سیاسی بھونچال
علامہ طاہر القادری اور پی ٹی آئی کے روح رواں نے پنجاب میں مرکزی حکومت کےخلاف 20 اگست سے الگ الگ احتجاج شروع کردیا ہے
علامہ طاہر القادری اور پی ٹی آئی کے روح رواں نے پنجاب میں مرکزی حکومت کے خلاف 20 اگست سے الگ الگ احتجاج شروع کردیا ہے۔ ایک وقت تھا جب دونوں ایک ہی پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے تھے مگر ظاہری طور پر تو دونوں مرکزی حکومت اور خصوصاً پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ایک طرف علامہ طاہر القادری تو دوسری جانب عمران خان جو پی ٹی آئی کے سربراہ ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری کا دھرنا اور خطاب عمران خان کے خطاب اور دھرنے سے کہیں زیادہ فعال نظرآیا اورخصوصیت کے ساتھ جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی عمران خان کے مقابلے میں علامہ طاہر القادری کی تحریک کے ہمنوا بن کر سامنے آئے ۔
جس سے یہ ظاہر ہوا کہ علامہ طاہر القادری کی تحریک زیادہ پر اثر ہے گوکہ عمران خان نے حکومت کے جن پہلوؤں کو آڑے ہاتھ لیا ہے اس میں پاناما لیکس صفحہ اول پر ہے اور پھر اثاثہ جات کا مسئلہ ہے مگر علامہ طاہر القادری نے ایک زیادہ موثر پہلو کو اپنی تحریک کا عنوان بنایا ہے وہ ہے ماڈل ٹاؤن میں قصاص کا معاملہ ہے جو وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔ خصوصاً علامہ طاہر القادری نے قصاص میں جو نعرہ لگایا ہے اس میں خون کا بدلہ خون کا مطالبہ کیا ہے گوکہ جسٹس باقر نجفی کا مسودہ منظر عام پر نہ آسکا مگر ایک بڑے وقفے کے بعد قصاص کا مطالبہ پھر سامنے آیا ہے جو زیادہ پراثر نظر آتا ہے۔
105 چھوٹے بڑے شہروں میں یہ مطالبہ دہرانے کے لیے ہر شہر میں تقریریں اور بعض شہروں میں شیخ رشید کی پراثر تقریریں لوگوں کا لہو گرم کرنے کے لیے کافی ہیں گوکہ مجموعی طور پر اورنج ٹرین اور لاہور میں بسوں کی آسانی نے متوسط طبقے کو آرام پہنچایا ہے مگر پھر بھی مخالفین کی یہ آواز کہ (ن) لیگ ان تمام پروجیکٹ پر عمل درآمد کرتی ہے جس میں منافعے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
اس طرح ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہونے لگا ہے اور ان تقریروں کا اثر بھی عوام پر ہو رہا ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کے مبصرین کی اکثریت بھی اسی پروپیگنڈے سے متاثر نظر آتی ہے یا یوں کہیے کہ وہ بھی انھی کے ہمنوا ہیں عمران خان تو کورٹ اور دیگر پارٹیوں یعنی پی پی کے لوگوں کو لے کر اس جنگ کو لڑنا چاہتے ہیں کہ اعتزاز احسن اور خورشید شاہ کو ملاکر آصف علی زرداری کے ساتھ چلیں گے مگر پی پی اس پوزیشن میں ہرگز نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کے مد مقابل آئے البتہ وہ یہ چاہتی ہے کہ (ن) لیگ کچھ کمزور ہوکر سامنے آئے تو پھر اس سے فائدہ ہوگا کیونکہ (ن) لیگ کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان کہ ماڈل آیان علی اور بلاول بھٹو کے ہوائی ٹکٹ کی رقم ایک ہی اکاؤنٹ سے آتی ہے یہ بلاول بھٹو کی سیاسی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس لیے یہ سوچنا کہ (ن) لیگ اور پی پی میں کبھی مفاہمت ہوگی اس کا آیندہ کوئی امکان نہیں کیونکہ پی پی مرکز میں حکومت بنانے کے ٹارگٹ سے کبھی باز نہ آئے گی اور اس کے لیے پنجاب خصوصاً لاہور اور اس کے گرد و نواح کے علاقے بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اگر پی پی پاکستان کے تینوں چھوٹے صوبوں میں دو تہائی اکثریت بھی لے لے اور پنجاب میں صفر رہتی ہے تب بھی وہ حکومت نہ بناسکے گی اور فی الحال جس قسم کی سیاست اعتزاز احسن کر رہے ہیں وہ سیاسی طور پر اکثریت حاصل نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کی تقریر میں کوئی واضح فیصلہ نظر نہیں آتا بس بلاول بھٹو کی پذیرائی پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔
آنے والے انتخابات سے قبل ہی جو معرکہ ہونے والا ہے وہ اس سے ناشناس ہیں بلکہ ایڈوکیٹ اسما جہانگیر جو کسی بھی پارٹی کی رہنما نہیں اپنے بیانات میں واضح ہیں خواہ ہم اس سے اختلاف کریں یا اتفاق اور یہی علامہ طاہر القادری کے احوال ہیں جب کہ ان کی باتوں اور عمل کو پسند کرنے والوں کی ایک بڑی وسیع آبادی ہے۔ عمران خان اورطاہرالقادری گوکہ ایک وقت ایک ساتھ موجود تھے مگر اب دونوں میں ایک چھوٹا سا اختلاف ہے جو عام لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا کیونکہ عمران خان ایک زمانے میں طالبان کی زبانی طور پر موافقت کرچکے ہیں مگر طاہر القادری نے کبھی بھی طالبان کو پسند نہ کیا کیونکہ دونوں کے مکتبہ فکر میں بڑا فرق ہے۔ البتہ دونوں لیڈروں میں ایک موقع پر مکمل اتفاق رائے ہے وہ ملکی فوج کے طریقہ کار پر کہ جس طریقے سے ضرب عضب کا آغاز ہوا اور اس پر وہ عمل کیا گیا دونوں لیڈروں نے پاک فوج کے ہرعمل کی تائید کی اور ملک میں بڑھتی ہوئی بدنظمی اور دہشت گردی کو لگام دی گئی ملک میں قدرے امن و امان کا دور دورہ ہوا۔
اغوا برائے تاوان، لوٹ مار کے واقعات، بم بلاسٹ میں کمی آئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ورنہ اس سے قبل بعض سیاسی لیڈروں نے تو ملک کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھوں سونپنے کا عندیہ دے دیا تھا اور یہ تاثر عام تھا کہ طالبان کو اقتدار سے دور رکھنے کے عمل کو ایک بہت بڑے قتل و غارت گری سے تعبیر کیا جا رہا تھا مگر آج فوج نے خیبر جو صورت حال خیبر ایجنسی میں ہے اس نے حالات ایجنسی کو پرامن راہ پر ڈال جب کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا مگر یہ ایک طویل جدوجہد کی راہ ہے جس کی تائید علامہ طاہر القادری تسلسل سے کر رہے ہیں ہر روز کسی نہ کسی شہر میں دھرنا ریلی یا جلسہ یہ چھوٹی بڑی ریلیاں اور جلسے لوگوں کا لہو کو گرم کرتے رہیں گے اور بقول علامہ طاہر القادری کے جو انھوں نے لاہور کی تقریر میں الفاظ ادا کیے ان میں ان کا کہنا تھا کہ اگر قانون کا لحاظ نہ ہوتا اور اصول سامنے نہ ہوتا تو ہم خود قصاص لے سکتے تھے مگر نہ میں نے کبھی یہ درس لوگوں کو دیا ہے اور نہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیں۔
اگر ان جملوں کے علاوہ علامہ طاہر القادری نے بڑے وثوق سے یہ بات زور دے کر کہی کہ دسمبر کا مہینہ موجودہ مرکزی حکومت کے لیے آخری ماہ حکمرانی ہوگا اور قصاص کا مطالبہ حتمی طور پر پورا ہوگا۔ انھوں نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو خصوصیت ساتھ دہرایا اور کہا کہ اس رپورٹ کو واضح طور پر شایع نہیں ہونے دیا گیا تقریر نہایت پراثر اور بڑے مجمع سے یہ خطاب جاری تھا عام طور علامہ طاہر القادری کی تقریروں میں کثیر مجمع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی تقریروں میں شیعہ اور سنی مسالک کا اجتماع ہوتا ہے کیونکہ ان کی تقریریں دونوں مکاتب فکر کے لیے غور طلب ہوتی ہیں۔
ان کی تقریر سے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علامہ صاحب نے جن باتوں کی نفی کی ہے کہیں اپنے مداحوں اور اپنے کارکنوں کے دباؤ میں آکر ازخود قصاص کی کال نہ دے دیں کیونکہ پاکستان میں کرپشن اور پاناما لیکس اور دوسرے کرپشن کے موضوعات اتنے پرانے ہوگئے ہیں کہ ان میں مزید دم نہیں رہ گیا کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے کرپشن کو معمول بنالیا ہے۔
اور سب سے بڑا کرپشن جو سیاست داں کرتے ہیں وہ زمینوں کی بے قاعدگی کا اور ان کی فروخت کا معاملہ ہے اس کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ جس میں بہت زیادہ آمدنی ہے وہ ہے پانی کے کرپشن کا معاملہ پائپ لائنیں پڑی ہوئی ہیں اور ملک میں پانی بھی موجود ہے مگر پانی نہیں چھوڑا جاتا کیونکہ ٹینکر مافیا پھر کس طرح عمل کرے گا اور من مانے ریٹ پر پانی فروخت ہوتا رہے گا۔
اسی لیے جمہوریت کے نام پر جمہور کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا رہے گا مرکزی حکومت پنجاب میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کر رہی ہے جس سے وہاں کے مکین خوش بھی ہیں مگر کراچی کی سرکلر ریلوے کی بحالی کی بار بار باتیں کی گئیں مگر وہ طاق نسیاں ہوگئیں جب کہ مرکز سے یہ شور ہوتا رہتا ہے کہ کراچی کی خوشحالی اورامن ملک کے لیے بہترین ہے کیونکہ کراچی شہر سے ملک کے مالی مفادات وابستہ ہیں مگر ملک میں نت نئے سیاسی بحران پیدا ہو رہے ہیں اور موجودہ سیاسی بحران کا نہ کوئی رخ ہے اور نہ ٹھکانہ کہ یہ کس مقام پر جاکے ٹھہرے گا کیونکہ بلند پایہ لیڈروں کا فقدان ہے بڑا تعجب ہے کہ سیاسی لیڈروں کو ایک مذہبی رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ملک کے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران عوام میں فکری اور عملی بحران پیدا کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ضرب عضب کی کامیابی سے کشت و خوں کی سیاست تو ختم ہوتی نظر آرہی ہے مگر سیاسی انتشار بڑھتا نظر آرہا ہے ۔کراچی سے لے کر خیبر تک ملک سیاسی خلفشار میں مبتلا ہے کراچی کے حالیہ واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک ایک سیاسی بھونچال سے گزرنے والا ہے۔