صدر زرداری کے دورہ کوریا کا معاشی تناظر
کوریا نے ترقی کے مراحل قومی اقتصادی منصوبوں کی تیاری میں عالمی حقائق اور اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھ کر طے کئے ہیں۔
لاہور:
صدر مملکت آصف زرداری نے کوریا کو آزادانہ تجارت، کرنسی تبادلہ معاہدہ اور پاکستان سے افرادی قوت کی اضافی درآمد کی پیشکش کی ہے۔دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ، پاکستان اس لعنت کے مکمل خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھے گا تاکہ ہماری مستقبل کی نسلیں کسی خوف و خطر کے بغیر پرامن ماحول میں رہ سکیں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
منگل کو کوریا کے صدارتی دفتر میں کوریا کے صدر لی میونگ باک کے ساتھ ملاقات کے دوران صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان جنوبی کوریا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ کورین ہم منصب کی طرف سے دیے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ انتہا پسندانہ نظریات ختم کیے بغیر مسائل کا حل نکالنا مشکل ہے ۔ پاکستان کو قومی معیشت کے استحکام اور خطے میں امن و ترقی کے اہداف تک رسائی کا جو مشکل ٹاسک درپیش ہے اس کی حقیقی اور معروضی تصویر صدر مملکت نے اپنے جنوبی کوریا کے دورے میں احسن طریقے سے واضح کی ہے اور اپنے خطاب میں عالمی صورتحال،دہشت گردی سے پیدا شدہ سنگین انسانی مسائل کے حل اور دو طرفہ تجارتی تعلقات میں انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوششوں کا جس پر جوش انداز میں ذکر کیا ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
بلاشبہ کوریا کے عوام اور ارباب اختیار جنگوں کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں ۔اگرکورین عوام اور ان کے اقتصادی ماہرین کی معاشی پیش رفت کا اندازہ کرنے کے لیے صرف 1945-92 ء کے دوران اقتصادی ترقی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم نے اپنی معاشی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتصادی اہداف اور ایجنڈے کی تکمیل کس محنت اور قومی ذمے داری کے احساس کے ساتھ کی۔کوریا نے اپنی معیشت کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے کئی مراحل قومی اقتصادی منصوبوں کی تیاری میں عالمی حقائق اور اقتصادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کیے ہیں، اس لیے پاکستان اور کوریا اپنے تجربات کے تبادلے سے نہ صرف ایک دوسرے کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ خطے میں امن و ترقی کے اشتراک عمل سے دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوسکتے ہیں۔
صدر مملکت نے انتہا پسندی کو امن و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے، چنانچہ افغان امن کے حوالے سے ان کا یہ کہنا کہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے صدر نے در اصل خطے کی حقیقی صورتحال کی جھلک دکھائی ہے۔یوں بھی ضرورت اس کی ہمیشہ رہے گی کہ پاکستان اور کوریا دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جستجو جاری رکھیں۔ جنوبی کوریا کے صدر نے یقین دلایا کہ کوریا ضرورت کی ہر گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کی ہر ممکن مدد کرے گا۔
اس موقع پر صدر زرداری نے جنوبی کوریا کے سرمایہ کاروں کو کراچی کے قریب خصوصی اقتصادی زون کی پیشکش کی ، اس توقع کے ساتھ کہ وہ غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی طرف سے پیشکش کردہ پرکشش مراعات سے استفادہ کریں گے ۔ کوریا کو باور کرایا گیا کہ بجلی کی قلت کے باعث پاکستان کو توانائی اور زراعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کئی ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات کا پرکشش پیکیج وقت کی ضرورت ہے۔ صدر زرداری نے سرمایہ کار کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کریں ۔
دریں اثنا وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا ہے کہ دہشتگردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے، ہم اس کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں، اس کے خاتمے کے لیے پاکستان اور ایران کو متحد ہونا ہوگا، یہ بات انھوں نے ایرانی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے چیئرمین علائوالدین بروجردی کی قیادت میں پارلیمانی وفد کے ساتھ گفتگو میں کہی ۔ وفد کے سربراہ نے اس عزم کااعادہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ زراعت سمیت دیگرتمام شعبوںمیںتعاون بڑھائیں گے۔
جی ایس پی پلس میں پاکستان کی شمولیت کے لیے تیاریوں کے جائزہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو منڈیوں تک بہتررسائی فراہم کرنے کی غرض سے جی ایس پی کی ترمیم موجودہ جمہوری حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ترقی اور اقتصادی خود انحصاری کے قومی مشن کے حوالے سے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دہشتگردی کے خاتمے اور علاقائی تنازعات کے لیے موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںشنگھائی تعاون تنظیم کے سیل میں پاکستان بھی اپناکردار ادا کرنا چاہتا ہے ، تنظیم معیشت کے فروغ پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔
کائرہ کا انداز نظر بھی تجارت اور معیشت کے لیے نئی مارکیٹیں تلاش کرنے کی ضرورت سے مشروط ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امن جہاں ہوگا سرمایہ کار وہیں آئیں گے۔مارکیٹیں تلاش کرنا بھی ناگزیر ہے تاہم ملکی معیشت کو مزید استحکام،مسلسل شرح نمو کے ساتھ ساتھ افراط زر کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے کوریا اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
حکمرانوں اور ہمارے اقتصادی ماہرین کو صدر کے دورہ کوریا کے اہم پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیندہ کے اقتصادی تعاون اور دو طرفہ تعلقات کے پھیلائو میں معاشی وژن سے کام لیتے ہوئے سائنسی طریق کار کے تحت اقتصادی ترقی کا عمل تیز کرنا ہوگا۔اس شعبہ میں کوریا کا اقتصادی منظر نامہ ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے کہ کس طرح انسانی وسائل کے تصرف،افرادی قوت کے استعمال اور ہنر مندوں کی تخلیقی ، تحقیقی اور تکنیکی صلاحیتوں سے استفادہ میں کوریا کے ارباب اختیار نے کس طرح کام لیا۔امید کی جانی چاہیے کہ صدر زرداری کے دورہ کوریا کے ان پہلوئوں پر بطور خاص نظر ڈالی جائے گی۔
صدر مملکت آصف زرداری نے کوریا کو آزادانہ تجارت، کرنسی تبادلہ معاہدہ اور پاکستان سے افرادی قوت کی اضافی درآمد کی پیشکش کی ہے۔دہشتگردی کے خاتمے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ، پاکستان اس لعنت کے مکمل خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھے گا تاکہ ہماری مستقبل کی نسلیں کسی خوف و خطر کے بغیر پرامن ماحول میں رہ سکیں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
منگل کو کوریا کے صدارتی دفتر میں کوریا کے صدر لی میونگ باک کے ساتھ ملاقات کے دوران صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان جنوبی کوریا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ کورین ہم منصب کی طرف سے دیے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ انتہا پسندانہ نظریات ختم کیے بغیر مسائل کا حل نکالنا مشکل ہے ۔ پاکستان کو قومی معیشت کے استحکام اور خطے میں امن و ترقی کے اہداف تک رسائی کا جو مشکل ٹاسک درپیش ہے اس کی حقیقی اور معروضی تصویر صدر مملکت نے اپنے جنوبی کوریا کے دورے میں احسن طریقے سے واضح کی ہے اور اپنے خطاب میں عالمی صورتحال،دہشت گردی سے پیدا شدہ سنگین انسانی مسائل کے حل اور دو طرفہ تجارتی تعلقات میں انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ کوششوں کا جس پر جوش انداز میں ذکر کیا ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
بلاشبہ کوریا کے عوام اور ارباب اختیار جنگوں کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں ۔اگرکورین عوام اور ان کے اقتصادی ماہرین کی معاشی پیش رفت کا اندازہ کرنے کے لیے صرف 1945-92 ء کے دوران اقتصادی ترقی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم نے اپنی معاشی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتصادی اہداف اور ایجنڈے کی تکمیل کس محنت اور قومی ذمے داری کے احساس کے ساتھ کی۔کوریا نے اپنی معیشت کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے کئی مراحل قومی اقتصادی منصوبوں کی تیاری میں عالمی حقائق اور اقتصادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کیے ہیں، اس لیے پاکستان اور کوریا اپنے تجربات کے تبادلے سے نہ صرف ایک دوسرے کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ خطے میں امن و ترقی کے اشتراک عمل سے دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوسکتے ہیں۔
صدر مملکت نے انتہا پسندی کو امن و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے، چنانچہ افغان امن کے حوالے سے ان کا یہ کہنا کہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے صدر نے در اصل خطے کی حقیقی صورتحال کی جھلک دکھائی ہے۔یوں بھی ضرورت اس کی ہمیشہ رہے گی کہ پاکستان اور کوریا دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جستجو جاری رکھیں۔ جنوبی کوریا کے صدر نے یقین دلایا کہ کوریا ضرورت کی ہر گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کی ہر ممکن مدد کرے گا۔
اس موقع پر صدر زرداری نے جنوبی کوریا کے سرمایہ کاروں کو کراچی کے قریب خصوصی اقتصادی زون کی پیشکش کی ، اس توقع کے ساتھ کہ وہ غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی طرف سے پیشکش کردہ پرکشش مراعات سے استفادہ کریں گے ۔ کوریا کو باور کرایا گیا کہ بجلی کی قلت کے باعث پاکستان کو توانائی اور زراعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کئی ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات کا پرکشش پیکیج وقت کی ضرورت ہے۔ صدر زرداری نے سرمایہ کار کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھاشا ڈیم کی تعمیر میں پاکستان کی مدد کریں ۔
دریں اثنا وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے کہا ہے کہ دہشتگردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے، ہم اس کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں، اس کے خاتمے کے لیے پاکستان اور ایران کو متحد ہونا ہوگا، یہ بات انھوں نے ایرانی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے چیئرمین علائوالدین بروجردی کی قیادت میں پارلیمانی وفد کے ساتھ گفتگو میں کہی ۔ وفد کے سربراہ نے اس عزم کااعادہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ زراعت سمیت دیگرتمام شعبوںمیںتعاون بڑھائیں گے۔
جی ایس پی پلس میں پاکستان کی شمولیت کے لیے تیاریوں کے جائزہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو منڈیوں تک بہتررسائی فراہم کرنے کی غرض سے جی ایس پی کی ترمیم موجودہ جمہوری حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ترقی اور اقتصادی خود انحصاری کے قومی مشن کے حوالے سے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دہشتگردی کے خاتمے اور علاقائی تنازعات کے لیے موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میںشنگھائی تعاون تنظیم کے سیل میں پاکستان بھی اپناکردار ادا کرنا چاہتا ہے ، تنظیم معیشت کے فروغ پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔
کائرہ کا انداز نظر بھی تجارت اور معیشت کے لیے نئی مارکیٹیں تلاش کرنے کی ضرورت سے مشروط ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امن جہاں ہوگا سرمایہ کار وہیں آئیں گے۔مارکیٹیں تلاش کرنا بھی ناگزیر ہے تاہم ملکی معیشت کو مزید استحکام،مسلسل شرح نمو کے ساتھ ساتھ افراط زر کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقتصادی پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے کوریا اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
حکمرانوں اور ہمارے اقتصادی ماہرین کو صدر کے دورہ کوریا کے اہم پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیندہ کے اقتصادی تعاون اور دو طرفہ تعلقات کے پھیلائو میں معاشی وژن سے کام لیتے ہوئے سائنسی طریق کار کے تحت اقتصادی ترقی کا عمل تیز کرنا ہوگا۔اس شعبہ میں کوریا کا اقتصادی منظر نامہ ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے کہ کس طرح انسانی وسائل کے تصرف،افرادی قوت کے استعمال اور ہنر مندوں کی تخلیقی ، تحقیقی اور تکنیکی صلاحیتوں سے استفادہ میں کوریا کے ارباب اختیار نے کس طرح کام لیا۔امید کی جانی چاہیے کہ صدر زرداری کے دورہ کوریا کے ان پہلوئوں پر بطور خاص نظر ڈالی جائے گی۔