فخر ہے کہ برہان نے سینے پر گولیاں کھائیں

 اعتراف کرتا ہوں کہ ہماری نسل کچھ بزدل تھی، آج دس برس کا بچہ بھی بھارتی فوج کا مقابلہ کرتا ہے


سید عاصم محمود August 28, 2016
کشمیر کی جدوجہد آزادی میں نئی روح پھونکنے والے برہان وانی شہید کے والد کی چشم کشا باتیں ۔ فوٹو : فائل

چند ماہ قبل تک جنوبی مقبوضہ کشمیر میں واقع چھوٹے سے گاؤں شریف آباد (ترال) کے باشندے ہی مظفر احمد وانی کو جانتے تھے۔ ایک ہائی سکول کے یہ ہیڈماسٹر علاقے میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے مگر دو بیٹوں خصوصاً برہان وانی کی شہادت نے انہیں بین الاقوامی شہرت عطا کر ڈالی۔ 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تو پوری وادیٔ کشمیر میں زبردست احتجاج شروع ہو گیا۔

اس احتجاج نے بھارتی ایوان حکومت میں زلزلہ سا پیدا کر دیا اور غاصب حکمرانوں کا یہ نعرہ کھوکھلا معلوم ہونے لگا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔بھارتی وزیراعظم تو ایسے حواس باختہ ہوئے کہ بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کو معطون کرنے لگے۔ تبھی بلوچ عوام کے زبردست احتجاج نے انہیں آئینہ دکھا دیا۔21 سالہ نوجوان برہان وانی نے اپنا قیمتی لہو دے کر تحریک آزادی کشمیر کو نیا جوش و ولولہ بخشا ۔ شہید کے والد بھی اس تحریک کے مجاہد بن چکے۔ بھارتی میڈیا میں مظفر وانی کے کئی انٹرویو شائع ہوئے ہیں۔ انکی کہی چیدہ چیدہ باتوں کا انتخاب نذر قارئین ہے۔

٭٭
سوال: آپ کے بیٹے نے بھارت کے خلاف کیوں ہتھیار اٹھائے؟
جواب: یہ لکھا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے برہان اور خالد (دوسرے بیٹے) کو مارا پیٹا تو وہ بدلہ لینے کی خاطر مجاہد بن گئے۔ یہ مغالطہ ہے۔ کشمیر ایک صدی سے آگ میں جل رہا ہے۔ برہان نے جب 2010ء میں شہید کشمیریوں کے جنازے دیکھے تبھی سے وہ بھارتی حکمرانوں کا مخالف بن گیا۔وادیٔ کشمیر میں بھارتی فوج تقریباً سبھی کشمیری مرد یا نوجوانوں کو مارتی پیٹتی ہے لیکن ہر نوجوان بھارتیوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتا۔ دراصل انحصار اس بات پر ہے کہ ایک کشمیری کس حد تک ظلم برداشت کر سکتا ہے؟اس میں غیرت کتنی ہے؟ بعض نوجوانوں کی غیرت کو بھارتی فوج بار بار چیلنج کرے تو وہ جواب دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ دوسرے خاموش رہتے ہیں۔ میرا بیٹا نہتے کشمیریوں پر مظالم اور اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکا چناںچہ اس نے ہتھیار اٹھا لیے۔

سوال: سنا ہے برہان وانی بھارتی فوج کے زیرحراست بھی رہا؟
جواب: جی نہیں، البتہ بھارتی فورسز اس کے اہل خانہ کو ضرور پریشان کرتی رہیں۔ 2014ء میں امریکی صدر بارک اوباما نئی دہلی آئے۔ ہم دہلی سے کئی سو میل دور شریف آباد میں تھے مگر مجھے اور خالد کو تین دن کے لیے قید کر دیا گیا۔ اسی طرح 2015ء میں نریندر مودی کشمیر آیا تو تب بھی مجھے گرفتار کر لیا گیا۔سچ یہ ہے کہ 2010ء کے بعد سے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنا ہواہوں۔ جب بھی مجاہدین کسی جگہ حملہ کریں، پولیس مجھے اور خالد کو گرفتار کر لیتی۔ ان گرفتاریوں کے باعث خالد امتحان نہیں دے سکا۔

یہی نہیں، جنوبی کشمیر میں بھارتی فوجی مساجد کے اماموں کو بھی گرفتار کر لیتے ہیں۔ یہ اسلام پر براہ راست حملہ ہے۔ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ امام مسجد کشمیری عوام کو اسی کے خلاف بھڑکاتے ہیں حالانکہ مساجد میں مسلمان دین کی باتیں کرتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک بھارتی فوج اماموں کو زیرحراست لے کر دین اسلام پر حملہ کرتی ہے۔

سوال: ایک مجاہد کا باپ ہونے کے باعث آپ کی پیشہ ورانہ زندگی پر اثر پڑا؟
جواب: جی ہاں، حکومت دوردراز کے دیہات میں میرا تبادلہ کر دیتی ہے۔ تین سال پہلے ترال کے لوگوں کی پرزور فرمائش پر مجھے واپس علاقے میں لایا گیا اور میں مقامی ہائی سکول کا پرنسپل بنا۔ صرف تین دن بعد پھر ضلع شوپیاں کے دوردراز علاقے میں میرا تبادلہ کر دیا گیا۔ میں دو سال وہاں رہا اور پھر ترال واپس آیا۔ برہان کا والد ہونے کے ناتے ہی مجھے یہ اذیت دی گئی۔اس دوران ہمارے گھر پولیس کے چھاپے معمول بن گیا۔ پولیس ہر دوسرے تیسرے دن دندناتی آتی اور گھر کی تلاشی لینے لگتی حتیٰ کہ وہ دیواروں اور فرش کو بھی ٹھونک بجا کر دیکھتے کہ کہیں خفیہ مقام تو موجود نہیں۔ ان چھاپوں کی وجہ سے ہمارا ذہنی سکون برباد ہو گیا مگر تحریک آزادی کی خاطر میرے سبھی اہل خانہ تکالیف برداشت کرتے رہے۔

سوال: برہان کی شہرت کے متعلق آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
جواب: برہان میدان جنگ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بہت متحرک تھا۔ اسی امر نے اسے میڈیا میں مقبول بنا دیا تاہم مجھے بھارتی میڈیا کا برہان پر توجہ دینا پسند نہ تھا۔ جنگ آزادیٔ کشمیر کا خالق برہان نہیں، وہ تو عرصہ دراز سے جاری ہے۔ یہ محض برہان کی جنگ نہیں، ہر کشمیری بھارتی غاصبوں سے آزاد ہونے کی تڑپ رکھتا ہے۔یہ ظالم پچھلی نصف صدی میں سری نگر، سوپور، اننت ناگ اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ کشمیری شہید کر چکے۔ یہ شہید کس چیز کی تلاش میں تھے؟... آزادی! یاسین ملک، شبیر شاہ بھی آزادی پانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ لوگ میدان سیاست میں سرگرم ہیں مگر ان کا مقصد ایک ہی ہے۔ جب تحریک آزادی شروع ہوئی تو برہان پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔

سوال: مقبوضہ کشمیر کی موجودہ حکومت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: جب مارچ 2015ء میں پی ڈی پی (جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کے سربراہ مفتی سعید وزیراعلیٰ بنے تو ہمیں امید تھی کہ اب مقبوضہ کشمیر میں حالات بہتر ہوں گے۔ اب بھارتی سکیورٹی فورسز عام کشمیریوں پر مظالم نہیں ڈھائیں گی لیکن یہ حکومت تو نیشنل کانفرنس سے بھی زیادہ بھارتی حکمرانوں کی کٹھ پتلی ثابت ہوئی۔ مفتی محمد سعید کے دور میں جس پہلے کشمیری نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت پائی وہ میرا بیٹا خالد تھا۔ نیشنل کانفرنس کی حکومت بھی ظالم تھی، مگر پی ڈی پی کی حکومت تو تمام حدیں پار کر چکی۔ اب کشمیر میں کسی مسلمان کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔آج مقبوضہ کشمیر میں آزاد اور منصفانہ الیکشن منعقد ہوں تو پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس، دونوں بری طرح شکست کھا جائیں۔ اس الیکشن سے ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہو گا اور ضروری نہیں کہ الیکشن میں جانے پہچانے سیاسی لوگ برسراقتدار آئیں، وہ سب کے لیے اجنبی بھی ہو سکتے ہیں۔

سوال: بھارتی فوج نے کبھی مفاہمت کی خاطر آپ سے رابطہ کیا؟
جواب: جی ہاں، بھارتی فوج کے اعلیٰ افسر چاہتے تھے کہ برہان ہتھیار ڈال دے۔ میں نے ہر بار انہیں یہی بتایا کہ میرا برہان سے کوئی رابطہ نہیں۔ دوم میں اپنے بیٹے کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ ایک بار فوجی افسر نے کہا ،اگر برہان ہتھیار پھینک دے تو اسے صرف چھ ماہ کی قید ہو گی۔ مگر مجھے یقین تھا کہ برہان کبھی سر نہیں جھکائے گا۔دراصل میرا بیٹا پکا مسلمان تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسلام میں دو چیزیں ہوتی ہیں: غازی یا شہید! سر صرف اللہ تعالیٰ کے حضور جھکایا جاتا ہے۔ پھر یہ برہان کی ذاتی جنگ تو نہیں تھی۔ اس کا بھارتی حکمرانوں یا فوج سے کوئی ذاتی جھگڑا نہ تھا۔ ایسا ہوتا تو مفاہمت کی خاطر گفت وشنید ممکن تھی۔ برہان تو اللہ کی راہ میں آزادی کشمیر کے لیے ظالموں سے نبردآزما ہوا۔ ایسے میں کاہے کی مفاہمت؟

سوال: بھارتی میڈیا کیا کشمیریوں کے خیالات وجذبات صحیح طور پر پیش کرتا ہے؟
جواب: بالکل نہیں، معاملات توڑمروڑ کر پیش کرنا بھارتی میڈیا کا وتیرہ بن چکا۔ مثال کے طور پر مجھے ہی لیجیے۔ میں نے نئی دہلی کے ایک قومی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسلام ظلم وزیادتی کرنے والوں کے خلاف جہاد کی اجازت دیتا ہے۔

اخبار نے اس بات کو یوں پیش کیا جیسے میں کشمیری نوجوانوں کو بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی دعوت دے رہا ہوں۔ مگر میں نے جہاد کی بات کیوں کی، بھارتی قومی اخبار اس وجہ کو گول کر گیا۔کشمیر میں بھارتی حکمرانوں سے نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے ہمارے بچوں، بھائیوں اور بیٹوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ وہ بہانے بہانے سے ہم کشمیریوں پر ظلم ڈھاتی ہیں۔ بھارتی حکمران کشمیریوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، اسی لیے ان کے خلاف ظالمانہ پالیسیاں بنتی ہیں۔ کشمیری اسی سرکاری دہشت گردی کے باعث جنگجوئی کی طرف مائل ہوئے اور بھارتی سکیورٹی فورسز سے مقابلہ کرنے لگے۔ کشمیری نوجوانوں کو آئے دن ٹارچر اور بے عزتی سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسی بات نے انہیں گولی کی زبان بولنے پر مائل کیا۔ جب کہیں آگ لگ جائے تو اس پر پانی ڈالا جاتا ہے مگر بھارتی حکمران کشمیر میں لگی آگ پر پٹرول چھڑک دیتے ہیں۔

سوال: آپ کے دو بیٹے شہید ہو چکے مگر آپ پرسکون اور شانت دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: میں اسی بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے۔ چناںچہ میرے دونوں بیٹے اللہ کی بارگاہ میں زندہ سلامت ہیں۔ یہی نہیں، وہ اونچا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ دوسرے میں ذہنی طور پر دونوں بیٹوں کی شہادت کے لیے تیار تھا۔ دونوں نے جو راستہ چنا وہ شہادت کی منزل تک پہنچ کر ہی ختم ہوتا ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر بیٹے بچھڑنے سے میں غمگین نہیں ہوا ورنہ بے انتہا غم مجھے کسی کام کا نہ چھوڑتا۔(یاد رہے اگست 2015ء میں خالد وانی اپنے بھائی برہان سے ملنے ترال کے جنگل میں گئے۔ دوران راہ بھارتی فوجیوں نے انہیں اغوا کر لیا اور پھر بے پناہ تشدد کے بعد شہید کر ڈالا۔)

سوال: برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی پر کیسے اثرات مرتب کیے؟
جواب: مجھے خوشی ہے کہ برہان اپنے کہے پر پورا اترا۔ اس نے کئی بار مجھے کہا تھا کہ وہ جان دیدے گا مگر زندہ دشمن کے ہاتھ نہیں لگے گا۔ میں سمجھتا ہوں اگر بھارتی فوج برہان کو زندہ گرفتار کر لیتی تو تحریک آزادی کو نقصان پہنچتا اور وہ نیم مردہ ہو جاتی لیکن اس نے تحریک کے برگ وثمن کو اپنے لہو سے سیراب کر دیا۔ اب کشمیر کی گلی گلی میں نئے برہان وانی جنم لیں گے۔مجھے بے پناہ خوشی ہے کہ برہان نے سینے پر گولیاں کھائیں اور بہادری سے لڑتے ہوئے موت کو گلے لگایا۔ اگر اسے کمر یا ٹانگوں پر گولیاں لگتیں تو یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ فرار ہوتے ہوئے شہید ہوا یا زندہ پکڑا جاتا تو بھارتی میڈیا یہ افواہ پھیلا دیتا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے شہید کر کے بھارتی حکمرانوں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔

سوال: عام کشمیریوں میں برہان وانی کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
جواب: میرا بیٹا بہت رحم دل، دوسروں کے دکھ درد بانٹنے والا اور حساس انسان تھا۔ پیدائشی لیڈر اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ ترال کے جنگل میں کبھی ٹک کر نہیں بیٹھا، پوری وادی میں گھومتا پھرتا تھا۔ عام کشمیریوں کو آزادی کی برکات سے آگاہ کرتا اور ان کی مشکلات دور کرنے میں لگا رہتا۔ اسی لیے جب وہ شہید ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندی پورہ اور بارہ مولا جیسے دوردراز علاقوں سے کشمیری مجھ سے تعزیت کرنے آ رہے ہیں۔برہان بچپن سے پڑھائی میں آگے تھا اور ہمیشہ جماعت میں اول آتا۔ کھیلوں کی دنیا میں بھی اس کا طوطی بولتا تھا۔ محض چودہ سال کا تھا تو محلے کی ایسی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن گیا جس میں اس سے دگنی عمر کے لڑکے شامل تھے۔ جب وہ میدان جہاد میں اترا تو شہید ہونا اس کی سب سے بڑی تمنا بن گئی۔ وہ اکثر اپنی ماں سے کہا کرتا ''میں کشمیر کا آخری شہید بننا چاہتا ہوں' تاکہ میری بدولت مادر وطن آزاد ہو جائے۔''اس کی شہادت سے قبل کشمیری عوام حالت نیند میں تھے، برہان نے جان کی قربانی دے کر انہیں بیدار کردیا۔ انہیں اب احساس ہوچکا کہ بھارتی حکمرانوں نے انہیں غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا انہیں غلامی کی زنجیریں توڑنا ہوں گی۔

سوال: کشمیر کی نئی نسل احتجاج میں آگے آگے ہے۔ اس بابت آپ کیا کہیں گے؟
جواب: مجھے اعتراف ہے کہ میری نسل کچھ بزدل تھی۔ ہم بندوق کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔ مگر اب دس بارہ سال کے بچے ہاتھوں میں پتھر لیے بھارتی فوج سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وجہ یہ کہ کشمیر کی نئی نسل اردگرد بندوقیں، مارپیٹ اور لڑائی دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہے۔ انہوں نے شہدا کی لاشیں دیکھی اور ماؤں بہنوں کی چیخیں سنی ہیں۔ اب وہ بھارتی حکمرانوں کا ظلم و ستم برداشت نہیں کرسکتے، اسی لیے مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔

سوال: مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟
جواب: اس کا واحد حل یہ ہے کہ بھارت، پاکستان اور کشمیری لیڈر مذاکرات کرکے قابل قبول حل نکال لیں۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو بھارت، پاکستان اور کشمیر ...تینوں علاقوں میں لوگ امن و سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں