آئی۔کے۔گجرال سے ایک ملاقات
سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں
اندر کمار گجرال جنھیں عرف عام میں آئی کے گجرال یا ان کی مشہور زمانہ ''گجرال رپورٹ'' کے حوالے سے صرف گجرال صاحب کہہ کر بھی بلایا جاتا تھا ایک بیورو کریٹ سے سیاستدان اور پھر مرکزی وزیر سے بھارت کے وزیراعظم کے عہدے تک کیسے پہنچے یہ ایک طویل داستان ہے جس پر متعلقہ شعبوں کے حضرات بہت کچھ لکھ رہے ہیں اور ابھی اور بھی بہت کچھ لکھا جائے گا کہ وہ ایک بڑی اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنھیں ہر میدان میں کامیابی اور عزت نصیب ہوئی۔ یہاں تک کہ سیاست میں بھی۔
مجھے لگ بھگ تیس برس پہلے ان سے ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کی بیگم شیلا گجرال کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا جس کی تفصیل اتنی دلچسپ ہے کہ اسے یقیناً آپ یعنی میرے قارئین بھی پسند کریں گے لیکن اس کے ذکر سے پہلے میں ایک دوست کا بھیجا ہوا SMS بھی آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ اس کا ایک بالواسطہ تعلق گجرال صاحب کی شخصیت سے بھی بنتا ہے۔
1999ء میں نیلسن منڈیلا سے بی بی سی کے انٹرویور نے پوچھا کہ وہ ایک سیاستدان اور ایک لیڈر میں کیا فرق کرتے ہیں؟ نیلسن منڈیلا صاحب کا جواب سننے کے لائق ہے، کہا
''سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں''
اس اعتبار سے دیکھا جائے توگجرال صاحب سیاستدان سے زیادہ لیڈر کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ تقسیم کے بعد کے بھارت کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی جن ہندو لیڈروں نے بھارتی مسلمانوں اور اردو کے حقوق کے بارے میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر بھی زندگی بھر کے لیے جدوجہد کرتے رہے، آئی کے گجرال کا نام اسی فہرست میں آتا ہے۔
گجرال صاحب کے نام اور کام سے ایک سرسری سا تعارف تو تھا مگر اس میں گہرائی اور وسعت اس وقت آئی جب شام بہار ٹرسٹ انبالہ کے آنجہانی راجندر ملہوترہ نے غالباً 1983ء کے اوائل میں ایک خط کے ذریعے بتایا کہ ان کے جہلم کے اسکول کے زمانے کے دوست آئی کے گجرال پاکستان آرہے ہیں اس دوران وہ لاہور میں بھی مختصر قیام کریں گے اگر میں وہاں ان کا خیال رکھ سکوں تو وہ (یعنی راجندر ملہوترہ صاحب) میرے بے حد شکر گزار ہوں گے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ وہ اپنے آبائی گائوں بھی جائیں گے اور یہ کہ مجھے ان کے پروگرام کی تفصیل برادرم امداد ہمدانی سے مل جائے گی کہ وہ بھی اُسی اسکول میں ان دونوں کے ہم جماعت تھے۔
اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ گجرال صاحب بھارت کے سیکریٹری اطلاعات اور سوویت روس میں سفیر بھی رہ چکے ہیں اور یوں بھی میرے نزدیک ان کی پذیرائی کی وجہ ملہوترہ صاحب کی محبت بھری فرمائش تھی جس کا احترام بوجوہ مجھ پر فرض تھا۔ امداد ہمدانی صاحب کے ذریعے طے ہوگیا کہ فلاں دن رات کا کھانا وہ میرے غریب خانے پر کھائیں گے اور میں ان کی خواہش کے مطابق مہمانوں میں ان چند سینئر ادیب دوستوںکو بھی شامل کروں گا جن سے وہ خاص طور پر ملنا چاہتے ہیں۔
یہاں تک تو سارا معاملہ بحسن و خوبی چلتا رہا لیکن اب جو میں نے احباب کو مدعو کرنے کے لیے فون کھڑکانے شروع کیے تو تقریباً ہر دوسرے فرد نے کہا کہ یہ کیا کررہے ہو تم سرکاری ملازم ہو (پروفیسر بلکہ لیکچرر ہی سہی) اور گجرال صاحب ایک بہت مشہور سیاسی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں کہیں کسی خوامخواہ کی مصیبت میں نہ پھنس جانا، چوتھی پانچویں وارننگ پر میں نے اس وقت کے پنجاب کے سیکریٹری انفارمیشن شیخ حفیظ الرحمن کو فون ملایا (جو میری شاعری کے بہت مداح تھے اور جن کی وجہ سے ہی مجھے پنجاب آرٹ کونسل میں چار سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا) اور عرض کیا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن میںگجرال صاحب کو دی جاچکی دعوت تو کسی صورت میں واپس نہیں لوں گا، اب مجھے اس کا حل بتائیے؟ اس پر وہ پہلے تو خوب ہنسے اور یہ بات قریب بیٹھے سابق ڈی جی پی آر پنجاب سید عابد علی شاہ کو بھی سنائی اور پھر بولے اگر شاعر حضرات اس طرح کے کام نہ کریں تو پھر انھیں شاعر کون کہے اب اس کا صرف ایک ہی حل ہے، میں نے کہا۔ کیا؟ تو مسکرا کر بولے
''مجھے اور شاہ جی کو بھی Invite کرلیں، میری موجودگی کی وجہ سے کوئی اس دعوت کو غلط رنگ نہیں دے سکے گا''
اللہ۔اللہ، کیا صاحب دل اور ادب پرور لوگ تھے یہ، خدا ان کی قبروں کو سدا منور رکھے۔ گجرال صاحب اور ان کی بیگم عین مقررہ وقت پر پہنچ گئے جب کہ باقی بارہ میں سے ابھی صرف تین مہمان ہی تشریف لائے تھے جن میں حفیظ صاحب اور ان کی بیگم منور حفیظ بھی شامل تھے میں اُن دنوں 65 فلیمنگ روڈ والے گھر میں رہا کرتا تھا جو شہر کے خاصے گنجان آباد علاقے میں واقع تھا۔ گجرال صاحب کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک ایسے جہاں دیدہ دانش ور کا تھا جس کے لہجے کی ملائمت خوش طبعی اور ہر قسم کی بناوٹ سے پاک گفتگو آپ کے دل میں بیک وقت ان کے لیے ادب اور محبت پیدا کرتی تھی۔
اس دوران میں ادھر ادھر سے جمع کی ہوئی معلومات کے باعث مجھے اردو زبان و ادب سے شیفتگی اس کے لکھاریوں سے ان کے ذاتی تعلقات اور بھارت میں اردو اور مسلمانوں کے سلسلے میں ان کی خدمات سے کچھ کچھ آشنائی ہوچکی تھی لیکن یہ جان کر اور زیادہ خوشی ہوئی کہ ان کے چھوٹے بھائی ستیش گجرال عالمی شہرت یافتہ مصور ہیں اور ان کی بیگم شیلا ہندی اور انگریزی میں شاعری کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین ان دنوں بھی بدگمانیوں اور شکایتوں کا بازار گرم تھا چنانچہ دونوں طرف سے سیاست پر گفتگو سے اجتناب کیا گیا لیکن گجرال صاحب نے جس محبت اور بے تعصبی کے ساتھ دونوں ملکوں کے تہذیبی اور تاریخی رشتوں پر گفتگو کی اس سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کی طرف سے انھی جیسی سوچ رکھنے والے زیادہ لوگ آگے آئیں تو معاملات بہت جلد اور بہت احسن انداز میں سلجھ سکتے ہیں۔
افسوس کہ جب وہ بھارت کے وزیراعظم بنے تو پاکستان کی حکومت اور وزارت خارجہ نے ان کی اس کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی سے فائدہ اٹھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور آہستہ آہستہ ان کا جھکائو بھارت اور کانگریس کی روایتی سیاست کی طرف ہوتا چلا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ سیاست سے ریٹائر ہوکر کتابوں اور دوائیوں کی صحبت میں زندگی کے باقی دن گزار رہے تھے ۔ان سے ہونے والی واحد ملاقات اور گفتگو کے بعد میں اب بھی اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک ایسے لائق، نیک دل اور خوش گمان انسان تھے جن کی قبیل کے لوگ اب دونوں ملکوں کی سیاست سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔
مجھے لگ بھگ تیس برس پہلے ان سے ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کی بیگم شیلا گجرال کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا جس کی تفصیل اتنی دلچسپ ہے کہ اسے یقیناً آپ یعنی میرے قارئین بھی پسند کریں گے لیکن اس کے ذکر سے پہلے میں ایک دوست کا بھیجا ہوا SMS بھی آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ اس کا ایک بالواسطہ تعلق گجرال صاحب کی شخصیت سے بھی بنتا ہے۔
1999ء میں نیلسن منڈیلا سے بی بی سی کے انٹرویور نے پوچھا کہ وہ ایک سیاستدان اور ایک لیڈر میں کیا فرق کرتے ہیں؟ نیلسن منڈیلا صاحب کا جواب سننے کے لائق ہے، کہا
''سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں''
اس اعتبار سے دیکھا جائے توگجرال صاحب سیاستدان سے زیادہ لیڈر کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ تقسیم کے بعد کے بھارت کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی جن ہندو لیڈروں نے بھارتی مسلمانوں اور اردو کے حقوق کے بارے میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر بھی زندگی بھر کے لیے جدوجہد کرتے رہے، آئی کے گجرال کا نام اسی فہرست میں آتا ہے۔
گجرال صاحب کے نام اور کام سے ایک سرسری سا تعارف تو تھا مگر اس میں گہرائی اور وسعت اس وقت آئی جب شام بہار ٹرسٹ انبالہ کے آنجہانی راجندر ملہوترہ نے غالباً 1983ء کے اوائل میں ایک خط کے ذریعے بتایا کہ ان کے جہلم کے اسکول کے زمانے کے دوست آئی کے گجرال پاکستان آرہے ہیں اس دوران وہ لاہور میں بھی مختصر قیام کریں گے اگر میں وہاں ان کا خیال رکھ سکوں تو وہ (یعنی راجندر ملہوترہ صاحب) میرے بے حد شکر گزار ہوں گے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ وہ اپنے آبائی گائوں بھی جائیں گے اور یہ کہ مجھے ان کے پروگرام کی تفصیل برادرم امداد ہمدانی سے مل جائے گی کہ وہ بھی اُسی اسکول میں ان دونوں کے ہم جماعت تھے۔
اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ گجرال صاحب بھارت کے سیکریٹری اطلاعات اور سوویت روس میں سفیر بھی رہ چکے ہیں اور یوں بھی میرے نزدیک ان کی پذیرائی کی وجہ ملہوترہ صاحب کی محبت بھری فرمائش تھی جس کا احترام بوجوہ مجھ پر فرض تھا۔ امداد ہمدانی صاحب کے ذریعے طے ہوگیا کہ فلاں دن رات کا کھانا وہ میرے غریب خانے پر کھائیں گے اور میں ان کی خواہش کے مطابق مہمانوں میں ان چند سینئر ادیب دوستوںکو بھی شامل کروں گا جن سے وہ خاص طور پر ملنا چاہتے ہیں۔
یہاں تک تو سارا معاملہ بحسن و خوبی چلتا رہا لیکن اب جو میں نے احباب کو مدعو کرنے کے لیے فون کھڑکانے شروع کیے تو تقریباً ہر دوسرے فرد نے کہا کہ یہ کیا کررہے ہو تم سرکاری ملازم ہو (پروفیسر بلکہ لیکچرر ہی سہی) اور گجرال صاحب ایک بہت مشہور سیاسی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں کہیں کسی خوامخواہ کی مصیبت میں نہ پھنس جانا، چوتھی پانچویں وارننگ پر میں نے اس وقت کے پنجاب کے سیکریٹری انفارمیشن شیخ حفیظ الرحمن کو فون ملایا (جو میری شاعری کے بہت مداح تھے اور جن کی وجہ سے ہی مجھے پنجاب آرٹ کونسل میں چار سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا) اور عرض کیا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن میںگجرال صاحب کو دی جاچکی دعوت تو کسی صورت میں واپس نہیں لوں گا، اب مجھے اس کا حل بتائیے؟ اس پر وہ پہلے تو خوب ہنسے اور یہ بات قریب بیٹھے سابق ڈی جی پی آر پنجاب سید عابد علی شاہ کو بھی سنائی اور پھر بولے اگر شاعر حضرات اس طرح کے کام نہ کریں تو پھر انھیں شاعر کون کہے اب اس کا صرف ایک ہی حل ہے، میں نے کہا۔ کیا؟ تو مسکرا کر بولے
''مجھے اور شاہ جی کو بھی Invite کرلیں، میری موجودگی کی وجہ سے کوئی اس دعوت کو غلط رنگ نہیں دے سکے گا''
اللہ۔اللہ، کیا صاحب دل اور ادب پرور لوگ تھے یہ، خدا ان کی قبروں کو سدا منور رکھے۔ گجرال صاحب اور ان کی بیگم عین مقررہ وقت پر پہنچ گئے جب کہ باقی بارہ میں سے ابھی صرف تین مہمان ہی تشریف لائے تھے جن میں حفیظ صاحب اور ان کی بیگم منور حفیظ بھی شامل تھے میں اُن دنوں 65 فلیمنگ روڈ والے گھر میں رہا کرتا تھا جو شہر کے خاصے گنجان آباد علاقے میں واقع تھا۔ گجرال صاحب کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک ایسے جہاں دیدہ دانش ور کا تھا جس کے لہجے کی ملائمت خوش طبعی اور ہر قسم کی بناوٹ سے پاک گفتگو آپ کے دل میں بیک وقت ان کے لیے ادب اور محبت پیدا کرتی تھی۔
اس دوران میں ادھر ادھر سے جمع کی ہوئی معلومات کے باعث مجھے اردو زبان و ادب سے شیفتگی اس کے لکھاریوں سے ان کے ذاتی تعلقات اور بھارت میں اردو اور مسلمانوں کے سلسلے میں ان کی خدمات سے کچھ کچھ آشنائی ہوچکی تھی لیکن یہ جان کر اور زیادہ خوشی ہوئی کہ ان کے چھوٹے بھائی ستیش گجرال عالمی شہرت یافتہ مصور ہیں اور ان کی بیگم شیلا ہندی اور انگریزی میں شاعری کے ساتھ ساتھ کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین ان دنوں بھی بدگمانیوں اور شکایتوں کا بازار گرم تھا چنانچہ دونوں طرف سے سیاست پر گفتگو سے اجتناب کیا گیا لیکن گجرال صاحب نے جس محبت اور بے تعصبی کے ساتھ دونوں ملکوں کے تہذیبی اور تاریخی رشتوں پر گفتگو کی اس سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کی طرف سے انھی جیسی سوچ رکھنے والے زیادہ لوگ آگے آئیں تو معاملات بہت جلد اور بہت احسن انداز میں سلجھ سکتے ہیں۔
افسوس کہ جب وہ بھارت کے وزیراعظم بنے تو پاکستان کی حکومت اور وزارت خارجہ نے ان کی اس کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی سے فائدہ اٹھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور آہستہ آہستہ ان کا جھکائو بھارت اور کانگریس کی روایتی سیاست کی طرف ہوتا چلا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ سیاست سے ریٹائر ہوکر کتابوں اور دوائیوں کی صحبت میں زندگی کے باقی دن گزار رہے تھے ۔ان سے ہونے والی واحد ملاقات اور گفتگو کے بعد میں اب بھی اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک ایسے لائق، نیک دل اور خوش گمان انسان تھے جن کی قبیل کے لوگ اب دونوں ملکوں کی سیاست سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔