ذوالقعدہ کا مہینہ جاری ہے اور ذوالحجہ آنے والا ہے، حج کی خوشی اور قربانی کا جوش بھی بڑھتا جارہا ہے، فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے عازمین حج حجاز مقدس کی طرف رواں دواں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر عازمین حج کے قافلے سرزمینِ مقدس پہنچ رہے ہیں۔
مکہ مکرمہ اور جدہ کے علاوہ عازمین حج کی بڑی تعداد مدینہ منورہ کے شہزادہ محمد بن عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی اتر رہی ہے، جہاں عازمین کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ نمازیں ہیں، نوافل ہیں، شکر گزاری ہے، خوشی ہی خوشی ہے، شوق عبادت اور ذوق محبت بڑھتا جارہا ہے۔
اسی سرشاری سے مغلوب ہوکر
چینی مسلمان ''محمد ما پاؤچین'' بھی حج کے مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لیے 3 ماہ میں 8 ہزار کلومیٹر کا سفر سائیکل پر طے کر کے پہنچے ہیں۔ دنیا کی توجہ سمٹ آئی ہے کہ یہ منفرد انداز میں ہزاروں میل کا فاصلہ سمیٹتا ہوا چین سے پاکستان پھر براستہ افغانستان، ایران اور عراق سے سعودیہ عرب پہنچنے والا کیا ذوق جنون لئے ہوئے ہے۔
اور وقت کو تو گویا پر لگ جاتے ہیں، لمحہ لمحہ انتظار کر کے مقدس سر زمین تک پہنچنے والے عازمین حج آٹھویں ذوالحجہ کو احرام لپیٹے مکہ مکرمہ سے منیٰ جائیں گے،
''لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمۃ لک و الملک، لا شریک لَک''
کی تسبیح طول وعرض میں گونجتی رہے گی۔ کعبہ کے سامنے سر کی آنکھوں اور من کی آنکھوں سے جابجا سجدے ادا ہوں گے۔ عبادت کا قرینہ الگ ہوگا۔ مطاف کعبہ میں لاکھوں افراد بیک وقت اللہ کے حضور بندگی میں مصروف ہوں گے، گو کہ طواف صرف نماز کے وقت ہی رکتا ہے لیکن حج کا منظر ہی الگ ہوتا ہے، جو جاہ و جلال سے دل کو منور کرتا ہے۔
اس بار حج پر گزشتہ برس کے دو واقعات خوشی میں غم اور اندوہناک کرب کی صورت یاد رہیں گے۔ منیٰ میں شہید ہونے والوں کی حالت زار بھی یاد آئے گی۔ سوشل میڈیا پر سعودی حکومت کی سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے غفلت، کھنچائی اور امت مسلمہ سے غم گساری بھی بھلائے نہیں بھولے گی۔
گزشتہ سال
11 ستمبر کو مسجد الحرام کے اطراف میں تعمیراتی کام جاری تھا کہ شدید طوفان نے دیوہیکل کرین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، تیز بارش شروع ہوگئی، گرد و غبار کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیا، آنکھ کو کچھ نظر نہ آیا، اور آن کی آن میں بجلی چمکی اور ایک بھاری بھرکم کرین ہوا میں لہراتی ہوئی زمین پر آگری۔ حرم کا دالان زد میں آیا۔ مسجد الحرام کی دیوار کا ایک حصہ بھی زمین بوس ہوا۔ صفا و مروہ کی طرف جانے والی جگہ کو نقصان پہنچا اور کرین گر پڑی۔
دروازہ کعبہ کے سامنے، مقام ابراہیم کے بالکل عقب میں، جہاں طواف مکمل کرنے کے بعد دو نفل پڑھنے اور آب زم زم پینے کا بے انتہا ثواب ہے۔ جہاں باقی حرم کی نسبت سب سے زیادہ ہجوم ہوتا ہے۔ ہر جانب خون بکھر گیا، کٹے لاشے نظر آنے لگے، خوشی عبادت اور سکون کے لمحات چیخ و پکار، آہ و بکا میں بدل گئے، لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگے مدد کو پکارنے لگے۔ 107 کے قریب عازمین حج شہادت سے سرفراز ہوئے، 200 زائد عازمین زخمی بھی ہوئے۔ سنتے آئے ہیں جو عمرہ و حج کی نیت سے گھرسے نکلے اور راستے میں انتقال کرجائے روز قیامت تک اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جو علم کی تلاش اور حلال رزق کی تلاش میں گھر سے نکلے اور موت آلے، تو وہ شہید ہے۔
اس پر افسوس کریں یا رشک؟ سمجھ سے بالا تر ہے۔ پھر 22 ستمبر کا ہولناک روز کون بھول سکتا ہے۔ رمی جمرات کے وقت
بھگدڑ مچنے سے 2431 حجاج کرام شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے، ہرسال کی طرح جگہ جگہ حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے نصب سائن بورڈز، اہم مقامات پر آویزاں بڑی بڑی رہنما اسکرینیں، چاق وچوبند اسپیشل فورس اور پولیس کے دستے، ہر چند میڑ کے فاصلے پر قائم دفاع مدنی کے دفاتر، کشادہ داخلی وخارجی راستے، ایمرجنسی راستے، فضا میں گشت کرتے ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں، لیکن چند افراد جلد بازی مچاتے ون وے پر مخالف سمت میں چڑھ دوڑے، بھگدڑ مچنے سے ایک دوسرے پر گرے، کچھ زخمی ہوئے تو کچھ دم گھٹنے سے اور کچھ امداد میں دیر ہونے سے خالق حقیقی سے جاملے۔ سینکڑوں زخمی ہوئے، ہزاروں اپنے پیاروں کی تلاش میں تتر بتر ہوئے۔
ان ہی سوگوار یادوں، مقدس مقام پر شہادت نصیب ہونے والوں پر رشک کرتے، اور گناہوں کی بخشش کا ارادہ لئے مقدس فریضہ کی ادائیگی کی سرشاری میں حج کی تیاری ہے کیونکہ،
غم ہے یا خوشی ہے،
سب ساتھ ہیں اور یہی زندگی ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔