کام کی باتیں اور بیمارئ دل
بکرے کی طرح تو ہماری کوئی ماں بھی نہیں ہے جو ہماری خیر مانگے
اگر کسی دن آپ کو ہمارے بارے کوئی دل دوز، جانکاہ اور جگر پاش قسم کی خبر ملے تو سمجھ لیجیے کہ ... ''کام کی باتوں'' نے اپنی مہم میں کامیابی حاصل کر لی ہے، بے چارے باقی صدیقی کو تو طرف ایک بات سے فرار ہونا پڑا تھا کہ ۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے گاؤں میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں
لیکن ہمارے پیچھے تو ''کام کی باتوں'' کا ایک پورا لشکر نکل چکا ہے اور خطرناک بات یہ کہ ہر چڑھتے دن اور ڈوبتے سورج کے ساتھ ان میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے، فی الحال تو ہم نکل لینے اور جان بچانے میں کامیاب ہیں کیوں کہ ہم نے ایک اسلحہ ساز سے اپنے کانوں میں ''فل تھرو'' پھروا کر درمیانی رکاوٹیں دور کر لی ہیں اور کسی ''کام کی بات'' کی بات کے حملہ آور ہوتیہی ''ان'' اور آؤٹ کے دونوں گیٹ کھول دیتے ہیں لیکن کب تک... کسی نہ کسی دن تو ہمیں پکڑ میں آنا اور ''کیفر کردار'' تک پہنچنا ہے۔
بکرے کی طرح تو ہماری کوئی ماں بھی نہیں ہے جو ہماری خیر مانگے، ویسے تو ''کام کی باتوں'' کا حملہ ہر چار بلکہ چھ اطراف سے ہر کسی پر بڑے زور شور سے ہو چکا ہے۔ ایسی کوئی جگہ کہیں بھی آپ کو نہیں ملے گی جہاں آپ پہنچیں اور کام کی باتیں افریقی جنگلیوں کی طرح نیزے لے کر آپ کے گرد موت کا رقص نہ کریں لیکن ہم پر کچھ زیادہ ہی اتیاچار شاید اس لیے ہو رہا ہے کہ ہماری شکل میں کوئی بات ہے کہ جس کو دیکھتے ہی وہ لپک کر آتا ہے اور کام کی باتوں کا پٹارہ کھول دیتا ہے، دنیا میں بلکہ اس پوری کائنات یا برھمانڈ یا یونیورس میں ہمیں اگر کسی چیز سے بیر ہے مطلب یہ کہ پاکستانی سیاہ ست کاروں، انڈین اداکاروں (مردوں)، امریکی گلوکاروں، فرنگی مکاروں، روسی سرکاروں، عرب کے تیل داروں، دینی دنیا داروں اور پشاور کے دکانداروں کے علاوہ کسی اور سے سخت بیر ہے تو وہ ''کام کی باتیں'' جنھیں کچھ سنجیدہ باتیں یا پندو نصائح بھی کہتے ہیں۔
خدا کی مار ہو ان تینوں پر جو کام کی باتیں کرتے ہیں ،کام کی باتیں سنتے ہیں اور کام کی باتیں سناتے ہیں (پتہ نہیں کس کو اور کیوں؟)، کیوں کہ اتنا امریکا نے جاپان، کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق اور فلسطین کو برباد نہیں کیا ہو گا جتنا ہمیں کام کی باتوں نے زچ اور دق کیا ہوا ہے، نہ حکومتوں نے اپنے عوام کو اتنا لوٹا اور ڈرایا ہو گا نہ عوامی نمایندوں نے اس ملک کا کچومر نکالا ہو گا اور نہ ہی جمہوریت نے پاکستان کو اتنا پیٹا ہو گا جتنا ہمیں ان کام کی باتوں نے کیا ہے، یقین کریں اتنی کڑاوہٹ کریلے نیم چڑھے بلکہ زقوم چڑھے تک میں نہ ہو گی جتنی اس کام کی باتوں میں محسوس ہوتی ہے، بدقسمتی سے کام کی باتوں کا حملہ کانوں پر ہوتا ہے جو ویسے بھی جسم کی حدود سے باہر واقع ہوئے ہیں اور پھر ان کو نہ تو آنکھوں یا منہ کی طرح بند کیا جا سکتا ہے اور نہ حساس مقامات کی طرح کاٹنا تار لگا کر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
بس یوں سمجھ لیجیے کہ شامیلات دیہہ ہے جس کا جی چاہے اپنا کوئی سا بھی جانور گدھا گھوڑا بیل اس میں چرانے کے لیے چھوڑ سکتا ہے، کسی رکشا والے سے بھی بات کریں تو وہ فوراً اپنا ڈرائیور والا لباس پھینک کر شیخ سعدی کا جبہ پہن لے گا آپ کسی کو اچھا بھلا آدمی سمجھ رہے ہوں گے اس لیے گپ شپ شروع کر دیں لیکن وہ اچانک ڈریکولا کے دانت نکال کر آپ کی شہ رگ میں پیوست کر دے گا، بات موسم سے مہنگائی سے یا کسی بھی چیز سے شروع ہو کر اسلام آباد کراچی یا لاہور سے وائٹ ہاؤس تک پہنچ جائے گی، آزادی کے بارے میں کسی احمق، عامی اور امی نے پرانے زمانے میں ایک قول زرین لانچ کیا تھا کہ ''جہاں سے ''میری ناک'' شروع ہوتی ہے وہیں پر تمہارے ''ہاتھوں'' کی آزادی ختم ہو جاتی، لیکن دور جاہلیت کی بات تھی اب دور جمہوریت میں آزادی کی نئی تعریف یہ ہے کہ جہاں کہیں ''بازو'' پائے جاتے ہیں وہاں کسی بھی ناک کا داخلہ ممنوع ہے ورنہ سواری اپنے ''سامان'' کی اور ناک والے اپنی ناک کے خود ذمے دار ہوں گے۔
ہم نے جب بہت سے پہلے موٹر سائیکل خریدی تو ایک بزرگ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا بیٹا یاد رکھنا کہ سڑک ایک گھمسان کا میدان جنگ ہوتی ہے اور اس میں زیادہ تر لوگ مورچوں میں بیٹھے ہتے ہیں جیسے کار ٹرک اور بس وغیرہ... صرف موٹر سائیکل والا ایسا ہوتا ہے جو کھلے عام برستی گولیوں میں چلتا ہے، ہم نے عرض کیا نہیں موٹر سائیکل والوں نے ہیملٹ پو پہنا ہوتا ہے، بولے وہ تو اس لیے ہوتا ہے کہ حادثے کی صورت میں دماغ بکھر نہ جائے، اب آپ خود ہی بتائیں کہ بے چارے کان جو کسی بھی قسم کا حفاظت سامان نہیں رکھتے ''گھر'' سے بھی باہر ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حملہ آوروں کے لیے جنت نگاہ اور ''فردوس گوش'' ہوتے ہیں بے چارے خود کو بچائیں تو کیسے بچائیں۔ ظلم کی انتہاء تو یہ ہے کہ سائنس دانوں اور موجدوں نے ہر کسی کے لیے کوئی نہ کوئی حفاظتی چیز تو ایجاد کر رکھی ہے لیکن بے چارے ''کان'' اسی طرح اندھے کی بیوی اللہ بھروسے، بلکہ الٹا ان بے چاروں پر حملے کے لیے طرح طرح کے خطرناک ہتھیار ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ اب اس لاؤڈ اسپیکر ہی کو لے لیجیے اس نے تو فرار کی کی تمام راہیں گویا مسدود کر دی ہیں۔ آپ بے شک موت سے بچ سکتے ہیں لیکن لاؤڈ اسپیکر سے... ناممکن گویا آپ پرانے شعر کو یوں نیا کر سکتے ہیں کہ
''لاؤڈ اسپیکر'' سے کس کو رستگاری ہے
ابھی ایک کی تو پھر دوسرے کی بات ہے
لیکن یہ باری کی بات بھی ہم نے غلط کی ہے لاؤڈ اسپیکر کے لیے باری اور وقت کوئی معنی نہیں رکھتے، مثلاً اب جہاں ہم رہتے ہیں وہ تقریباً بارہ لاؤڈ اسپیکروں کے نرغے میں ہیں اور خدا مسلمانوں کو اور زیادہ ''توفیق'' دے کہ دل کھول کر اور بھی چندہ بازی اتنے طاقتور والیوم کے لاؤڈ اسپیکر کے کان میں تیر کی طرح گھسے، اب بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم ان بارہ لاؤڈ سپیکوں سے نکلنے والی ''کام کی باتوں'' سے مستفید ہوتے ہوں گے لیکن توبہ کیجیے جناب... جب بارہ آوازیں بیک وقت کان کے ایک ہی سوراخ میں دھکم پیل کر کے داخل ہوتی ہیں تو سننے والے کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔
ہم عام حالات میں کسی کو بددعا نہیں دیتے لیکن جس شخص نے یہ لاؤڈ اسپیکر ایجاد کیا ہے خدا اسے اسی جگہ پہنچا دے جس کا ذکر ان لاؤڈ اسپیکروں سے ہوتا رہتا ہے، ارے ہاں اسے تو ہم بھول گئے جس نے دور جدید کا ایٹم بم سے زیادہ خطرناک، ہائیڈروجن بم سے زیادہ ہولناک... اور جراثیمی بم سے زیادہ تباہ کن یہ چھوٹا سا فتنہ موبائل ایجاد کیا ہوا ہے جس آج کل کام کی باتوں کے فوار چھوٹتے ہیں، اس فتنے نے لوگوں کو مارنا شروع کر دی ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ موبائل فون ایک نعمت عظیم ہے لیکن ہمارے خیال میں اس سے بڑی بلا آج تک نہ انسان کے گلے میں پڑی ہے اور نہ پڑے گی ۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے گاؤں میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں
لیکن ہمارے پیچھے تو ''کام کی باتوں'' کا ایک پورا لشکر نکل چکا ہے اور خطرناک بات یہ کہ ہر چڑھتے دن اور ڈوبتے سورج کے ساتھ ان میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے، فی الحال تو ہم نکل لینے اور جان بچانے میں کامیاب ہیں کیوں کہ ہم نے ایک اسلحہ ساز سے اپنے کانوں میں ''فل تھرو'' پھروا کر درمیانی رکاوٹیں دور کر لی ہیں اور کسی ''کام کی بات'' کی بات کے حملہ آور ہوتیہی ''ان'' اور آؤٹ کے دونوں گیٹ کھول دیتے ہیں لیکن کب تک... کسی نہ کسی دن تو ہمیں پکڑ میں آنا اور ''کیفر کردار'' تک پہنچنا ہے۔
بکرے کی طرح تو ہماری کوئی ماں بھی نہیں ہے جو ہماری خیر مانگے، ویسے تو ''کام کی باتوں'' کا حملہ ہر چار بلکہ چھ اطراف سے ہر کسی پر بڑے زور شور سے ہو چکا ہے۔ ایسی کوئی جگہ کہیں بھی آپ کو نہیں ملے گی جہاں آپ پہنچیں اور کام کی باتیں افریقی جنگلیوں کی طرح نیزے لے کر آپ کے گرد موت کا رقص نہ کریں لیکن ہم پر کچھ زیادہ ہی اتیاچار شاید اس لیے ہو رہا ہے کہ ہماری شکل میں کوئی بات ہے کہ جس کو دیکھتے ہی وہ لپک کر آتا ہے اور کام کی باتوں کا پٹارہ کھول دیتا ہے، دنیا میں بلکہ اس پوری کائنات یا برھمانڈ یا یونیورس میں ہمیں اگر کسی چیز سے بیر ہے مطلب یہ کہ پاکستانی سیاہ ست کاروں، انڈین اداکاروں (مردوں)، امریکی گلوکاروں، فرنگی مکاروں، روسی سرکاروں، عرب کے تیل داروں، دینی دنیا داروں اور پشاور کے دکانداروں کے علاوہ کسی اور سے سخت بیر ہے تو وہ ''کام کی باتیں'' جنھیں کچھ سنجیدہ باتیں یا پندو نصائح بھی کہتے ہیں۔
خدا کی مار ہو ان تینوں پر جو کام کی باتیں کرتے ہیں ،کام کی باتیں سنتے ہیں اور کام کی باتیں سناتے ہیں (پتہ نہیں کس کو اور کیوں؟)، کیوں کہ اتنا امریکا نے جاپان، کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق اور فلسطین کو برباد نہیں کیا ہو گا جتنا ہمیں کام کی باتوں نے زچ اور دق کیا ہوا ہے، نہ حکومتوں نے اپنے عوام کو اتنا لوٹا اور ڈرایا ہو گا نہ عوامی نمایندوں نے اس ملک کا کچومر نکالا ہو گا اور نہ ہی جمہوریت نے پاکستان کو اتنا پیٹا ہو گا جتنا ہمیں ان کام کی باتوں نے کیا ہے، یقین کریں اتنی کڑاوہٹ کریلے نیم چڑھے بلکہ زقوم چڑھے تک میں نہ ہو گی جتنی اس کام کی باتوں میں محسوس ہوتی ہے، بدقسمتی سے کام کی باتوں کا حملہ کانوں پر ہوتا ہے جو ویسے بھی جسم کی حدود سے باہر واقع ہوئے ہیں اور پھر ان کو نہ تو آنکھوں یا منہ کی طرح بند کیا جا سکتا ہے اور نہ حساس مقامات کی طرح کاٹنا تار لگا کر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
بس یوں سمجھ لیجیے کہ شامیلات دیہہ ہے جس کا جی چاہے اپنا کوئی سا بھی جانور گدھا گھوڑا بیل اس میں چرانے کے لیے چھوڑ سکتا ہے، کسی رکشا والے سے بھی بات کریں تو وہ فوراً اپنا ڈرائیور والا لباس پھینک کر شیخ سعدی کا جبہ پہن لے گا آپ کسی کو اچھا بھلا آدمی سمجھ رہے ہوں گے اس لیے گپ شپ شروع کر دیں لیکن وہ اچانک ڈریکولا کے دانت نکال کر آپ کی شہ رگ میں پیوست کر دے گا، بات موسم سے مہنگائی سے یا کسی بھی چیز سے شروع ہو کر اسلام آباد کراچی یا لاہور سے وائٹ ہاؤس تک پہنچ جائے گی، آزادی کے بارے میں کسی احمق، عامی اور امی نے پرانے زمانے میں ایک قول زرین لانچ کیا تھا کہ ''جہاں سے ''میری ناک'' شروع ہوتی ہے وہیں پر تمہارے ''ہاتھوں'' کی آزادی ختم ہو جاتی، لیکن دور جاہلیت کی بات تھی اب دور جمہوریت میں آزادی کی نئی تعریف یہ ہے کہ جہاں کہیں ''بازو'' پائے جاتے ہیں وہاں کسی بھی ناک کا داخلہ ممنوع ہے ورنہ سواری اپنے ''سامان'' کی اور ناک والے اپنی ناک کے خود ذمے دار ہوں گے۔
ہم نے جب بہت سے پہلے موٹر سائیکل خریدی تو ایک بزرگ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا بیٹا یاد رکھنا کہ سڑک ایک گھمسان کا میدان جنگ ہوتی ہے اور اس میں زیادہ تر لوگ مورچوں میں بیٹھے ہتے ہیں جیسے کار ٹرک اور بس وغیرہ... صرف موٹر سائیکل والا ایسا ہوتا ہے جو کھلے عام برستی گولیوں میں چلتا ہے، ہم نے عرض کیا نہیں موٹر سائیکل والوں نے ہیملٹ پو پہنا ہوتا ہے، بولے وہ تو اس لیے ہوتا ہے کہ حادثے کی صورت میں دماغ بکھر نہ جائے، اب آپ خود ہی بتائیں کہ بے چارے کان جو کسی بھی قسم کا حفاظت سامان نہیں رکھتے ''گھر'' سے بھی باہر ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حملہ آوروں کے لیے جنت نگاہ اور ''فردوس گوش'' ہوتے ہیں بے چارے خود کو بچائیں تو کیسے بچائیں۔ ظلم کی انتہاء تو یہ ہے کہ سائنس دانوں اور موجدوں نے ہر کسی کے لیے کوئی نہ کوئی حفاظتی چیز تو ایجاد کر رکھی ہے لیکن بے چارے ''کان'' اسی طرح اندھے کی بیوی اللہ بھروسے، بلکہ الٹا ان بے چاروں پر حملے کے لیے طرح طرح کے خطرناک ہتھیار ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ اب اس لاؤڈ اسپیکر ہی کو لے لیجیے اس نے تو فرار کی کی تمام راہیں گویا مسدود کر دی ہیں۔ آپ بے شک موت سے بچ سکتے ہیں لیکن لاؤڈ اسپیکر سے... ناممکن گویا آپ پرانے شعر کو یوں نیا کر سکتے ہیں کہ
''لاؤڈ اسپیکر'' سے کس کو رستگاری ہے
ابھی ایک کی تو پھر دوسرے کی بات ہے
لیکن یہ باری کی بات بھی ہم نے غلط کی ہے لاؤڈ اسپیکر کے لیے باری اور وقت کوئی معنی نہیں رکھتے، مثلاً اب جہاں ہم رہتے ہیں وہ تقریباً بارہ لاؤڈ اسپیکروں کے نرغے میں ہیں اور خدا مسلمانوں کو اور زیادہ ''توفیق'' دے کہ دل کھول کر اور بھی چندہ بازی اتنے طاقتور والیوم کے لاؤڈ اسپیکر کے کان میں تیر کی طرح گھسے، اب بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم ان بارہ لاؤڈ سپیکوں سے نکلنے والی ''کام کی باتوں'' سے مستفید ہوتے ہوں گے لیکن توبہ کیجیے جناب... جب بارہ آوازیں بیک وقت کان کے ایک ہی سوراخ میں دھکم پیل کر کے داخل ہوتی ہیں تو سننے والے کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔
ہم عام حالات میں کسی کو بددعا نہیں دیتے لیکن جس شخص نے یہ لاؤڈ اسپیکر ایجاد کیا ہے خدا اسے اسی جگہ پہنچا دے جس کا ذکر ان لاؤڈ اسپیکروں سے ہوتا رہتا ہے، ارے ہاں اسے تو ہم بھول گئے جس نے دور جدید کا ایٹم بم سے زیادہ خطرناک، ہائیڈروجن بم سے زیادہ ہولناک... اور جراثیمی بم سے زیادہ تباہ کن یہ چھوٹا سا فتنہ موبائل ایجاد کیا ہوا ہے جس آج کل کام کی باتوں کے فوار چھوٹتے ہیں، اس فتنے نے لوگوں کو مارنا شروع کر دی ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ موبائل فون ایک نعمت عظیم ہے لیکن ہمارے خیال میں اس سے بڑی بلا آج تک نہ انسان کے گلے میں پڑی ہے اور نہ پڑے گی ۔