کانگریس کو اپنا گھر درست کرنا ہو گا
کانگریس نے تحریک آزادی کی قیادت کی اور ملک پر پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔
MUMBAI:
کیا کانگریس پھر سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو سکے گی؟ یہ وہ سوال تھا جو مجھ سے پوچھا گیا اور دوسرا سوال تھا کہ کیا اب بھی پارٹی کی کوئی ''اہمیت'' باقی رہ گئی ہے۔ دوسرے سوال کا جواب پہلے دیتے ہوئے میں کہوں گا کہ یہ 150 سال پرانی تنظیم ہے جس کے وفادار لوگ ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی موجود ہیں لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی اہمیت باقی نہیں رہی۔
کانگریس نے تحریک آزادی کی قیادت کی اور ملک پر پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ میری نسل کے لیے جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل دو چوٹی کے لیڈر تھے جن کے ساتھ ایک خاص قسم کی تقدیس وابستہ تھی اور میں لوگوں کی ان قربانیوں کو ہر گز نہیں بھول سکتا جو انھوں نے متذکرہ رہنماؤں کی قیادت میں آزادی کے لیے دیں۔ ان دونوں کے لفظ کی بڑی اہمیت تھی اور لوگ ان کی ایک آواز پر جہاں بھی ہوتے اکٹھے ہو جاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس ہندوستان تھی اور ہندوستان کانگریس تھا۔ تاہم صورت حال شاستری کے انتقال کے بعد تبدیل ہونا شروع ہو گئی جو نہرو کے جانشین تھے۔ مجھے شاستری کے پریس سیکریٹری کی حیثیت سے کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
شاستری کو نہرو کی جانشینی کے حوالے سے کافی شکوک و شبہات تھے اور وہ کہتے تھے کہ ''ان کے دماغ میں تو صرف ان کی پُتری (بیٹی) ہی ہے۔'' لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ نہرو کے لیے اپنی بیٹی کو اپنی جگہ بٹھانا آسان نہیں ہو گا اور یہ بات درست ثات ہوئی کیونکہ نہرو کی وفات کے بعد سب سے پہلے مرار جی ڈیسائی نے وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا نام پیش کیا لیکن کانگریس کے صدر کامراج مرار جی ڈیسائی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ڈیسائی بہت خود سر تھے اور ان میں اتنا برداشت کا مادہ نہیں تھا جو اتنے بڑے ملک کے لوگوں کے لیے جو مختلف مذاہب' ذات پات اور علاقوں سے تعلق رکھتے تھے کہ ان سب پر عادلانہ طور پر حکومت کر سکیں۔شاستری نے نہرو کے بعد حکومت سنبھالی لیکن بہت جلد تاشقند میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے جہاں وہ پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے گئے تھے۔
میرا احساس کہتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات معمول پر آ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ شاستری کے اچانک انتقال کی خبر سن کر ایوب خان روس کے اس دیہی مکان میں پہنچے جہاں بھارتی وزیراعظم کو ٹھہرایا گیا تھا۔ جنرل ایوب نے میری موجودگی میں کہا تھا ''اگر شاستری زندہ رہتے تو پاکستان اور بھارت میں دیرپا دوستی قائم ہو سکتی تھی'' ایوب خان شاستری کی ارتھی کے ساتھ اس جہاز تک گئے جس میں ان کی میت دہلی روانہ کی گئی۔ میرا خیال ہے کہ جنرل ایوب نے پاکستان کے جذبات کا اظہار کیا کیونکہ جب میں وہاں گیا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ شاستری کی دوستی کا ذکر کر رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو جو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے وہ بھارت کے ساتھ امن معاہدے کے خلاف تھے۔ وہ تاشقند سے سیدھے اسلام آباد روانہ ہو گئے جہاں انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ایوب نے ملک بھارت کو بیچ دیا ہے حالانکہ ایوب خان چاہتے تھے کہ پاک بھارت تنازعہ پرامن طور پر حل ہو جائے۔ شاستری نے ایوب خان سے کہا کہ امن معاہدے کا ڈرافٹ وہ خود تیار کریں جس میں اس بات پر زور دیا جائے کہ معاملات کو ہتھیار استعمال کیے بغیر طے کیا جائے۔ ایوب خان نے یہ معاہدہ اپنے ہاتھ سے لکھا جو کہ بھارت کی قومی آرکائیو میں اب بھی موجود ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں بعض لوگوں کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنرل ایوب نے خود اس معاہدے پر دستخط کیے کیونکہ آرمی چیف ہونے کی حیثیت سے انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ جنگیں کسقدر تباہی اور بربادی لاتی ہیں۔
کانگریس پارٹی کا ورثہ بہت بڑا اور طویل ہے لہٰذا ہم اسے بیک قلم مسترد نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ اسی جماعت نے تحریر کی جس نے کہ برصغیر کو برطانوی راج سے نجات دلائی۔ یہ درست ہے کہ کانگریس اب اس بلند مقام پر نہیں رہی جیسے کہ پہلے تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل ہی بے حیثیت ہو چکی ہے اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ پارٹی دوبارہ برسراقتدار آ سکتی ہے۔ اس کا جواب بڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے ہمیں دو مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ بھارت میں ایک طرف دلت ہیں اور ایک طرف مسلمان۔ مایاوتی دلت لیڈر ہے جس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جنھیں ہندو شودر یا اچھوت کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی مذہب ہی نہیں جو اپنے ہی لوگوں میں اسقدر حقارت آمیز تفریق پیدا کرے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھیں ہندو مذہب نے اچھوت قرار دیدیا تھا۔
وہ ہندوؤں کے برابر تو نہیں ہو سکتے تھے جب کہ مسلمانوں میں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں۔ آج جب آر ایس ایس ''گھر واپسی'' کا نعرہ بلند کرتی ہے تو اس کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا تاآنکہ ہندو اپنے ہم مذہبوں کو اچھوت قرار دینا نہ چھوڑ دیں جو کہ دیہات میں آج بھی نہایت شدت کے ساتھ موجود ہے۔ مختلف ذاتوں کے لوگ ممکن ہے کہ ایک چار پائی پر بیٹھ جائیں لیکن اس کے باوجود ان کے کنوئیں الگ الگ ہیں اور ان کی آخری رسومات کے مقامات بھی الگ ہیں۔ مسلمانوں نے قیام پاکستان کے بعد ایک ایسی پارٹی قائم کر لی جو اپنے نظریے کے مطابق سیکولر ہے البتہ کانگریس نظریاتی طور پر اتنی مضبوط نہیں جتنی نہرو اور پٹیل کے دور میں تھی۔ مسلمانوں کے پاس کانگریس کے علاوہ ایک ہی جماعت تھی جس میں وہ شرکت کر سکتے تھے اور وہ تھی کمیونسٹ پارٹی۔ لیکن کمیونسٹ پارٹی بہت مطلق العنان اور بہت جابرانہ نظم و ضبط کی حامل پارٹی ہے لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی مقدس کتاب کی پیروی کرتا ہے لہٰذا اس کے لیے کسی دوسری طرف جانے کی گنجائش کم ہے۔
اسلام کی کشش یہی تھی کہ اس میں مساوات ہے۔ 1400 سال پہلے نازل ہونے والی اس کتاب کو مسلمان اللہ کا کلام مانتے ہیں گو کہ اس عرصے میں مسلمانوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں جب کہ ہندوؤں کو اپنے مذہب کی اصلاح میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے لیکن دلتوں کے خلاف امتیاز اسقدر شدید ہے کہ اس کا حل نظر نہیں آتا۔ یہ ہندوؤں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتخابات کے موقع پر اگرچہ بہت بلند بانگ دعوے ہوتے ہیں اور کانگریس کے کئی چوٹی کے ہندو لیڈر دلتوں کے گھر جا کر کھانا بھی کھاتے ہیں لیکن یہ ساری نمائش ووٹنگ سے پہلے تک ہی رہتی ہے۔
بعدازاں سب ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے۔ اگر کانگریس واپس آنا چاہتی ہے تو اسے اپنا گھر درست کرنا ہو گا اور حقیقی معنوں میں سیکولر ازم پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ بالخصوص جب کہ ہم نے سیکولر ازم کا لفظ اپنے آئین کے دیباچے میں بھی لکھ رکھا ہے لیکن عملی طور پر کانگریس کے بہت سے لیڈر بھی اتنے ہی بے لچک ہیں جیسے کہ بی جے پی کے متعصب جنونی افراد ہیں۔ سیکولر ازم درحقیقت ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے لیکن یہ ہمارے عمل میں نظر نہیں آتا۔ جیسے پاکستان میں کچھ لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تا کہ انھیں بہت پکا مسلمان سمجھا جائے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)