بُک شیلف
علم و دانش کے موتیوں کو سمویا یہ سہ ماہی جریدہ کل 76 واں شمارہ ہے۔
CAIRO:
آواز پا
مصنف: نجم الحسن رضوی
صفحات: 258، قیمت: 500 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
لکھنے والے جب اپنی جیون کتھا قلم بند کرنے بیٹھتے ہیں، تو یہ بھی ایک عجب داستان بن جاتی ہے۔ جس میں ان کے مداحوں کے لیے مصنف کی ذاتی زندگی کا بیان دل چسپی کا سامان لیے ہوتا ہے، تو دیگر قارئین اور طلبہ کے لیے یہ بطور حوالہ اور سند، مفید ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں بہت سے ایسے تاریخی واقعات اور شواہد مل جاتے ہیں، جو دیگر کتب میں موجود نہیں ہوتے۔ زیر تبصرہ کتاب تجربے کار ادیب نجم الحسن رضوی کی خود نوشت ہے، جس میں ان کے بچپن سے تعلیم اور پیشہ ورانہ سفر کا مکمل احوال درج ہے۔ 12 ابواب تک دراز اس کتاب کو مزید مختصر ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے۔
کبھی داستاں سرحد کے اُس پار مصنف کی جنم بھومی (بلند، اترپردیش) کی طرف نکل جاتی ہے تو کبھی سکھر اور حیدرآباد کی گلی کوچوں میں گشت کرتی ہے، اور کبھی شہر قائد میں رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ کتاب کے پس ورق پر سید مظہر جمیل رقم طراز ہیں کہ ''اس میں صرف ان کی ذاتی زندگی کے نمایاں اور یادگار لمحے ہی نہیں سمٹ آئے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ ہمارے ادب، سماج، سیاست اور صحافت کے بھی کتنے ہی اہم واقعات اور ادوار کا ایک نقشہ مرتب ہو گیا ہے۔''
لوبان سلگ اٹھے
مصنف: سعادت نسرین
صفحات: 400، قیمت: 500 روپے
ناشر: ویلکم بک پورٹ
یوں تو ہر لکھاری ہی اپنے گردوپیش اور حالات وواقعات سے ہی متاثر ہو کر قلم آزمائی کرتا ہے، مگر کچھ کرداروں اور موضوعات کا ماخذ براہ راست ہمیں اپنے اردگرد سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی تصنیف ہے جس میں سات ناولچوں کو یک جا کیا گیا ہے۔
ہمارے سماج اور گھریلو زندگی میں گندھی ان تحریروں میں اکثر جگہوں پر مکالماتی انداز اپنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں کہ سعادت نسرین کا شمار ان لکھنے والوں میں ہوتا ہے جن کا ہاتھ قارئین کی نبض پر رہتا ہے۔ وہ اپنی عمر کی اس منزل میں ہیں،جہاں کوئی پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس نے زندگی کو گزارا ہی نہیں، برتا بھی ہے۔ انہوںنے معاشرے سے بہت کچھ لیا ہے تو کچھ دیا بھی ہے، جو ادراک کے نئے دریچے وا کر کے احساس کو مہیمز کرتا ہے۔ مصنفہ اس سے قبل چھے ناول اور دو افسانوں کے مجموعے بھی تخلیق کر چکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب مجلدہے اور سفید کاغذ پر عمدہ طباعت سے آراستہ کی گئی ہے۔
سہ ماہی 'تجزیات'
مدیر: محمد عامر رانا
صفحات: 160، قیمت: 100 روپے
ناشر: روحانی آرٹ پریس، اسلام آباد
علم و دانش کے موتیوں کو سمویا یہ سہ ماہی جریدہ کل 76 واں شمارہ ہے۔ ورق گردانی کریںتو اس کی لوح پر درج ''علمی، فکری مباحث پر مبنی تحقیقی جریدہ'' پر پورا اترتا ہے۔ شہر اقتدار سے طلوع ہونے والے اس شمارے میں سماج میں جاری تشدد کی لہر، تقسیم اور سیاسی اور سماجی رویوں کے حوالے سے سنجیدہ علمی مواد شامل کیا گیا ہے، جسے نقطئہ نظر، قومی منظر نامہ، مطالعہ پاکستان اور عالم اسلام کے زمروں میں بانٹا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اخر میں ایک حصہ رپورتاژ کے لیے بھی مختص ہے۔ ہر مضمون کے ابتدا میں مدیر کی طرف سے لکھے گئے شذرے میں مضمون پر تبصرہ یا اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اعدادو شمار اور مدلل انداز تحریر ان مضامین کا خاصہ ہے۔ کچھ مضامین ترجمہ کر کے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ محمد عامر رانا کی ادارت میں شایع ہونے والے اس جریدے کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر قبلہ ایاز، فرزانہ باری، ڈاکٹر انور نسیم، وسعت اللہ خان، خورشید ندیم اور حارث خلیق شامل ہیں۔ پس ورق پر گلزار کی نظم وراثت شایع کی گئی ہے، جب کہ دونوں اندرونی سرورق پر کتابوں کے تعارف کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پورے رسالے میں کوئی اشتہار موجود نہیں۔ علمی فکر اور استدلالی سوچ کے حامل افراد کے لیے سہ ماہی تجزیات سوچ وفکر کے نئے در وا کرتا ہے۔
چھیڑ چھاڑ
مصنف: عزیز جبران انصاری
صفحات: 208، قیمت: 500 روپے
ناشر: جبران اشاعت گھر، کراچی
اس کتاب سے قبل مصنف کی 20 تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں شاعری کے علاوہ افسانے، کالموں کے مجموعہ اور روموز شاعری وغیرہ شامل ہیں۔ مزید چار کتب زیر تصنیف ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب طنزیہ غزلیات اور قطعات پر مشتمل ہے۔ جس کے ابتدائی 43 صفحات اندرونی سرورق، تعارفِ مصنف اور کتاب پر تبصروں کے لیے مختص ہیں۔
پروفیسر عنایت علی خان رقم طراز ہیں کہ مصنف حساس قلب کے مالک ہیں، ماحول اور معاشرے کی بے اعتدالیوں پر بھڑک اٹھتے ہیں اور اس کا دوٹوک اظہار بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی لکھتے ہیں کہ ایک باشعور اور باخبر قلم کار کے طور پر پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اپنے کلام میں بدعنوانی، اقربا پروری ، ریاکاری، بے حسی، قانون شکنی وغیرہ کا خوب احاطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں سرفراز شاہد، نسیم سحر اور معراج جامی کی آرا بھی شامل کی گئی ہیں۔
آواز پا
مصنف: نجم الحسن رضوی
صفحات: 258، قیمت: 500 روپے
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
لکھنے والے جب اپنی جیون کتھا قلم بند کرنے بیٹھتے ہیں، تو یہ بھی ایک عجب داستان بن جاتی ہے۔ جس میں ان کے مداحوں کے لیے مصنف کی ذاتی زندگی کا بیان دل چسپی کا سامان لیے ہوتا ہے، تو دیگر قارئین اور طلبہ کے لیے یہ بطور حوالہ اور سند، مفید ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں بہت سے ایسے تاریخی واقعات اور شواہد مل جاتے ہیں، جو دیگر کتب میں موجود نہیں ہوتے۔ زیر تبصرہ کتاب تجربے کار ادیب نجم الحسن رضوی کی خود نوشت ہے، جس میں ان کے بچپن سے تعلیم اور پیشہ ورانہ سفر کا مکمل احوال درج ہے۔ 12 ابواب تک دراز اس کتاب کو مزید مختصر ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے۔
کبھی داستاں سرحد کے اُس پار مصنف کی جنم بھومی (بلند، اترپردیش) کی طرف نکل جاتی ہے تو کبھی سکھر اور حیدرآباد کی گلی کوچوں میں گشت کرتی ہے، اور کبھی شہر قائد میں رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ کتاب کے پس ورق پر سید مظہر جمیل رقم طراز ہیں کہ ''اس میں صرف ان کی ذاتی زندگی کے نمایاں اور یادگار لمحے ہی نہیں سمٹ آئے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ ہمارے ادب، سماج، سیاست اور صحافت کے بھی کتنے ہی اہم واقعات اور ادوار کا ایک نقشہ مرتب ہو گیا ہے۔''
لوبان سلگ اٹھے
مصنف: سعادت نسرین
صفحات: 400، قیمت: 500 روپے
ناشر: ویلکم بک پورٹ
یوں تو ہر لکھاری ہی اپنے گردوپیش اور حالات وواقعات سے ہی متاثر ہو کر قلم آزمائی کرتا ہے، مگر کچھ کرداروں اور موضوعات کا ماخذ براہ راست ہمیں اپنے اردگرد سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی تصنیف ہے جس میں سات ناولچوں کو یک جا کیا گیا ہے۔
ہمارے سماج اور گھریلو زندگی میں گندھی ان تحریروں میں اکثر جگہوں پر مکالماتی انداز اپنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں کہ سعادت نسرین کا شمار ان لکھنے والوں میں ہوتا ہے جن کا ہاتھ قارئین کی نبض پر رہتا ہے۔ وہ اپنی عمر کی اس منزل میں ہیں،جہاں کوئی پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس نے زندگی کو گزارا ہی نہیں، برتا بھی ہے۔ انہوںنے معاشرے سے بہت کچھ لیا ہے تو کچھ دیا بھی ہے، جو ادراک کے نئے دریچے وا کر کے احساس کو مہیمز کرتا ہے۔ مصنفہ اس سے قبل چھے ناول اور دو افسانوں کے مجموعے بھی تخلیق کر چکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب مجلدہے اور سفید کاغذ پر عمدہ طباعت سے آراستہ کی گئی ہے۔
سہ ماہی 'تجزیات'
مدیر: محمد عامر رانا
صفحات: 160، قیمت: 100 روپے
ناشر: روحانی آرٹ پریس، اسلام آباد
علم و دانش کے موتیوں کو سمویا یہ سہ ماہی جریدہ کل 76 واں شمارہ ہے۔ ورق گردانی کریںتو اس کی لوح پر درج ''علمی، فکری مباحث پر مبنی تحقیقی جریدہ'' پر پورا اترتا ہے۔ شہر اقتدار سے طلوع ہونے والے اس شمارے میں سماج میں جاری تشدد کی لہر، تقسیم اور سیاسی اور سماجی رویوں کے حوالے سے سنجیدہ علمی مواد شامل کیا گیا ہے، جسے نقطئہ نظر، قومی منظر نامہ، مطالعہ پاکستان اور عالم اسلام کے زمروں میں بانٹا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اخر میں ایک حصہ رپورتاژ کے لیے بھی مختص ہے۔ ہر مضمون کے ابتدا میں مدیر کی طرف سے لکھے گئے شذرے میں مضمون پر تبصرہ یا اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اعدادو شمار اور مدلل انداز تحریر ان مضامین کا خاصہ ہے۔ کچھ مضامین ترجمہ کر کے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ محمد عامر رانا کی ادارت میں شایع ہونے والے اس جریدے کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر قبلہ ایاز، فرزانہ باری، ڈاکٹر انور نسیم، وسعت اللہ خان، خورشید ندیم اور حارث خلیق شامل ہیں۔ پس ورق پر گلزار کی نظم وراثت شایع کی گئی ہے، جب کہ دونوں اندرونی سرورق پر کتابوں کے تعارف کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پورے رسالے میں کوئی اشتہار موجود نہیں۔ علمی فکر اور استدلالی سوچ کے حامل افراد کے لیے سہ ماہی تجزیات سوچ وفکر کے نئے در وا کرتا ہے۔
چھیڑ چھاڑ
مصنف: عزیز جبران انصاری
صفحات: 208، قیمت: 500 روپے
ناشر: جبران اشاعت گھر، کراچی
اس کتاب سے قبل مصنف کی 20 تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں شاعری کے علاوہ افسانے، کالموں کے مجموعہ اور روموز شاعری وغیرہ شامل ہیں۔ مزید چار کتب زیر تصنیف ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب طنزیہ غزلیات اور قطعات پر مشتمل ہے۔ جس کے ابتدائی 43 صفحات اندرونی سرورق، تعارفِ مصنف اور کتاب پر تبصروں کے لیے مختص ہیں۔
پروفیسر عنایت علی خان رقم طراز ہیں کہ مصنف حساس قلب کے مالک ہیں، ماحول اور معاشرے کی بے اعتدالیوں پر بھڑک اٹھتے ہیں اور اس کا دوٹوک اظہار بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی لکھتے ہیں کہ ایک باشعور اور باخبر قلم کار کے طور پر پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اپنے کلام میں بدعنوانی، اقربا پروری ، ریاکاری، بے حسی، قانون شکنی وغیرہ کا خوب احاطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں سرفراز شاہد، نسیم سحر اور معراج جامی کی آرا بھی شامل کی گئی ہیں۔