اندرکمارگجرال

وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد کئی برس تک گجرال صاحب حیدرآباد(دکن) کے اردو روزنامے سیاست میں ہفتہ وار تحریرکرتے رہے۔


Muqtida Mansoor December 05, 2012
[email protected]

سابق بھارتی وزیراعظم اندرکمارگجرال اس دنیا سے چلے گئے۔ان کی موت سے ان تمام لوگوں کودھچکا لگا ہے، جو اس خطے میں امن،شانتی اور پرامن بقائے باہمی کی خواہش رکھتے ہیں۔کیونکہ انھوں نے اس خطے میں امن خاص طور پر پاک بھارت تعلقات کے لیے انتھک محنت کی۔گوکہ ان کی وزارت عظمیٰ کا دور انتہائی مختصر تھا،لیکن دیگر مختلف حیثیتوں میں انھوں نے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے خاصی نیک نیتی کے ساتھ کام کیا ۔یہی وجہ ہے کہ قیام امن کے لیے ان کی مخلصانہ کوششیں طویل عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔وہ ان بھارتی رہنمائوں میں سے تھے،جو ماضی سے چمٹے رہنے کے بجائے تقسیم ہند کو ایک حقیقت تسلیم کرتے تھے،اسی لیے دونوں ممالک کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں تھے۔

جہلم کے نواحی علاقے میں پیدا ہونے والے گجرال صاحب سے ہماری پہلی ملاقات2001ء میںدہلی میں خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے حوالے سے ہونے والے سیمینارکے موقعے پر ہوئی تھی۔لیکن یہ ملاقات خاصی مختصر تھی،جس میں گفتگوکا محور صرف جوہری ہتھیاروں کی تخفیف اور علاقائی سلامتی رہے۔ مگر وہ جس روانی اور خوبصورت انداز میں اردو بول رہے تھے،دل چاہ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایک طویل نشست ہو،جس میں ان کے ساتھ کھل کرگفتگو ہوسکے۔اگلے چھ برسوں کے دوران کئی بار دہلی جانا ہوا، لیکن کوشش کے باوجود ملاقات نہ ہوسکی۔ کبھی وہ شہر سے باہرہوئے، کبھی ہم اپنی مصروفیت کے باعث وقت نہیں نکال پائے۔

2007ء پاکستان پریس فائونڈیشن کی جانب سے ''تنازعات کے حل میں ذرایع ابلاغ کے کردار'' کے موضوع پردہلی، ممبئی اور چنائے میں ہونے والے مذاکروں میں شرکت کرنے کا موقع ملا،تو امید پیدا ہوئی کہ ان سے ملنے کا موقع مل جائے گا۔کیونکہ یہ دورہ 15روز پر مشتمل تھا،جس میں دورے کے آغاز پر تین دن اور اختتام پر دو روزدہلی میںقیام ہونا تھا۔چنانچہ ہم نے اپنے پروگرام کوآرڈینیٹر پروفیسرسوکمار مرلی دھرن سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ اس مرتبہ وہ کسی نہ کسی طرح گجرال جی سے ملاقات کا بندوبست کریں۔انھوں نے ایک اور مشترک دوست قمر آغا کو یہ ذمے داری سونپ دی، جو اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ سے وابستہ تھے۔

بہر حال ابتدائی تین روزکے دوران ہمارے دوستوں کا گجرال صاحب کے سیکریٹری سے رابطہ نہیں ہوسکا اور ہم بھی خاصے مصروف رہے۔البتہ چنائے میں قیام کے دوران قمر آغا کا فون آیا کہ گجرال صاحب سے ملاقات کا وقت طے ہوگیا ہے، جب آپ واپس دہلی پہنچیں گے تو اگلے روز ملاقات ہوجائے گی۔ چنائے سے ممبئی اور واپس دہلی پہنچنے پر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ گجرال صاحب سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔وہ ایک چھوٹے سے مکان میں سادہ سی طرز رہائش رکھتے تھے۔ مگردنیا جہاں کی کتابیں وہاں دیکھنے کو ملیں۔

گجرال صاحب نے انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا اور خور و نوش کے دوران پاکستان میں اپنی جائے پیدائش اورگورنمنٹ کالج لاہور کی باتیں کرتے رہے۔ فیض صاحب کا تذکرہ بھی بڑے ادب اور احترام کے ساتھ کیا،جن کے وہ شاگرد رہ چکے تھے۔انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہر سال فیض احمد فیض کی برسی بڑے تزک واحترام سے مناتے ہیں۔ دوران گفتگو غالب، فیض،ساحر، فراز اور قتیل شفائی سمیت کئی شعراء کے اشعار بھی سناتے رہے۔جیسے ہی وہ خاموش ہوتے،ہم کوئی نہ کوئی شوشا چھوڑکرانھیںبولنے کا کوئی نیا موضوع دے دیتے،یوں ڈیڑھ گھنٹہ پلک جھپکتے گزرگیا۔

گجرال صاحب کو اردو سے گہری انسیت اور لگائو تھا، وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد کئی برس تک وہ حیدرآباد(دکن) کے اردو روزنامے سیاست میں ہفتہ واراظہاریہ تحریرکرتے رہے۔انھیں اردو کے جدید اورقدیم شعرا کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔اردو سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ انھیں جو مزا اردو لکھنے اور پڑھنے میں آتا ہے کسی اور زبان میں یہ بات نہیں ہے۔فیض کے توخیر وہ شاگرد اور عقیدت مند تھے۔

دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اردو سے قلبی وابستگی رکھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ 1950ء کے عشرے میں دہلی یونیورسٹی کے ایک اجلاس میں جس کی صدارت پنڈت جی کررہے تھے،جب کہ مقررین میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہادی حسن اور ایک ہندی کے پروفیسر شامل تھے۔ پنڈت جی نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ پروفیسر صاحب نے سنسکرت آمیزہندی میں فصیح وبلیغ تقریر کی ، مگر میری سمجھ میں بہت کم آیا۔ ڈاکٹر مہدی حسن صاحب نے گوکہ مختصر خطاب کیا ،مگر سب کچھ سمجھ میں آگیا۔

لیکن جب ہم نے ان سے سوال کیاکہ کانگریس نے تقسیم سے قبل1942ء میں ناگپورمیں ہونے والے دو روزہ کنونشن میں بلاجواز اردو ہندی کا مسئلہ کھڑا کرکے دونوں زبانوں کے درمیان خلیج کیوں پیدا کی؟تو اس سوال کا وہ کوئی واضح جواب نہیں دے سکے یا ہوسکتا ہے کہ سیاسی مصلحت کے سبب دینا مناسب نہ سمجھا ہو۔ قارئین کی معلومات کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنی سوانح حیات گردِ راہ میں اس کنونشن کا پورا احوال بیان کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کنونشن کے دوسرے روز کنونشن میں ہندی کو آزاد ہند کی قومی زبان بنانے کا اعلان کیا گیا اور اردوکو محض اس بنیاد پر ردکیا گیا کہ اس کا رسم الخط عربی ہے۔

حالانکہ اس سے قبل گاندھی جی بار بار یہ کہتے تھے کہ اردو اور ہندی میری دو آنکھیں ہیں۔ڈاکٹر حسین رائے پوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ناگپور کنونشن سے پہلے بابائے اردو مولوی عبدالحق کانگریس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے، لیکن اس اجلاس میں شرکت کے بعد ان کا ذہن مکمل طور پر تبدیل ہوگیا اور وہ قیام پاکستان کے حامی ہوگئے۔اس کے علاوہ ماہرین لسانیات کا موقف بھی یہ ہے کہ کانگریس نے اردو ہندی کا مسئلہ بلاجواز اٹھا کر برصغیر میں عقیدے کے ساتھ لسانی تقسیم کو بھی گہرا کیا۔حالانکہ ہر زبان اپنی سرشت میںسیکولر ہوتی ہے اور اسے کسی عقیدے یا نظرئیے سے وابستہ کرنا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ گجرال صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے، مگر وہ کانگریس کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید سے گریز بھی کر رہے تھے۔ شاید وہ سیاسی سطح پر متنازعہ ہونے سے بچنا چاہتے ہوں۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب کی بیوروکریسی تعلقات کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کی تربیت نوآبادتی طرز پر ہوئی ہے اور وہ Confrontationکے جاری رہنے کو کامیابی سمجھتی ہے۔کشمیر کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اس مسئلے کا واحد حل ڈائیلاگ ہے۔ جنگوں سے یہ مسئلہ نہ حل ہوا ہے اور نہ حل ہوسکتا ہے۔اس لیے دونوں ممالک کو کشمیر کے مسئلے پر کسی تعطل کے بغیرگفت وشنید کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے اور دونوں طرف کے کشمیریوں کو آپس میں ملنے جلنے اور تجارتی روابط بڑھانے کا موقع دینا چاہیے۔

اس سوال کے جواب میں کہ سیاسی قیادتیں اس سلسلے میں سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنے میں کیوں ناکام ہیں اور خود انھوں نے اپنے دور حکومت میں اس جانب پیش رفت کیوں نہیں کی؟ تو ان کا جواب تھا کہ انھیں وقت بہت کم ملا۔وہ صرف گیارہ ماہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہے،جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اہم اور پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے ناکافی تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ وزرائے اعظم جو دو دو مدت کے لیے اس عہدے پر فائز رہے وہ بھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکے،کیونکہ یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ دونوں اطراف کے رویے بھی مسائل کے حل میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ صرف بھارت کی طرف سے پیش قدمی کی توقع کرنا کافی نہیں۔جب انھیں یاد دلایا گیا کہ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ سارک سمیت دیگرامور پر بھی بھارت کا رویہ غیر حقیقت پسندانہ ہوتا ہے،تو وہ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی طرح بھارت میں بھی تین Mindsetپائے جاتے ہیں۔ایک وہ طبقہ ہے جس کے خیال میںتقسیم ہند دراصل بھارت کی مقدس سرزمین کی تقسیم ہے اور یہ ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے، جس کا کفارہ ممکن نہیں۔اس لیے یہ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہیں۔ یہ عناصر مختلف شدت پسندجماعتوں میں موجود ہیں اور پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈاکرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔دوسرا طبقہ وہ ہے جو بظاہرخودکو آزاد خیال ظاہر کرتا ہے، لیکن حقیقت میں پاکستان کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔کیونکہ یہ طبقہ تقسیم ہند کو مٹی پر کھنچاایک خط سمجھتا ہے اوراس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ خط جلد مٹ جائے گا اور دونوں ملک ایک ہوجائیں گے۔

لیکن ایک تیسرا طبقہ ایسا بھی موجود ہے، جو تقسیم ہندکو ایک تاریخی حقیقت سمجھتے ہوئے اسے قبول کرنے پر زور دیتا ہے۔اس طبقے کا خیال ہے کہ معروضی حالات کے دبائو کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوگیا۔اب پاکستان اور بھارت ایک حقیقت ہیں،اس لیے اس خطے کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے ان دونوں ممالک کو اپنے تنازعات کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔آنجہانی گجرال صاحب کا تعلق اسی تیسرے طبقے سے تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈائیلاگ کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہو،جس میں کسی بھی وجہ سے تعطل نہیں آنا چاہیے۔انھیں یقین تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی ہے تو اس کے براہ راست اثرات ان ممالک کے عوام پر مرتب ہوں گے اورخوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔امید ہے کہ ان کے جانے کے باوجود اس خطے میں امن کے لیے کوششیں جاری رہیں گی اور ان کی کوششوں کو بھی یاد رکھا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں