بڑی جماعتوں کا اتحاد
کراچی میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے مسلّح اور پر تشدد تنظیموں کو ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے سختی سے کچلنا ہو گا.
MIRANSHAH:
پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت گمبھیر ہے اور کوئی ایک سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ تنہا اسے حل کر سکے۔ اگر قومی سیاستدان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو انھیں ایک قومی حکومت تشکیل دینا ہو گی تا کہ ملک کو درپیش اس مہیب چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ملک میں خون ریزی کا بازار گرم ہے۔ کراچی میں لسانی اور فرقہ پرست تنظیمیں سر گرم ہیں۔ شمال مغربی قبائلی علاقہ اور خیبر پختونخوا میں مذہبی انتہا پسند اور پنجاب میں ان کے فرقہ پرست اتحادی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچوں کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستوں نے آگ لگا رکھی ہے۔ رہی سہی کسر سندھ کے نئے بلدیاتی قانون نے پوری کر دی ہے جس کے خلاف اندرون سندھ میں احتجاجی مظاہرے معمول بن گئے ہیں۔
ملک میں جاری بدامنی اور خون خرابہ پر کوئی ایک سیاسی جماعت قابو پا سکتی تو گزشتہ ساڑھے چار سال سے قائم پیپلز پارٹی کی حکومت ایسا کر لیتی۔ اسے تو متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی بڑی علاقائی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور کراچی میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے مسلّح اور پر تشدد تنظیموں کو ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے سختی سے کچلنا ہو گا۔ اس کے بعد سیاسی مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کراچی میں لسانی تنظیموں کے پاس جدید اسلحہ اتنی فراوانی سے موجود ہے اور ان کے کارکن اتنے منظم ہیں کہ عام پولیس ان کی سرکوبی نہیں کر سکتی۔ نہ شہر کو اسلحے سے پاک کر سکتی ہے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جن پولیس والوں نے کراچی میں دہشتگردی کے خلاف کارروائی کی تھی انھیں جنرل مشرف کے دور میں چُن چُن کر قتل کر دیا گیا۔ اب کراچی اور سندھ کی پولیس لسانی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بھر چکی ہے اور کوئی موثر کارروائی کرنے کی اہل نہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے محروم ہونے کے باعث سندھ کی مسلح لسانی تنظیموں پر کریک ڈائون کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی کیونکہ ایسا کرنے سے مرکز میں اس کی حکومت گر سکتی ہے ۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) اُس کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کراچی کے بارے میں کسی پالیسی پر متفق ہوں اور متحد ہو کر کارروائی کریں تب ہی کراچی کے مسلح جتھوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ جتھے اب غیر سرکاری فوجوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی سرکوبی کے لیے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔
یہی بات شمال میں انتہا پسندوں اور فرقہ پرست تنظیموں سے نمٹنے کی کوششوں پر بھی صادق آتی ہے۔ ان تنظیموں کے پاس ایک غلط یا صحیح نظریہ ہے۔ اس نظریے کے حامی پیروکار، ان کی خاموش حمایتی مذہبی تنظیموں اور مدارس کا مضبوط نیٹ ورک اور جان دینے والے بمبار انتہا پسندوں کی طاقت ہیں۔ اس پر مستزاد ان تنظیموں میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے کارندے گھسا دیے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں رقوم، اسلحہ اور تربیت مہیا کی ہے تا کہ پاکستان کو خانہ جنگی میں مبتلا کر کے اتنا غیر مستحکم کر دیا جائے کہ وہ اقتصادی طور پر تباہ ہو جائے اور ان کے قدموں میں گر جائے۔ یوں انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی موجودہ پرُ تشدد شکل ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے جس میں نار کو ٹکس مافیا اور بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں خود ہمارے معاشرے میں بھی گہری پیوست ہیں۔ عدم برداشت، مخالف نقطہ نظر کو تشدد کے ذریعے کچل دینا اور پورے معاشرے کو ایک خاص نظریے کے مطابق ڈھال دینے کی خواہش ہمیشہ سے ایک مخصوص طبقہ کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔ اس گروہ نے اپنے مذموم مقاصد پر مذہب کا نقاب اوڑھا ہوا ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے خلاف جدوجہد اور کشمیر جہاد سے اس مخصوص طبقہ کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ اب یہ جن اُن لوگوں کے قابو سے بھی باہر ہو گیا ہے جنہوں نے اس کو پالا پوسا تھا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اس زبردست ڈھانچے کے خلاف ریاست کو ایک بڑی جنگ لڑنا ہو گی جو کئی برسوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ اس فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں سلامتی کے اداروں کی بہتری کے ساتھ ساتھ تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں میں ریاست کو بھاری سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں وہ دونوں اس قابل نہیں کہ الیکشن کے ذریعے پارلیمان میں غالب اکثریت تو کُجا سادہ اکثریت بھی حاصل کر سکیں ۔ یہ جماعتیں چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت بنا لیں تو بھی دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر سکتیں۔ یہ ایک باقاعدہ جنگ ہے جو ایک قوم متحد ہو کر ہی لڑ سکتی ہے۔ ملکوں کی ایک دوسرے کے خلاف روایتی جنگیں تو قوم کو متحد کر دیتی ہیں لیکن یہ نئے دور کی ایک نئی طرح کی جنگ ہے جس کی سنگینی کا احساس کرنا ہو گا۔
اگر آصف زرداری اور نواز شریف واقعی اس ملک اور قوم سے مخلص ہیں تو انھیں اگلے پانچ سال کے لیے مل کر بیٹھنا ہو گا اور پاکستان کی جنگ لڑنا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے انھیں عوام کو اعتماد میں لینا ہو گا اور قوم میں تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ایک اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا۔ کوئی ریاستی ادارہ یا غیر ملکی چندہ سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیم یہ بڑا کام انجام نہیں دے سکتی۔ جب انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کے خلاف بڑی کارروائی ہو گی تو ان کے حمایتی اتنا شور و غوغا مچائیں گے اور اتنا گمراہ کن پراپیگنڈہ کیا جائے گا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ ایسے موقع پر بہت سے لوگوں کو دہشت گردوں کے انسانی حقوق بھی یاد آ جائیں گے۔ رضا کار سیاسی کارکن اور سیاسی تنظیم ہی عوام کو ایک نصب العین پر متحد کر سکتے ہیں اور انھیں ایک صبر آزما جنگ کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں۔ ریاستی ادارے اسی وقت موثر ہوں گے جب ساری قوم ان کی پُشت پر ہو۔ مسلم لیگ (ن) نے کرپشن کو ایک بڑا ایشو بنایا ہے اور اس معاملے پر پیپلز پارٹی سے اتحاد کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔ تاہم اگر بڑے مقصد کو سامنے رکھا جائے تو کرپشن کے معاملے پر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر آئینی اور قانونی ترامیم لا سکتی ہے بشرطیکہ نیت مسئلے کو حل کرنے کی ہو نہ کہ سیاست چمکانے کی۔
اگر آصف زرداری اور نواز شریف اس موقع پر اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر متحد نہیں ہوتے تو اگلے عام انتخابات کے بعد بھی خون ریزی کا نہ رکنے والا سلسلہ ہر طرف جاری رہے گا۔ یہ اس ملک کے بیس کروڑ عوام کی بدقسمتی ہو گی۔