پانچویں‘ عالمی اُردو کانفرنس
عام آدمی کا مقدر صرف اور صرف عذاب سہنا ہے اور حکومت کا کام مسائل سے چشم پوشی اور اگلے میوزیکل چیئر شو کی تیاری.
یہ میرا شہر کراچی، جو کئی سال سے مذہبی منافرت اوردہشت گردی کی لپیٹ میں ہے،لہولہان ہے،میرا شہر تو بڑا فراخدل ہے، اس کی آغوش میں ملک کے ہر حصے کے لوگ سمائے ہوئے ہیں،ہر گلی، ہر محلہ اور ہر فرد خوف زدہ رہنے لگا ہے، نہ دوست کا پتہ نہ دشمن کا...؟ کسی دشمن پہ چلائی گئی گولی کسی دوست کے سینے کے آر پار بھی تو ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف مسلسل سی این جی کی بندش کا عذاب، ٹرانسپورٹرز کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ پہلے ہی پٹرول کی قیمت کا کرایہ وصول کر رہے ہیں۔
عام آدمی کا مقدر صرف اور صرف عذاب سہنا ہے اور حکومت کا کام مسائل سے چشم پوشی اور اگلے میوزیکل چیئر شو کی تیاری... اس بھیانک اور مایوس کن صورت حال میں ایک ہی ادارہ ہے جو کراچی کے باشعور اور پڑھے لکھے شہریوں کو چند دن کے لیے ذہنی طور پر اس عذاب ناک صورت حال سے حتی المقدور نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے، اور خاصی حد تک اس میں کامیاب بھی رہتا ہے۔ یہ ہے ہمارا اور آپ سب کا آرٹس کونسل، جو کئی سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ ''عالمی اُردو کانفرنس'' منعقد کر رہا ہے، اس سال بھی 6 تا 9 دسمبر تک اس شہر میں ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا اجتماع قومی سطح پر ہوگا۔ اس کانفرنس میں پاکستان سمیت پندرہ ممالک کے دانش ور، شاعر اور ادیب شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس منٹوؔ اور میراجیؔ کے نام ہے۔
کراچی آرٹس کونسل کے موجودہ صدر اور ان کی ٹیم بالخصوص ادبی کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر سحر انصاری نے اپنی کوششوں سے جب یہاں کے ماحول کو بدلا تو بہت عرصے تک تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ قبضہ مافیا نے بوریا بستر سمیٹ لیا ہے، لیکن جب یہ حقیقت آشکارا ہوئی تو انھیں خوشگوار حیرت کا سامنا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب کراچی آرٹس کونسل ہو یا لاہور کا الحمراء آرٹس کونسل دونوں جگہ دونوں شہروں میں عطاء الحق قاسمی اور احمد شاہ کی بدولت یہاں ہونے والی سالانہ تقریبات نے ایک رنگا رنگ تہوار کا روپ دھار لیا ہے۔ وہ لوگ جو پورے سال کہیں کھوئے رہتے ہیں، عالمی اُردو کانفرنس میں ان سب کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوجاتی ہے، فرازؔ نے کہا تھا کہ:
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی' خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
لیکن عالمی اُردو کانفرنسوں کی بدولت لوگ اب ہر سال اپنے دوستوں سے ملتے ہیں، یہی نہیں بلکہ غیر ممالک خصوصاً بھارت سے آئے ہوئے ادیبوں، شاعروں کے درشن بھی ہوجاتے ہیں اور ان سے مکالمہ بھی ہوجاتا ہے۔ کاش۔۔۔۔! جو ماحول لاہور اورکراچی آرٹس کونسل کا ہوتا ہے وہ میرے پورے وطن کا ہوجائے! جہاں صرف علم و ادب اور محبت کی باتیں ہوتی ہیں، جہاں اختلاف رائے ضرور ہو مگر بلاوجہ کی مخالفت نہ ہو۔
6 دسمبر سے چار روزہ تقریبات کا آغاز ہوجائے گا، پہلے دن افتتاحی اجلاس ہوگا، جس میں ممتاز ادیب اور دانش ور اپنے خیالات سے نوازیں گے، دوسرے دن تین نشستیں ہوں گی، پہلی نشست کا موضوع ہے ''تحقیق و تنقید کا عصری منظرنامہ''۔ دوسری نشست ''بیاد رفتگاں'' ہوگی جس میں انھیں یاد کیا جائے گا جو ہم سے 2011ء میں بچھڑ گئے۔ تیسرے دورانیے میں میراؔ جی کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔ اس کے علاوہ چاروں دن مختلف موضوعات کو سمیٹا جائے گا۔ منٹوؔ کے حوالے سے دو پروگرام ہوں گے جس میں ایک میں منٹوؔ کی شخصیت اور ادبی جہات پر بات کی جائے گی اور دوسری نشست میں منٹوؔ پر لکھی جانے والی نئی کتابوں کا تعارف ہوگا۔ افتتاحی اجلاس سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔
البتہ ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ آیندہ یہ کانفرنس چار دن کے بجائے چھ دن ہونی چاہیے اور پروگرام سہ پہر سے شروع ہونے چاہئیں، کیونکہ پہلی نشست جسے صبح گیارہ بجے شروع ہونا ہوتا ہے وہ کم ازکم ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوتی ہے، کیونکہ شرکائے محفل یعنی سامعین کی تعداد صبح کے وقت بہت کم ہوتی ہے، کیونکہ صبح کے اوقات میں ہر ایک کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں، اس طرح جب پہلا پروگرام ہی تاخیر سے شروع ہوگا تو باقی پروگرام خود بہ خود تاخیر کا شکار ہوں گے۔ اور اب کچھ بات ہوجائے آرٹس کونسل کراچی کے روح و رواں پروفیسر سحر انصاری کی جو ان دنوں عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر ٹبہ ہارٹ (Tabba Heart) اسپتال میں داخل ہیں۔
چند دن پہلے ان کی طبیعت آرٹس کونسل میں اچانک خراب ہوگئی تھی، تب انھیں اسپتال میں داخل کیا گیا۔ 3 دسمبر کو جب میں یہ کالم لکھ رہی تھی ان کی بائی پاس سرجری ہوچکی تھی۔ اسپتال کی انتظامیہ سے میری صبح سوا گیارہ بجے بات ہوئی تو وہاں ایک خاتون نے بتایا کہ انھیں سرجری کے لیے آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور ڈھائی بجے دوپہر کو اسپتال والوں نے بتایا کہ آپریشن ہوچکا ہے اور انھیں I.C.U میں ٹرانسفر کردیا گیا ہے، پھر خاتون نے لائن I.C.U میں ٹرانسفر کردی، لیکن وہاں کسی نے فون نہیں اُٹھایا۔
خدا کا شکر ہے پروفیسر صاحب خطرے سے نکل آئے ہیں، لیکن ایسے موقعے پر جب عالمی اُردو کانفرنس شروع ہورہی ہے۔ ان کی غیر موجودگی ہر شخص کو کھٹکے گی۔ بلاشبہ وہ بہت فعال اور سرگرم شخصیت ہیں۔ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ پتہ نہیں اسپتال کے بستر پر اتنے دن تک وہ کیونکر لیٹے رہیں گے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ وہ جلد ازجلد صحت یاب ہوکر اسپتال سے گھر آجائیں اور آرٹس کونسل کے آیندہ ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔
عالمی اُردو کانفرنس کے اختتام پر ایک بار پھر بات کریں گے کہ مجموعی طور پر کانفرنس کیسی رہی۔ ہم اپنے کالم کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے منفرد مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور ایک بار پھر دعا گو ہیں کہ جو ماحول کراچی اور لاہور کی آرٹس کونسل کا ہے ویسا ہی سارے ملک کا ہوجائے۔ جہاں اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ ایک تہذیب اور رواداری بھی ہے، جس کا اظہار الیکشن کے زمانے میں بخوبی ہوتا ہے۔ دونوں گروپس آمنے سامنے ہوتے ہیں، لیکن نہ جھگڑا، نہ فساد۔ کیونکہ آرٹس کونسل فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ ہے اور پڑھے لکھے لوگ نفرتوں اور جھگڑوں کے قائل نہیں۔