وزیر اعظم شہر قائد سے دور کیوں

وزیراعظم کے تمام دورے سرکاری تقریبات میں شرکت تک محدود ہوتے ہیں جو مہینوں بعد ہوتے ہیں

GENEVA:
وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ کراچی کا اعلان اسلام آباد سے کئی روز پہلے کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم ایک روزہ دورے پرکراچی جائیں گے۔ وزیر اعظم کا دورہ اگر ملتوی نہ ہو تب بھی مختصر ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا دورہ ایک روزہ کہلانے ہی کی حد تک ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو وزیر اعظم شہر قائد میں اتنا وقت بھی نہیں گزارتے جتنا وقت انھیں کراچی اور اسلام آباد آنے جانے میں سفر پر لگ جاتا ہے۔

وزیراعظم کے تمام دورے سرکاری تقریبات میں شرکت تک محدود ہوتے ہیں جو مہینوں بعد ہوتے ہیں اور وزیراعظم کے پاس مقررہ سرکاری تقاریب میں شرکت کا شیڈول بہت ٹائٹ ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی وقت نکال نہیں پاتے جس کی اکثریت کے باعث ان کی ملک میں حکومت ہے۔ سرکاری تقریبات ہی میں ان کی کراچی سے تعلق اور پنجاب سے منتخب کرائے گئے سینیٹروں اور دو چار مسلم لیگی اہم عہدیداروں سے رسمی ملاقات ہو جاتی ہے اور دو چارگھنٹوں میں وزیر اعظم کا کراچی کا ایک روزہ دورہ مکمل ہو جاتا ہے۔ کراچی میں 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگی قائد کی عدم دلچسپی کے باوجود جو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھی ان کی کامیابی میاں صاحبان یا مسلم لیگ (ن) کی بدولت نہیں بلکہ ذاتی اثر و رسوخ کے باعث ممکن ہوئی تھی۔

شہر قائد سے باہر اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سابق وزرائے اعلیٰ ممتازعلی بھٹو، ارباب غلام رحیم، لیاقت علی جتوئی، سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو، سابق نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کی پارٹی این پی پی، ضلع ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان، ماضی میں پی پی سے تعلق رکھنے اور کراچی کے دیہی علاقوں میں اثر رکھنے والا جاموٹ گروپ بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تھا جب کہ پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ اور بعض قوم پرست رہنما بھی نواز شریف کے حامی تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے جن کا تعلق کراچی کے نواحی علاقوں سے ہے اور کراچی سے وفاقی حکومت کے واحد وزیر مملکت عبدالحکیم بلوچ بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں مگر وزیر اعظم کے کانوں پر جوں نہیں رینگی اور انھیں کراچی توکیا کراچی میں برائے نام موجود مسلم لیگ (ن) کا کوئی خیال نہیں ہے۔ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جو سب سے زیادہ کما کر وفاق کو دیتا ہے اور اسی آمدنی سے وفاقی حکومت اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔

کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے وفاقی حکومت کروڑوں روپے کے ٹیکس سے محروم ہو جاتی ہے۔ کراچی کو ملک کا معاشی ہبhub قرار دیا جاتا ہے جسے وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے مکمل نظرانداز کر رکھا ہے اور لگتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک چل رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کراچی کے تین مسلم لیگی رہنماؤں کو پنجاب سے سینیٹر منتخب تو کرا لیا تھا مگر تینوں میں سے کسی ایک کو بھی کراچی کا نمایندہ سمجھ کر وفاقی وزارت میں شامل نہیں کیا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کی سندھ حکومت میں کوئی موثر نمایندگی ہے نہ وفاق میں کراچی سے کوئی وفاقی وزیر ہے جو کراچی کا نمایندہ بلکہ وزیر اعظم کو حقائق سے آگاہ کر سکے۔


یہ درست ہے کہ کراچی کی شہری آبادی نے پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو نظر انداز کر کے ایم کیو ایم کو اپنی نمایندگی کا زیادہ حق دیا تھا جس کے ذمے دار میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان ہیں۔ 2013ء کے الیکشن کے وقت آصف علی زرداری صدر مملکت تھے اور خود انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر ان کی انتخابی توجہ کراچی کی بجائے مکمل طور پر اندرون سندھ پر تھی جہاں سے انھیں واضح کامیابی بھی ملی۔

میاں نواز شریف اور عمران خان کی بھی پوری توجہ پنجاب اور کے پی کے پر تھی اور انھیں وہاں کامیابی ملی۔ کراچی کو مذکورہ تینوں رہنماؤں نے بے کار سمجھ کر لاوارث چھوڑ دیا تھا اورکراچی کی اکثریت کے پاس متحدہ کو ووٹ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ تینوں بڑی پارٹیوں نے کراچی کے عوام سے اپنے لیے ووٹ نہیں مانگا تو کراچی انھیں کیوں منتخب کرتا۔ کراچی کے عوام نے متبادل نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ کو ووٹ دیے جس نے وزیر اعظم کے انتخاب میں (ن) لیگ کو مکمل سپورٹ کی اور کراچی کے ووٹ وزیر اعظم کے لیے نواز شریف اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے لیے ایاز صادق کو ملے جس کے بعد نواز شریف کو کراچی کی مکمل سیاسی حمایت حاصل ہوگئی تھی اور وہ کراچی کے بھی وزیر اعظم تھے مگر انھوں نے کراچی کو کراچی کے منتخب ہونے والے 24 ووٹوں کا صلہ بھی نہیں دیا جنھوں نے انھیں اپنی وفاق میں نمایندگی کا حق دیا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف کی ناراضگی متحدہ سے تو ہوسکتی ہے مگر کراچی کے عوام سے نہیں ہونی چاہیے جنھوں نے انھیں شیر پر مہر لگا کر لاکھوں ووٹ دیے تھے وزیراعظم منتخب ہوکر نواز شریف نے کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ مجبوری میں سرکاری تقاریب میں شرکت کے لیے کراچی آتے ہیں مگر کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے۔ پی پی نے اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کراچی کو نظرانداز کیا اور وہی پالیسی وزیر اعظم نواز شریف نے اختیار کر رکھی ہے جو کھلی ناانصافی ہے۔

میاں نواز شریف ایک روزہ دورے پر 19 اگست کو کراچی آئے اور دو سرکاری تقاریب میں شریک ہوکر واپس چلے گئے۔ اس بار وزیراعظم نے کراچی کے معاملات پر کوئی اجلاس منعقد کیا نہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سے کوئی تفصیلی ملاقات کی۔

19 اگست عالمی سطح پر انسانیت کا دن تھا اور انسانیت کی سب سے زیادہ خدمت کراچی ہی کے عبدالستار ایدھی نے کی مگر وزیر اعظم نے ان کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے ایدھی ہوم آنا گوارا کیا نہ ایدھی خاندان سے ملنا ضروری سمجھا۔ وزیر اعظم خود کرکٹ کے شوقین ہیں انھیں کراچی کے سپوت مایا نازکرکٹر لٹل ماسٹر حنیف محمد کے گھر آکر تعزیت کرنی چاہیے تھی۔

وزیر اعظم کو شہید امجد صابری کے گھر لیاقت آباد اظہار تعزیت کے لیے آنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم کا دورہ کراچی ایک روزہ تھا مگر وزیراعظم دیگر سرکاری مصروفیات نہ ہونے کے باوجود تینوں جگہ نہیں آئے جہاں انھیں عوام سے ملنے کا موقع ملتا ۔ وزیراعظم لیاقت آباد آکر ناظم آباد میں گرین بس کے تعمیری کام کا بھی معائنہ کرسکتے تھے جو وفاقی حکومت کرا رہی ہے وزیر اعظم شورکوٹ کے سرکاری دورے میں پروگرام کے بعد اچانک اپنے گارڈ کے گھر گئے مگرکراچی کی تین ممتاز شخصیات کے اظہار تعزیت کے لیے نہیں آئے جس سے کراچی والوں کو شدید مایوسی ہوئی اور کراچی سے متعلق ان کا منفی تاثر برقرار رہا۔

کراچی کو متحدہ نے کچھ دیا نہ پیپلز پارٹی نے جس کی وجہ سے وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کو عوام کے قریب لا سکتے ہیں اورکراچی کو اس کا جائز حق دے کر کراچی کے عوام کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں مگر وہ شہر قائد کو نہیں اپنا رہے وگرنہ کراچی ان کا بھی ہو سکتا ہے۔
Load Next Story