ٹیکس کی وصولی‘ کچھ گزارشات

حکمرانی اور ٹیکس کی وصولی براہِ راست تعلق رکھتے ہیں، مغربی ممالک میں لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینا پسند کرتے ہیں .


Abdul Waris1 December 05, 2012
عبدالوارث

QUETTA: ٹیکسوں کی وصولی ہماری معیشت کے چند مسائل میں سے ایک ہے اور ہر حکومت کو اس کا سامنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا ریکارڈ دنیا میں افسوس ناک ہے کیونکہ ہمارا (Tax + GDP Ratio) دنیا میں کم ترین سطح میں سے ایک ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم امر یہ ہے کہ ہمارا ریکارڈ ان افریقی ممالک سے بھی بدتر ہے جن کو اپنی خراب طرزِ حکمرانی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ''بنانا (Banana) ری پبلک'' کہا جاتا ہے۔

اس بحرانی کیفیت کے بہت سارے اسباب ہیں۔ سب سے پہلا سبب ٹیکس مشینری کی کرپشن ہے جو ایمانداری اور فرض شناسی سے بالکل محروم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حکومت کو اپنے جائز ٹیکس وصولی کی مد میں صرف 36 فیصد ملتا ہے جب کہ باقی 64 فیصد قومی خزانے تک نہیں پہنچ پاتا اور اس کی وجہ سے وہ ٹیکس چوری جس کے ذمے دار اکاؤنٹ، پیشہ ور وکلاء، تاجر اور صنعتکار ہیں جو مختلف حیلے بہانوں، رشوت، ریکارڈز میں ہیرا پھیری اور قانونی سقم کا سہارا لے کر حکومت کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ اس وقت میڈیا میں ان 36 لاکھ امیر لوگوں کی رپورٹس عام ہیں جو اپنا جائز ٹیکس قومی خزانے کو نہیں ادا کر رہے، ان میں سے کئی افراد ایسے بھی ہیں جن کے پاس تو NTN تک موجود نہیں، یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سال کے 40,000 Rs.تک قومی خزانے میں جمع کرا سکتا ہے جس سے تقریباً 1400 ارب روپے سالانہ حاصل ہو سکتے ہیں جس سے ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف (IMF) کے چنگل سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔

ہر سال ہمارے بجٹ کا ایک اچھا خاصا حصہ ان اداروں کو سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے، ان تمام ادائیگیوں کو اگر بچا لیا جائے تو یہ رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی ہے جو کہ ملک کی معاشی نمو کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ایف بی آر (FBR) نے کئی کرکٹرز کو بھی ٹیکس کی ادائیگی کے سلسلے میں نوٹسز بھیجے ہیں کیونکہ ان پر بھی کئی لاکھ روپے کے ٹیکس نادہندہ ہونے کا الزام ہے۔ کیا ایف بی آر (FBR) میں اتنا حوصلہ ہو گا کہ وہ اس طرح کے نوٹسز با اثر لوگوں، امیر حضرات اور حکومتی وزراء کو بھی بھیجے، جنہوں نے شاید ہی کچھ قومی خزانے میں ٹیکسوں کے طور پر جمع کرایا ہو؟ جیسا کہ الیکشن کمیشن کو فائل کردہ لیٹرز سے ظاہر ہوتا ہے۔

ٹیکس افسران کو ان کیسز کو تفصیل سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اشخاص تو ظاہری ٹیکس ڈیفالٹرز ہیں، صرف مخلص اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے جس سے اچھی خاصی بڑی ٹیکس ریکوری ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ایک اچھی مثال قائم ہو سکتی ہے بلکہ ان لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے جو واقعی ایماندارانہ طور پر اپنا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرانا چاہتے ہیں، لیکن ان مشہور شخصیات اور نام نہاد لیڈروں کے رویے کو دیکھ کر پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے لوگ واقعی ٹیکس دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ ٹیکس آفیشلز کی کرپشن، ہراساں کرنے کی وجہ سے نہیں ادا کر پاتے، اسی طرح جب یہ لوگ اپنی خون پسینے کی کمائی کو حکومتی آفیشلز کے غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کا دل یقیناً خون کے آنسو روتا ہے، ہر انسان کی یہ ایک فطری خواہش ہے کہ وہ خرچ کرنے کے بعد (ٹیکس دینے کے بعد) کچھ فوائد کی امید بھی رکھے۔ یہی فلاسفی ایک عام ٹیکس ادا کرنے والے کی ہے۔

اس وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ اچھی حکمرانی اور ٹیکس کی وصولی آپس میں براہِ راست تعلق رکھتے ہیں، مغربی ممالک میں لوگ رضاکارانہ طور پر آگے بڑھ کر ٹیکس دینا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی حکومتوں اور اپنے نظام پر پختہ یقین ہے کہ آخر کار ان کو مستقبل میں ان کے فوائد بہتر مستقبل، بیروزگاری الاؤنسز، محفوظ روزگار، بچوں کی تعلیم اور صحت و صفائی کے فوائد بمع بڑھاپے کی اچھی پنشن وغیرہ کے طور پر حاصل ہوں گے۔ حتیٰ کہ ان ممالک میں براہِ راست ٹیکسز (Direct Taxes) بہت زیادہ ہیں، مگر پھر بھی یہ لوگ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ بالکل نہیں کرتے کیونکہ ان کے لیے یہ فرض اور ایک محفوظ سرمایہ کاری ہے جو کہ ایک تابناک مستقبل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں ہر چیز اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے کیونکہ یہاں تو لوگ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات جیسا کہ امن و امان، تعلیم، آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا، صحت اور صاف پانی وغیرہ سے بھی محروم ہیں، کس طرح لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے مختص کریں؟ کیونکر کراچی کے تاجر اور صنعتکار ٹیکس نہیں دیں گے، جب ان کو اور ان کی فیملیوں کو جان و مال کی ضمانت دی جائے گی جب کہ وہ ویسے ہی اپنی پرائیویٹ سیکیورٹی پر اتنا خرچ کر رہے ہیں اور پھر بھی پریشان ہیں۔

اگر ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے اور اس میں سارے نان رجسٹرڈ تاجروں کو بھی شامل کیا جائے اور ان سے صرف ایک مقررہ (Fixed) ٹیکس لے لیا جائے تو صرف کراچی سے اربوں روپے ٹیکس کی مد میں جمع کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سارے وسائل پولیس کی تشکیلِ نو اور اس کی طاقت کو بڑھانے پر استعمال کیا جا سکتا ہے جو کہ اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ پولیس کو تمام جدید ٹیکنالوجی اور ساز و سامان سے مسلح کیا جائے تا کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کی موثر بیخ کنی کر سکے۔ اس وقت جس سیکٹر کو بھی منتخب کر لیا جائے چاہے یہ سرکاری اسپتال ہوں، یونیورسٹیاں، اسکول، کالجز ہوں ہر طرف ایک ہی شکایت ہے اور وہ ہے فنڈز کی شدید قلت۔ جس سے ان اداروں کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہے۔ اس وقت مستقل ٹیکس دہندگان کو شناخت دینے اور ان کی ہمت بڑھانے اور تعریف و توصیف دینے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے تا کہ ان لوگوں کے لیے اچھی مثال قائم ہو جو کہ واقعی ٹیکس دینا چاہتے ہیں، اور اس کے ساتھ عدالتوں میں ٹیکس سے متعلق مقدمات کی فوری سماعت اور ان کے فیصلوں کی بھی اشد ضرورت ہے تا کہ ان لوگوں کو جو ٹیکس چوری کے لیے قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کو علیحدہ کیا جا سکے اور ان کو سزا دی جا سکے۔ اسی طرح ان ٹیکس افسران اور آفیشلز کے خلاف کارروائی بھی ضروری ہے جو قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اور ان ٹیکس نادہندگان کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ فی الوقت ایسے ٹیکس افسران کو سزا دینے کے لیے مناسب سروس رولز موجود نہیں۔

حال ہی میں ہمارے ایک سینئر سیاستدان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکم ٹیکس کی شرح کو صرف 10 فیصد تک لانے کی بات کی ہے تا کہ ملک میں معاشی ترقی کے پہیے کو آگے چلایا جا سکے، لیکن موجودہ حالات میں یہ مشورہ کسی طرح بھی موزوں نظر نہیں آتا کیونکہ اس سے تو قومی خزانے کو تقریباً اتنا نقصان ہو سکتا ہے جو کہ ہمارے موجودہ صحت کے بجٹ کا دگنا ہو گا۔ البتہ معیشت کے ان سیکٹرز کو نشاندہی کر کے الگ کیا جا سکتا ہے جو مستقل روبہ زوال ہیں۔ ان کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکس ایمنسٹی (چھوٹ) دی جا سکتی ہے تا کہ یہ دوبارہ اپنے پیرں پر کھڑے ہو سکیں اور مستقبل میں قومی خزانے کو اپنا حصہ ادا کر سکیں۔ لیکن اس ٹیکس چھوٹ کو سب پر لاگو کرنا کہیں کی عقلمندی نہ ہو گی۔

اس وقت حکومت زیادہ تر بالواسطہ ٹیکسز (Indirect Taxes) پر انحصار کر رہی ہے جو کہ زیادہ تر غریب لوگوں کے لیے بوجھ ثابت ہو رہے ہیں، کیونکہ ان سے معیشت میں افراطِ زر کا اضافہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف (IMF) نے ٹیکس بیس (Tax Base) کو بڑھانے کے لیے آر جی ایس ٹی نافذ کرنے کی تجویز دی ہے، لیکن اس طرح کے ٹیکسز ایک دفعہ پھر غریب لوگوں کے لیے زیادہ بوجھ کا باعث بنیں گے، جس سے زیادہ بڑی تباہی پھیل سکتی ہے، زیادہ تر سیاسی پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی کیونکہ یہ فیصلہ عوام میں غیر مقبول تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ آرجی ایس ٹی (RGST) کا نفاذ کوئی مسئلہ حل کرے گا، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ عوام سے جبری چندہ اور بھتہ وصولی کے مترادف ہو گا۔

کیونکہ اس کے نفاذ سے قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا جو کہ آخر کار عام آدمی نے ہی ادا کرنا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں لوگ رضاکارانہ طور پر خود ٹیکس ادا کریں اور وہ جو ایسا نہ کریں ان کی نشاندہی کی جائے اور قانون کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے۔ اس وقت میں ٹیکس میں اضافہ اور وہ بھی لوگوں کی بھلائی / خوشحالی کی قیمت پر یقیناً معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ ملک کی آدھی آبادی پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ براہِ راست ٹیکسز (Direct Taxes) میں اضافہ کیا جائے اور بالواسطہ ٹیکسز (Indirect Taxes) پر انحصار کیا جائے جس سے نہ صرف دولت کی مساوی تقسیم حاصل ہو گی بلکہ افراطِ زر کو کم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی بجٹ خسارہ بھی کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے جو کہ ہر آنے والی حکومت کو ڈراتا اور سہماتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔