہ سال پہلے انٹرنیٹ اور موبائل سروس اس قدر عام نہیں ہوئی تھی جتنی کہ اب ہے، ٹی وی اور نیٹ کیبل بھی 20 سال پہلے عام نہ تھے۔ صرف دو دہائی پہلے پاکستانی معاشرت خاص کر شہروں میں آنے والی ان بڑی تبدیلیوں نے عوام کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی، سادہ زندگی کا خاتمہ ہوا اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے کثیر الجہتی منفی اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے۔ ہرچند تمام شعبہ زندگی میں چیزوں کا منفی اور مثبت استعمال انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن انٹرنیٹ اور موبائل سروس نے ہماری زندگیوں پر سہولت کے ساتھ کئی منفی اثرات مرتب کیے، خاص کر نوجوان نسل کو اپنے سحر میں جکڑ لیا، بچے کتابوں اور کھیل کود سے دور ہونے لگے جس کے اثرات جسمانی صحت کے ساتھ دماغی نشو و نما پر بھی پڑے۔
آج اکثر گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کی تعریف کرتے کہتے ہیں کہ بھئی ہمارا بچہ ابھی محض ایک سال کا ہے لیکن موبائل میں بڑی دلچسپی ہے، بڑے فخریہ انداز میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا بچہ تو صرف چار سال کی عمر میں کمپیوٹر آپریٹ کر لیتا ہے۔ لیکن یہ فخر کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ اپنے بچوں کو کس غلط ڈگر پر چلا رہے ہیں۔ ہر چیز کے استعمال میں اعتدال ضروری ہے، یہی بات ٹیکنالوجی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جہاں انٹرنیٹ اور موبائل کے حد درجہ استعمال نے بچوں کو سوشل لائف سے دور کر دیا وہیں گھریلو خواتین بھی ٹی وی کی چکا چوند سے متاثر ہوئیں، وقت کی کمی کی شکایت سامنے آئی تو فیشن اور لائف اسٹائل کے نام پر گھریلو بجٹ متاثر ہونا شروع ہوا، سب سے زیادہ اثر معاشرے کی اخلاقیات پر پڑا، خاندانی سسٹم تو ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، معاشی حالات کے سبب تمام فیملیز الگ الگ رہنے پر مجبور تھیں ایسے میں بچوں پر سے بڑوں کی نگاہ بالکل ہی ہٹ گئی، نتیجتاً اخلاقی گراوٹ اور تہذیب سے عاری ایک نسل ہمارے سامنے ہے۔ بچوں کی تربیت اور ان کی غلط عادات پر نگاہ رکھنا بڑوں کی ذمے داری ہے لیکن جب بڑے ہی اپنی دنیا میں محو ہوں تو بچوں کی اصلاح کون کرے گا؟ بقول شاعر
کچی عمروں میں بہکنے کا سبب ہے اتنا
عمر کم ہوتی ہے جذبات بہت ہوتے ہیں
بچوں کے اخلاق میں بگاڑ کا ذمے دار صرف بچوں کے رویے کو قرار نہیں دیا جا سکتا، اس میں قصور وار صرف اور صرف والدین اور گارجین ہیں۔ بچوں کے اذہان اس نرم پگھلے لوہے کی مانند ہوتے ہیں جنھیں اپنی مرضی سے جس سمت چاہے موڑا جا سکتا ہے لیکن پختہ ہونے کے بعد اس کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ یہ والدین کی ذمے داری بنتی ہے وہ بچوں کے چلن پر نظر رکھیں۔ ٹیکنالوجی خاص کر انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا استعمال پر پابندی لگائیں، انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت صرف اپنی موجودگی میں دیں اور کم عمر بچوں کو موبائل کا استعمال بالکل نہ کرنے دیں، خاص کر اسکول جانے والے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں۔
کیونکہ آپ نہیں جان سکتے کہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے بچوں کے روابط موبائل پر کس طرح کے لوگوں سے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایس ایم ایس پیکیجز نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے، والدین کو ان بچوں پر بھی خاص نگاہ رکھنی چاہیے جو صبح اٹھتے ساتھ اور رات کو سوتے وقت بھی اپنے موبائل کے ساتھ مصروف کار نظر آئیں۔ ہمارا معاشرہ جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور جو نسل بگڑتی جا رہی ہے اگر بڑے اپنے ذمے داری صحیح انداز سے نبھائیں تو اسے کسی قدر سدھارا جا سکتا ہے اور آنے والی نسل کو دوبارہ 70ء کی دہائی کی اخلاقیات لوٹائی جا سکتی ہیں۔
بھئی ہماری نظر میں تو یہ کوئی مرض نہیں، کیونکہ اس پُر وحشت دور میں بوڑھے تو کیا نوجوان بھی حقیقت سے نظریں چرائے اپنے ابتدائی دور کی روپہلی یادوں میں کھو کر اس پُرفتن دور سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ 'ہمارا دور بہت اچھا تھا' یہ جملہ تو اکثر بڑے بوڑھوں کے منہ سے سننے میں آتا ہے لیکن جب کوئی بیس پچیس سالہ جوان یہ کہے کہ 'پرانا زمانہ کس قدر خوشگوار تھا' تو آپ حیرت سے اس کا منہ تکنا شروع کر دیں گے کہ وہ کون سے پرانے زمانے کی بات کر رہا ہے۔ لیکن محض پندرہ بیس سال پہلے کے دنوں کا آج سے موازنہ کیا جائے تو احساس ہو گا کہ حقیقتاً وہ دور کسی حد تک پر سکون تھا۔
70ء اور 80ء کی دہائی کا تو کیا ہی کہنا کہ وہ دور محبت اور خلوص و مروت جیسے انمول جذبوں سے مہکتا تھا لیکن 90ء کی دہائی بھی ان دم توڑتے جذبوں کی یاد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جب نہ آج کی طرح افراتفری کا دور دورہ تھا نہ ہی وقت کی کمی کی شکایت، محلے اور پڑوس کی خبر گیری کا رواج تھا تو خاندانی محبتوں نے بھی دم نہیں توڑا تھا، لوگوں میں 'حقیقی انسانی جذبے' موجود تھے۔ ہم گزشتہ دور سے آج کے دور کا تقابل مہنگائی و دہشت گردی کے پیرائے میں نہیں کریں گے کیونکہ ہر دور میں مہنگائی کا گراف اس وقت کے لحاظ سے برتر ہی رہا ہے، دوم مہنگائی ہمیشہ قوت خرید سے مشروط رہی ہے، صاحب استطاعت کی ڈکشنری میں مہنگائی کا لفظ ہی نہیں ہوتا، یہ تو محض کم آمدنی والے افراد کے لیے مختص ہے۔ اس لیے اچھے دور کا تقابل ہم نایاب انسانی جذبوں کے پیرائے میں کریں گے۔
محبت، وفا، خلوص، ہمدردی... جس تیزی سے یہ جذبے 'عنقا' ہوئے جا رہے ہیں لگتا ہے جلد ہی ڈکشنری سے بھی یہ الفاظ خارج ہو جائیں گے اور آج کی نسل ان جذبوں کے ساتھ ان الفاظ کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہو جائے گی۔ کیا وجہ ہے کہ موجودہ پود ان جذبوں کی قدر سے بے بہرہ ہے بلکہ نصیحت کرنے والوں کو ان نگاہوں سے دیکھتی ہے جیسے ناصح کی دماغی کیفیت پر شک ہو۔ آج کی نسل محبت و خلوص کو لاحاصل اور ہمدردی کو وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔ خود غرضی و مفاد پرستی جیسے منفی جذبوں نے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔ آج بچوں کے پاس اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے لیے فرصت کے لمحات نہیں لیکن تفریحات، گیمز اور گھومنے پھرنے کے لیے وقت ہی وقت ہے، خاندان و رشتے داروں کی عزت تو کجا ماں باپ سے زبان درازی اور بدتمیزی جا بجا نظر آتی ہے۔ یا خدا! یہ نئی نسل کس ڈگر پر چلی جا رہی ہے۔
لوگ بجا پرانے وقت کو اچھا کہتے ہیں کہ جب خاندانی سسٹم اپنی اصل صورت میں بحال تھا، تمام رشتے ایک چھت تلے رہتے تھے، بڑوں کا احترام ہوتا تھا تو اپنے بہن بھائیوں کی اولاد کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا، یکساں محبت کسی طرح کا بھید بھائو نہیں، تمام بھائیوں کی کمائی ایک جگہ جمع ہوتی تھی اور بزرگ گھر کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وقت بدلتا گیا، معاشی حالات نے خونی رشتوں کو جدا ہونے پر مجبور کر دیا، لیکن محبتیں؟ اس میں تو حالات کو دوش نہیں دیا جا سکتا، وہ محبتیں کہاں کھو گئیں؟ بچوں کے مزاج میں سے تمیز و تہذیب کہاں گئی؟ خاندانی سسٹم کی یہی تو سب سے بڑی خوبی تھی، جوائنٹ فیملی سسٹم کیا ختم ہوا، نوجوان نسل نے اپنے قیمتی جوہر بھی گنوا دیے۔
اس نکتے پر بہت سوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن غیر جانبداری سے دیکھیں تو اکیسویں صدی جو ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کے ساتھ شروع ہوئی، اس نے سہولتوں کے ساتھ کئی منفی پہلو بھی انسانی زندگی میں داخل کر دیے۔ آج سے پندرہ سال پہلے انٹرنیٹ اور موبائل سروس اس قدر عام نہیں ہوئی تھی جتنی کہ اب ہے، ٹی وی اور نیٹ کیبل بھی 20 سال پہلے عام نہ تھے۔ صرف دو دہائی پہلے پاکستانی معاشرت خاص کر شہروں میں آنے والی ان بڑی تبدیلیوں نے عوام کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی، سادہ زندگی کا خاتمہ ہوا اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے کثیر الجہتی منفی اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے۔ ہرچند تمام شعبہ زندگی میں چیزوں کا منفی اور مثبت استعمال انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن انٹرنیٹ اور موبائل سروس نے ہماری زندگیوں پر سہولت کے ساتھ کئی منفی اثرات مرتب کیے، خاص کر نوجوان نسل کو اپنے سحر میں جکڑ لیا، بچے کتابوں اور کھیل کود سے دور ہونے لگے جس کے اثرات جسمانی صحت کے ساتھ دماغی نشو و نما پر بھی پڑے۔
آج اکثر گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کی تعریف کرتے کہتے ہیں کہ بھئی ہمارا بچہ ابھی محض ایک سال کا ہے لیکن موبائل میں بڑی دلچسپی ہے، بڑے فخریہ انداز میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا بچہ تو صرف چار سال کی عمر میں کمپیوٹر آپریٹ کر لیتا ہے۔ لیکن یہ فخر کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ اپنے بچوں کو کس غلط ڈگر پر چلا رہے ہیں۔ ہر چیز کے استعمال میں اعتدال ضروری ہے، یہی بات ٹیکنالوجی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جہاں انٹرنیٹ اور موبائل کے حد درجہ استعمال نے بچوں کو سوشل لائف سے دور کر دیا وہیں گھریلو خواتین بھی ٹی وی کی چکا چوند سے متاثر ہوئیں، وقت کی کمی کی شکایت سامنے آئی تو فیشن اور لائف اسٹائل کے نام پر گھریلو بجٹ متاثر ہونا شروع ہوا، سب سے زیادہ اثر معاشرے کی اخلاقیات پر پڑا، خاندانی سسٹم تو ویسے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، معاشی حالات کے سبب تمام فیملیز الگ الگ رہنے پر مجبور تھیں ایسے میں بچوں پر سے بڑوں کی نگاہ بالکل ہی ہٹ گئی، نتیجتاً اخلاقی گراوٹ اور تہذیب سے عاری ایک نسل ہمارے سامنے ہے۔ بچوں کی تربیت اور ان کی غلط عادات پر نگاہ رکھنا بڑوں کی ذمے داری ہے لیکن جب بڑے ہی اپنی دنیا میں محو ہوں تو بچوں کی اصلاح کون کرے گا؟ بقول شاعر
کچی عمروں میں بہکنے کا سبب ہے اتنا
عمر کم ہوتی ہے جذبات بہت ہوتے ہیں
بچوں کے اخلاق میں بگاڑ کا ذمے دار صرف بچوں کے رویے کو قرار نہیں دیا جا سکتا، اس میں قصور وار صرف اور صرف والدین اور گارجین ہیں۔ بچوں کے اذہان اس نرم پگھلے لوہے کی مانند ہوتے ہیں جنھیں اپنی مرضی سے جس سمت چاہے موڑا جا سکتا ہے لیکن پختہ ہونے کے بعد اس کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ یہ والدین کی ذمے داری بنتی ہے وہ بچوں کے چلن پر نظر رکھیں۔ ٹیکنالوجی خاص کر انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا استعمال پر پابندی لگائیں، انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت صرف اپنی موجودگی میں دیں اور کم عمر بچوں کو موبائل کا استعمال بالکل نہ کرنے دیں، خاص کر اسکول جانے والے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں۔
کیونکہ آپ نہیں جان سکتے کہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے بچوں کے روابط موبائل پر کس طرح کے لوگوں سے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایس ایم ایس پیکیجز نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے، والدین کو ان بچوں پر بھی خاص نگاہ رکھنی چاہیے جو صبح اٹھتے ساتھ اور رات کو سوتے وقت بھی اپنے موبائل کے ساتھ مصروف کار نظر آئیں۔ ہمارا معاشرہ جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور جو نسل بگڑتی جا رہی ہے اگر بڑے اپنے ذمے داری صحیح انداز سے نبھائیں تو اسے کسی قدر سدھارا جا سکتا ہے اور آنے والی نسل کو دوبارہ 70ء کی دہائی کی اخلاقیات لوٹائی جا سکتی ہیں۔