کب مہکے گی فصل گل

پاکستان کی تاریخ کے کئی باب بے یقینی کے اندھیروں سے بھرے ہوئے ہیں،


Shabnam Gul August 25, 2016
[email protected]

پاکستان کی تاریخ کے کئی باب بے یقینی کے اندھیروں سے بھرے ہوئے ہیں، اگرظالم طاقتور ہے تو ظلم سہنے والا ایک دن ناقابل تسخیر قوت بن کر ابھرتا ہے۔ دکھ تباہ کن نہیں ہوتے۔ ان کے اندر پوشیدہ تعمیری طاقت، قوموں کی زندگی بدل دیتی ہے۔ اس ملک کی منتشر تاریخ کے مختلف باب آہنی سوچ کے حامل لوگوں کی جدوجہد سے رقم طراز ہیں۔ ایک طرف محترمہ فاطمہ جناح تھیں جو ایوب خان کے سامنے ڈٹ کے کھڑی ہو گئیں۔ دوسری جانب نصرت بھٹوآمریت کی آہنی سلاخوں سے برسر پیکار ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو والد کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں اور جبر و حاکمیت کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ان خواتین نے آمریت کی بنجر زمین میں انسانی قدروں کا بیج بویا، لیکن اس سخت زمین کو سب سے پہلے احساس کی اوس سے تر کیا۔ وہ احساس جو پسے ہوئے طبقوں کے لیے نوید بہار ثابت ہوا۔

جدوجہد کے اس سفر میں بہت سی عورتوں کے نام ملتے ہیں جن میں انیس ہارون، نسرین صدیقی، نزہت قدوائی، عطیہ داؤد، فہمیدہ ریاض، شیما کرمانی، مدیحہ گوہر، مہناز رحمن، نگہت سعید خان، عاصمہ جہانگیر، سعیدہ گزدر اور بیشمار انسان دوست لوگ ظلم و جبر کے خلاف چلنے والے قافلوں کے رہنما بنے ہیں۔

لفظ تبدیلی لاتے ہیں۔ لفظوں کے پیچھے کرشماتی سوچ، تنگ نظری کے ایوانوں کو ہلا ڈالتی ہے، اگر لفظوں کے خالق کو کہے ہوئے لفظ کی حرمت کا احساس ہے تو ذہنی حبس سے نجات کا راستہ مل جاتا ہے۔ اس ملک کے بہت سے ادیبوں و شاعروں نے آمریت کے ردعمل میں قلم اٹھایا۔ جا بجا شعور کے گلاب مہکتے تھے مگر ہر بار بہار کا راستہ روک دیا جاتا۔ میں بات کرنا چاہ رہی ہوں انیس ہارون کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''کب مہکے گی فصل گل'' مگر موضوع کچھ ایسا ہے کہ بہت کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا ہے۔ مگر موضوع کی وسعت کو اختصار کے پیرائے میں بھی بیان کرنا ہے۔

انیس ہارون کی یہ کتاب، موضوع کے اعتبار سے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ موجودہ نسل کو ان سچے اور کھرے لوگوں سے ملوا سکے گی، جو دنیاداری سے عاجز بے باک لوگ تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے کئی پوشیدہ رخ سامنے آئے ہیں جو محبت اور سچ کے خمیر سے جڑے ہیں۔ خانہ بدوش کیفے کی روح رواں امر سندھو اور عرفانہ ملاح و ان کے ساتھیوں نے ایک ایسا خوبصورت پروگرام ترتیب دے ڈالا جو مدتوں ذہنوں سے محو نہ ہو پائیگا۔ اس پروگرام میں انیس ہارون کی فن و شخصیت پر نہ صرف روشنی ڈالی گئی بلکہ ان کی کتاب کے محرکات پر بھی گفتگو ہوئی۔ ان کے پالتو کتے کا ذکر بھی آیا تو مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر ہارون احمد سے ان کی کامیاب شادی کا تذکرہ بھی ہوا۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد، مہناز رحمن اور عطیہ داؤد نے خوبصورت لفظوں کا خراج تحسین پیش کیا۔ انھیں ہارون نے زبیدہ کالج حیدرآباد کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے، اس شہر سے وابستہ بھولی بسری باتیں دہرائیں۔ زبیدہ کالج سے فہمیدہ ریاض، سلطانہ صدیقی، مہتاب اکبر راشدی اور انیس ہارون نے تعلیم حاصل کی۔انیس ہارون اس ضمن میں لکھتی ہیں۔ زبیدہ کالج سے میں نے سیاست کا آغاز کیا۔ ایوب خان 1962ء کا دستور لا چکے تھے۔ جس کے نتیجے میں بنیادی جمہوریتوں کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ مگر لوگوں میں بے چینی پیدا ہو رہی تھی۔ سرسبز پاکستان کے باغ دکھائے جا رہے تھے اور دولت بائیس خاندانوں میں جمع ہو رہی تھی۔ مہنگائی، خور و نوش کی اشیا کی عدم دستیابی، رشوت ستانی اور صدارتی نظام کے نام پر آمریت کی جڑیں مضبوط کی جا رہی تھیں۔''

اس کتاب میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کی باتیں اور ذوالفقارعلی بھٹو سے رابطوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مکمل دور کی تاریخ صفحات میں سانس لینے لگتی ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے دور بدل گیا ہے مگر لوگ اب بھی ویسے ہی ہیں۔ خواہشات کا بڑھتا ہوا گراف انسانی قدروں کو نیچے گرا دیتا ہے۔ دور بدل گیا تو کیا ہوا۔ مگر خواہشات اور وحشتیں ہنوز باقی ہیں۔ تبدیلی عام کی زندگی کی بہتری سے شروع ہوتی ہے۔ عوام کے تھکے ہوئے چہرے اور پریشان آنکھیں حکمرانوں کی خوشحالی کا پتہ دیتی ہیں۔ کم مائیگی سخاوت کی پیمانوں کا تعین کرتی ہیں۔

انیس لکھتی ہیں ''اب ہم جیسے لوگ رہ گئے ہیں جو مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں۔ سیاست سے مایوس ہوئے تو صحافت میں بہل گئے۔ مجھے کمیونسٹ پارٹی نے بھی ممبر بلکہ فل ٹائم ورکر بننے کی دعوت دی تھی۔ مگر کچھ عجیب شرط رکھی تھی کہ اپنے کٹے ہوئے بال بڑھالو۔ یہ کیا بات ہوئی۔ کیا انقلاب چٹیا سے آتا ہے۔'' ایسے کئی واقعات کتاب میں جابجا ملتے ہیں۔ انداز بیاں سادہ اور دل کو چھونے والا ہے۔

ہارون سے ملاقات والے باب میں لکھتی ہیں کہ ''میری زندگی میں اچانک بڑی تبدیلی آئی۔ میں ایک ایسے شخص سے ملی جو نہ صرف میری طرح ترقی پسند نظریات رکھتا تھا بلکہ ایک سنجیدہ اور پسندیدہ شخصیت کا مالک تھا۔ مجھے ہارون سے پہلی ملاقات تو یاد نہیں ہے شاید ہم انتخابات کے دوران کسی الیکشن میٹنگ میں کمال اظفر کے گھر ملے تھے، لیکن بعد کی ملاقاتیں یاد ہیں۔ بہت عرصے تک میں انھیں صرف ایک ترقی پسند ماہر نفسیات کی حیثیت سے جانتی تھی۔ قسمت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ نہ جانے ہم کس طرح ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔

ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور جتنا میں انھیں جانتی گئی ان کی معترف ہوتی گئی۔ انتہائی ایماندار، پرخلوص کبھی کسی کی برائی نہ کرنا، بذلہ سنجی، ادب، شاعری، موسیقی، فنون لطیفہ کی ہر صنف سے انھیں لگاؤ تھا۔ مجھے ہارون سے عشق ہو گیا تھا۔ گو دونوں طرف سے کسی نہ کسی طرح جذبات کا اظہار ہو ہی جاتا تھا۔ مگر اعتراف کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ مثلاً ہارون نے مجھے سجاد ظہیر کی کتاب ''پگھلا نیلم'' دی جس پر لکھا تھا انیس کے لیے۔ نیلم بھی پگھل جاتا ہے۔ میں نے گھر آ کر فرط مسرت سے اس تحریر کو چوم لیا۔'' یہ ذاتی زندگی کے حوالے سے لکھا ہوا ایک دلچسپ باب ہے۔انیس ہارون آٹھ سال تک عورت فاؤنڈیشن کی پریزیڈنٹ ڈائریکٹر رہیں۔

پاکستان لائر ویمن لائرز ایسوسی ایشن، اثر، ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ کی رکن اور پاک انڈیا پیپلز فورم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ویمن ایکشن فورم کی تاسیسی رکن رہی ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے انیس ہارون نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قابل تحسین کام کیا ہے۔ 2005ء میں نوبل امن پرائز کے لیے نامزد ہونے والی سو خواتین میں انیس ہارون کا نام بھی شامل ہے۔بھٹو کی پھانسی سے، انیس کی گرفتاری اور طیارہ پھٹنے تک احساس کے کانٹوں کا سفر جس طرح انیس نے طے کیا ہے وہ چبھن قارئین بھی محسوس کرتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں صحیح معنی میں پڑھے لکھے اور مخلص لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہی لوگ ہیں جو فصل گل پانے کے لیے غیر انسانی رویوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں