ہدایت ربّانی ایک عظیم ترین نعمت

اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے۔


راحیل گوہر August 26, 2016
اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے۔ فوٹو: فائل

اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کی عطا کی ہوئی کسی بھی نعمت کا نعم البدل یا اس کا ثانی ممکن ہی نہیں، بلاشبہ اﷲ کی عطا کی ہوئی تمام نعمتوں میں سب سے عظیم ترین نعمت اس کی ''ہدایت'' ہے۔ یہ ہدایت کسی انسان کو نصیب نہ ہو تو اس کا ہر عمل انسانیت کے لیے شر اور فساد کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر اس کے پاس بے انتہا دولت ہے اور اس کے ساتھ اﷲ کی ہدایت نہیں ہے تو اس دولت کا استعمال کبھی صحیح راستے پر نہیں ہوگا۔ عیاشیاں ہوں گی، اللے تللے ہوں گے، اسراف و تبذیر اور نمود و نمائش پر دولت ضایع کی جائے گی۔ علم کی دولت سے فیض یاب ہے تو ہدایت ربانی کے بنا اس کا علم تخریبی کاموں میں خرچ ہوگا اور فساد فی الارض کا باعث بنے گا۔ جسمانی قوت و مردانگی کسی شخص کو حاصل ہے اور وہ ہدایت خدا وندی سے محروم ہے تو اس کی یہ طاقت کم زور تر اور معاشرے کے پسے ہوئے درماندہ انسانوں پر ظلم و جبر اور ان کے حقوق کے استحصال کا موجب بن کر معاشرے کا چین و سکون برباد کر دے گی۔

اسی حکمت کا تقاضا تھا کہ جب خا لق کائنات نے سب سے پہلے انسان (آدم علیہ السلام) کو اپنی نیابت سونپ کر اس روئے ارض پر بھیجا تو اس کو کسی بے نشان اور گم راہ کر دینے والی راہ پر روانہ نہیں کیا بل کہ اس کو اس وعدے کا ساتھ رخصت کیا کہ '' پس جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے'' (البقرہ 38)

مولانا ابو الکلام آزاد ' سورہ فاتحہ' کی تفسیر میں لکھتے ہیں '' ہدایت کے معنی راہ پر لگا دینا ا ور راہ نمائی کر نے کے ہیں۔ فطرت کی یہ ہدایت ربوبیت کی ہدایت ہے۔ اور اگر ہدایت ربوبیت کی دست گیر نہ ہوتی، تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق دنیا کے سامان حیات اور پرورش سے فائدہ اٹھا سکتی، اور نہ زندگی کی سرگرمیاں ظہور میں آسکتیں۔''

ہدایت انسان کو ایمان قلبی عطا کرتے ہوئے اس کی اصل منزل مراد تک پہنچا دیتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے '' اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ (اﷲ) مزید ہدایت بخشتا ہے اور انہیں پرہیزگاری عنایت کر تا ہے۔'' (سورہ محمد)

انسان کے لیے معاشرت، معیشت اور سیاسی امور میں بسا اوقات ایسی پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں، جنہیں سلجھانا اس کی محدود عقل و فہم سے بالاتر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مرد و عورت کے باہمی تعلقات میں حقوق و فرائض کا کیا پیمانہ ہونا چاہیے، فطری طور پر مرد کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور عورت کے جذبات کسی اور رویہ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس فکری تضاد کی بنا پر مرد و عورت کے مابین تصادم ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انفرادیت اور اجتماعیت کے مابین کھینچا تانی کا معاملہ پیدا ہوجا تا ہے۔

انفرادی سطح پر انسان صرف اپنی مصلحتوں اور اپنے تحفظات کے دائرے میں مقید ہوتا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کے برعکس انسانوں کی اجتماعیت اپنا ایک خاص نکتہ نظر رکھتی ہے جس میں پوری قوم یا برادری کی فلاح مقصود ہوتی ہے۔ اب اس فکری اور عملی ٹکراؤ سے پوری ریاست کا امن اور سلامتی مخدوش ہوجاتے ہیں۔ انسان خود کو ہر پابندی اور حدود و قیود سے آزاد رکھنا چاہتا ہے، اور یہ چیز دوسروں کے لیے کبھی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، اس کے برخلاف کبھی اجتماعیت کا پلہ اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور ذاتی زندگی اجتماعیت کے ظلم و تعدی کا نشانہ بننے لگتی ہے اور اس کے حقوق پامال ہونے لگتے ہیں۔ ان ہی امور کو دوسرے الفاظ میں حکومت اور عوام کی کش مکش کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

ایک اور فکر انگیز معاملہ آجر اور اجیر یا بہ الفاظ دیگر سرمایہ دار اور مزدور کے مابین محنت و اجرت کا توا زن ہے۔ سرمایہ دار ہمیشہ اپنے منافع کی بڑھوتری کے بارے غلطاں و پیچاں رہتا ہے اور وہ مزید طلب کا عادی بن جاتا ہے۔ سرمایہ جتنا بڑھتا جاتا ہے، ہوس زر اتنی ہی پر وان چڑھتی جا تی ہے۔ دوسری طرف مزدور ہمیشہ اسی ظن و تخمین میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کی محنت کے لحاظ سے معاوضہ کم ہے۔ اور یہ سوچ اسے اپنے کام اور فرائض میں بددیانتی کا مرتکب بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات اوہام و وساوس بھی انسان کے فکر و عمل کو زہرآلود کر دیتے ہیں۔ پھر وہ ہر کام منفی رجحان کے تحت سر انجام دیتا ہے اور یوں حقوق و فرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

یہ وہ گمبھیر انسانی مسائل ہیں جن کی اصلاح اور صحت کے لیے انسان اپنے رب کے سامنے یہ التجا کر نے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اے رب ہمارے! ہمیں سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی فرما یہ ایک جامع اور اہم ترین دعا ہے جو انسان کو سکھائی گئی ہے، انسان کا کوئی فرد اس سے بے نیاز نہیں، دین اور دنیا دونوں میں صراط مستقیم کے بغیر فلاح و کام یابی ممکن نہیں، دنیا کی الجھنوں میں صراط مستقیم کی دعا نسخۂ اکسیر ہے۔

انسان کو عہد طفولیت سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک ہدایت و راہ نمائی کی ضرورت رہتی ہے۔ بچپن میں جو غیر شعوری دور ہوتا ہے، اس میں بھی بچے کی ذہنی سطح کے مطابق والدین اور بزرگوں کی ہدایات اور راہ نمائی بچے میں ایک احساس تحفظ پیدا کر تے ہیں۔ پھر لڑکپن اور جوانی کا وہ دور آتا ہے جب انسان کی قدم قدم پر اصلاح اور اس کے کردار و عمل کی درستی کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ انسانی زندگی کا بڑا ہیجانی دور ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ہدایت کی ڈور کم زور ہو نے لگے تو بے راہ روی غیر محسوس انداز میں انسان کے کردار کو مسخ کرنے لگتی ہے، کیوں کہ مادی جسم کے نفسانی تقاضے جب بے قابو ہونے لگیں تو معاشرے میں غیر اخلاقی رویے جنم لیتے ہیں اور رشتوں کے تقدس کی پاکیزگی نفس امارہ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے نائب آدم ؑ سے جو ہدایت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے ارسال کتب اور نبوت و رسالت کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا، جن میں تمام بنی نوع انسان کے لیے زندگی کی پرپیچ راہوں اور کٹھن وادیوں سے آسانی سے گزر جانے کی تعلیم و تربیت دی گئی، اور یہ سلسلہ خاتم النبیین و ختم المرسلین نبی رحمت ﷺ پر ختم ہوا۔ اور تب اﷲ نے اعلان فرما دیا '' اور آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بہ حیثیت دین پسند کر لیا۔'' (المائدہ)

دین اسلام سراسر ہدایت ہے، چناں چہ نعمتیں تمام کر دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسان کو تمدنی، ثقافتی، مادی اور روحانی زندگی کے ہر شعبے میں قدرت کی وہ ہدایت عطا کر دی گئی جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اب بھی اگر کوئی اس ہدایت کو اپنی زندگی کا مرکز و محور نہ بنائے اور محض اپنی عقل و فہم اور اپنے خود ساختہ نظریات کو ہی اﷲ کی ہدایت پر برتری د ے، تو ا س کا یہ طرز عمل اسے ایک ایسی بند گلی تک لے جاتا ہے۔

جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اور اس کے لیے ان اونچی اونچی دیواروں سے سر پھوڑتے رہنا مقدر بن جاتا ہے جو اس نے اپنی فکری کجی، اﷲ سے بغاوت ا ور ہدایت خداوندی سے منہ موڑ کر اپنے وجود کے گرد کھڑی کرلی تھیں۔ ہدایت ربانی پر ایمان و یقین کے ساتھ عمل کر نے سے نہ صرف تمام دیواریں آن ِواحد میں زمیں بوس ہوجاتی ہیں بل کہ راستے میں آنے والی گم راہی کی تمام پتھریلی چٹانیں بھی ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ اصل بات صرف یقین کامل اور اﷲ کی ہدایت کو پہچاننے کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں