مقبوضہ کشمیر بھارت کا کھیل ختم
کشمیری قوم تیزی سے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ریفرنڈم کی طرف بڑھ رہی ہےجس میں وہ تین آپشنزمیں سےکسی ایک کاانتخاب کرے گی
برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہاہے، وہ بھارتی حکومت کے لئے حیران کن اور پریشان کن ہے۔ برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت سے بھارتی حکومت مبہوت رہ گئی ، اس کے بعد قابض فوج کو یہ درد سر لاحق ہوا کہ پاکستانی پرچم تھامے ہزاروں نوجوانوں کے غیرمعمولی بڑے مظاہرے رکنے میں نہیں آرہے تھے۔
ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر موجود ہیں، انھوں نے کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے باہر آنے سے روکنے کی ہرممکن تدبیر کی لیکن ہر تدبیر ہی ناکام رہی۔ اس قدر بڑی تعداد میں نوجوانوں کی مظاہروں میں شرکت پہلے کبھی نظر نہیں آتی تھی اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں اس قدر بڑے پیمانے پر پاکستانی پرچم لہرا ئے گئے۔ بھارتی فوج کی طرف سے نافذ کئے جانے والے بدترین کرفیو اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود یہ مظاہرے تھم نہ سکے، سیکورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ ہوتی ، ان پر چَھرے دار بندوقیں استعمال ہوتیں جن سے مظاہرین کا پورا جسم چھلنی ہوتا بالخصوص ان کی آنکھیں شدید متاثر ہوتیں، ردعمل میں مظاہرین سیکورٹی فورسز پر پتھراؤکرتے۔
ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، لیکن کشمیری سڑکوں پر نکلتے ہیں، بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ نوجوانوں کے تصادم ہوتے ہیں، بھارت کے کٹھ پتلی سیاست دانوں کے گھروں پر حملے ہورہے ہیں۔ مثلاً شوپیاں میں مقبوضہ کشمیر کی ''حکمران'' پارٹی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی محمد یوسف بھٹ کے گھر پرحملہ ہوا، اس سے پہلے ریاستی وزیرتعلیم نعیم اختر کے گھر پر پٹرول بموں سے حملہ ہوا۔کشمیری نوجوان کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی کے تمام ارکان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی رکنیت سے استعفے دیں بلکہ اپنی جماعتوں سے بھی لاتعلقی اختیار کریں جو بھارت نواز ہیں۔کشمیریوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ ختم کرے۔
مقبوضہ کشمیر کے منظرنامے پر نظر ڈالنے سے بخوبی نظرآرہاہے کہ اب کشمیری اپنا مطالبہ پورا کروا کے رہیں گے، اس سے کم کسی بھی بات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیریوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ بھارتی فوج جہاں بھی نوجوانوں کو گرفتار کرنے پہنچے، اس کے خلاف گھروں سے باہر نکل آئیں اور دھرنا دیں۔اس سارے تناظر میں بھارت کی مودی سرکار کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ کیسے برقرار رکھے کیونکہ پوری ریاست عملی طورپر بھارت نواز سرکار کے قابو میں نہیں رہی۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی انتظامیہ برہان وانی شہید سے محبت کرنے والی کشمیری قوم سے سخت خوفزدہ ہے۔
بھارت کے کٹھ پتلی سیاست دان شکوہ کناں تھے کہ برہان وانی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چپ سادھ رکھی تھی، پھر جب نریندر مودی نے پارلیمان میں اس مسئلے پر لب کھولے تو اپنی ظالمانہ کشمیر پالیسی کا دفاع کیا۔ تاہم پارلیمان کے بعض ارکان نے اپنی تقریروں میں مظاہرین پر چَھرے دار بندوقیں استعمال کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ مثلاًبھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے کانگریسی رکن اور سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے نہ صرف مظاہرین پر چھرے دار بندوقوں کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کیا بلکہ پوری وادی کشمیر سے 'افسپا' کا کالا قانون ہٹانے کو بھی کہا۔انھوں نے کہا کہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں اس قدر طویل کرفیو نافذ نہیں رہا۔
بھارتی ریاست ہریانہ میں زیادہ بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے لیکن وہاں چھرے دار بندوقیں استعمال نہ ہوئیں۔ وہاں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے صرف واٹرکینن استعمال ہوئی، انھوں نے پارلیمان سے سوال کیا کہ یہی تدبیر کشمیر میں کیوں اختیار نہ کی گئی؟کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ (سی پی آئی ایم) کے سیتا رام یچوری نے بھی ایک ماہ طویل کرفیو نافذ کرنے پر کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چَھرے دار بندوقوں کا استعمال غیرانسانی اور مجرمانہ ہے۔ انھوں نے کہا:'' اسرائیل بھی فلسطینیوں کے خلاف ایسی بندوقیں استعمال نہیں کرتا''۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ' ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے بھی بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر فی الفورپابندی لگائے، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس نہیں ہوناچاہئے۔ مختلف ہسپتالوں کی انتظامیہ کے مطابق اب تک 100سے زائد افراد کی آنکھیں چَھرے لگنے سے ضائع ہوچکی ہیں، انھیں نہایت قریب سے نشانہ بنایاگیا جبکہ چھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اگرچہ21 جولائی کو بھارتی وزارت داخلہ نے بیان جاری کیاتھا کہ وہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر نظرثانی کررہی ہے تاہم یہ بیان جھوٹی طفل تسلی ثابت ہوا کیونکہ بھارتی سیکورٹی فورسز نہ صرف چَھرے داربندوقوں کا مسلسل استعمال کرتی رہی بلکہ مختلف فورموں پر اس ظالمانہ ہتھیار کا دفاع بھی کر رہی ہیں۔
سنٹرل ریزو پولیس فورس نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں بیان جمع کرایا ہے کہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے اہلکار مظاہرین پر گولیاں برسائیں گے جس سے مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔اس سے قبل جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ چھرے دار بندوقیں ایک ایسی برائی ہے جو ناگزیر ہے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی( جے کے سی سی ایس) کے پروگرام ڈائریکٹر خرم پرویز کا کہناہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز اب بھی چھرے دار بندوقیں استعمال کررہی ہیں۔ سنٹرل ریزو پولیس فورس نے اعتراف کیا کہ انھوں نے سترہ لاکھ چھرے مظاہرین پر برسائے۔
چھرے دار بندوقوں کے خلاف 'کشمیر بلائنڈ سپاٹ' کے نام سے ایک مہم بھی چلائی جارہی ہے، اس کے منتظمین نے پوری دنیا کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو خطوط اور ای میلز بھیجیں اور سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو خوب نمایاں کریں۔ ان کا کہناہے:'' ہم دنیا کی توجہ کشمیر کی کہانی کی طرف دلا رہے ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا نے کشمیر کی طرف سے نظریں چرائی ہوئی ہیں۔جب کشمیر کا معاملہ آتاہے تو دنیا کی بینائی ختم ہوجاتی ہے۔
اگرچہ چَھرے دار بندوقوں سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں تاہم سن 2010ء سے اب تک ان بندوقوں سے 10افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے مریضوں کی اکثریت آئی جن کی آنکھیں چَھرے دار بندوقوں سے متاثر ہوئی تھیں۔ 90افراد کی آنکھوں، پیشانی، کمر اور پیٹ کے آپریشن کئے گئے۔ بعض مریض ایسے بھی تھے کہ ان کے مختلف النوع آپریشن کرنے پڑے، ان کے زخم دہشت زدہ کرنے والے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں انسانوں پر چَھرے دار بندوقیں چلائی جارہی ہیں ورنہ پوری دنیا میں مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس غیرمہلک ہتھیار استعمال کرتی ہے۔
کشمیری قوم پر بدترین بھارتی مظالم کے سبب بھارت پوری دنیا کی طرف سے غیظ وغضب کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کشمیریوں پر مظالم کا نوٹس لیا ہے ، انھوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کریں گے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
اسی اثنا میں ریاست جموں وکشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کی تقریر نے قابض بھارت کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے اور بھارتی راجیہ سبھا کے رکن ڈاکٹر کرن سنگھ نے کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ قراردینے والی بھارتی حکومت سے کہا کہ کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا، ذرا کوئی یہ تو بتائے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ کیسے بن گیا؟ ڈاکٹر کرن سنگھ نے راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے انگریز گورنر جنرل کی ملی بھگت اور سودے بازی کا نتیجہ آج تک بھارتی مظالم کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کشمیر کو بھارتی ریاست کہنے کے دعوؤں کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ''اس معاہدے کے گواہ ہیں، کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کبھی تھا نہ ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کا کہنا تھا جب ان کے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے تو وہ بھی اس کمرے میں موجود تھے ، اس دستاویز کے مطابق بھارت کے ساتھ صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور پر الحاق ہوا، باقی تمام معاملات ریاست کے اپنے تھے اور ہیں''۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھارتی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کو یاد دلایا کہ باقی تمام ریاستیں تو بھارت میں ضم ہوگئیں لیکن کشمیر کبھی بھارت میں ضم نہیں ہوا اور بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اس کا ثبوت ہے۔ انھوں نے کہا:'' بھارت صرف کشمیر کے رقبہ پر دعویدار ہے اور آج تک بھارت نے کشمیریوں کو اپنا نہیں سمجھا ورنہ کشمیر میں 41 دن سے جو ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا''۔مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ بیان بھی بھارت کے لئے کم پریشان کن نہیں ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ''مقبوضہ وادی کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان نہیں، بھارت ہے''۔کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی بھی بھارتی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ کشمیری عوام سے بات چیت کا دروازہ کھولے۔محبوبہ نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت شروع کرنے کا اشارہ دیا اور کہا کہ ریاست دونوں ملکوں کے درمیان پل کا کام کرسکتی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما مقبوضہ کشمیر میں جاری بحران کا نہایت آسان حل پیش کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کا اپنا وعدہ پورا کرے، وہ کشمیری قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے، یہ ایک جمہوری حل ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پیلٹ( چَھرے دار بندوقوں) سے حل کیا جاسکتاہے نہ بُلٹ کے ذریعے، یہ صرف اور صرف بیلٹ کے ذریعے حل کیا جاسکتاہے۔ چئیرمین کل جماعتی حریت کانفرنس سیدعلی شاہ گیلانی کا کہناہے کہ بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کو ایک بڑے ذبح خانے میں تبدیل کر دیاہے جہاں لوگ بالخصوص نوجوان روزانہ قتل کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 82 کشمیریوں کو شہید کیاگیا۔انھوں نے کہا کہ وہ اس ظلم اور وحشت کے خلاف ہرمحاذ پر لڑیں گے۔
کشمیر کی تازہ صورت حال کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ بھارت نے گزشتہ 69 برسوں میں کشمیر کے مسئلہ کی بین الاقوامی حیثیت ختم کرنے کی بھرپورکوشش کی اور اس میں قدرے کامیابی بھی حاصل کی۔ اقوام متحدہ نے تقسیم برصغیر کے فوراً بعد کشمیریوں کی مرضی( استصواب رائے) سے یہ مسئلہ حل کرنے کو کہاتھا۔ بعدازاں بھارت نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ حل کرلے گا تاہم جب بھی میز بچھائی جاتی، بھارت فرار ہوجاتاتھا۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیاہے جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سخت پریشان کن ہے۔ اب تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری سیاست دان بھی ''کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے'' والے راگ میں بھارت کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ایسا لگ رہاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا کھیل ختم ہوچکا ہے، کشمیری قوم تیزی سے ایک ایسے ریفرنڈم کی طرف بڑھ رہی ہے جو اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ہوگا اور جس میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انھیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرناہے یا بھارت کے ساتھ یا پھر وہ ایک خودمختار ریاست کی صورت میں زندگی بسر کریں گے۔
ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر موجود ہیں، انھوں نے کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے باہر آنے سے روکنے کی ہرممکن تدبیر کی لیکن ہر تدبیر ہی ناکام رہی۔ اس قدر بڑی تعداد میں نوجوانوں کی مظاہروں میں شرکت پہلے کبھی نظر نہیں آتی تھی اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں اس قدر بڑے پیمانے پر پاکستانی پرچم لہرا ئے گئے۔ بھارتی فوج کی طرف سے نافذ کئے جانے والے بدترین کرفیو اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود یہ مظاہرے تھم نہ سکے، سیکورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ ہوتی ، ان پر چَھرے دار بندوقیں استعمال ہوتیں جن سے مظاہرین کا پورا جسم چھلنی ہوتا بالخصوص ان کی آنکھیں شدید متاثر ہوتیں، ردعمل میں مظاہرین سیکورٹی فورسز پر پتھراؤکرتے۔
ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، لیکن کشمیری سڑکوں پر نکلتے ہیں، بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ نوجوانوں کے تصادم ہوتے ہیں، بھارت کے کٹھ پتلی سیاست دانوں کے گھروں پر حملے ہورہے ہیں۔ مثلاً شوپیاں میں مقبوضہ کشمیر کی ''حکمران'' پارٹی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی محمد یوسف بھٹ کے گھر پرحملہ ہوا، اس سے پہلے ریاستی وزیرتعلیم نعیم اختر کے گھر پر پٹرول بموں سے حملہ ہوا۔کشمیری نوجوان کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی کے تمام ارکان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی رکنیت سے استعفے دیں بلکہ اپنی جماعتوں سے بھی لاتعلقی اختیار کریں جو بھارت نواز ہیں۔کشمیریوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ ختم کرے۔
مقبوضہ کشمیر کے منظرنامے پر نظر ڈالنے سے بخوبی نظرآرہاہے کہ اب کشمیری اپنا مطالبہ پورا کروا کے رہیں گے، اس سے کم کسی بھی بات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیریوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ بھارتی فوج جہاں بھی نوجوانوں کو گرفتار کرنے پہنچے، اس کے خلاف گھروں سے باہر نکل آئیں اور دھرنا دیں۔اس سارے تناظر میں بھارت کی مودی سرکار کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ کیسے برقرار رکھے کیونکہ پوری ریاست عملی طورپر بھارت نواز سرکار کے قابو میں نہیں رہی۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی انتظامیہ برہان وانی شہید سے محبت کرنے والی کشمیری قوم سے سخت خوفزدہ ہے۔
بھارت کے کٹھ پتلی سیاست دان شکوہ کناں تھے کہ برہان وانی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چپ سادھ رکھی تھی، پھر جب نریندر مودی نے پارلیمان میں اس مسئلے پر لب کھولے تو اپنی ظالمانہ کشمیر پالیسی کا دفاع کیا۔ تاہم پارلیمان کے بعض ارکان نے اپنی تقریروں میں مظاہرین پر چَھرے دار بندوقیں استعمال کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ مثلاًبھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے کانگریسی رکن اور سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے نہ صرف مظاہرین پر چھرے دار بندوقوں کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کیا بلکہ پوری وادی کشمیر سے 'افسپا' کا کالا قانون ہٹانے کو بھی کہا۔انھوں نے کہا کہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں اس قدر طویل کرفیو نافذ نہیں رہا۔
بھارتی ریاست ہریانہ میں زیادہ بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے لیکن وہاں چھرے دار بندوقیں استعمال نہ ہوئیں۔ وہاں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے صرف واٹرکینن استعمال ہوئی، انھوں نے پارلیمان سے سوال کیا کہ یہی تدبیر کشمیر میں کیوں اختیار نہ کی گئی؟کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ (سی پی آئی ایم) کے سیتا رام یچوری نے بھی ایک ماہ طویل کرفیو نافذ کرنے پر کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چَھرے دار بندوقوں کا استعمال غیرانسانی اور مجرمانہ ہے۔ انھوں نے کہا:'' اسرائیل بھی فلسطینیوں کے خلاف ایسی بندوقیں استعمال نہیں کرتا''۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ' ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے بھی بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر فی الفورپابندی لگائے، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس نہیں ہوناچاہئے۔ مختلف ہسپتالوں کی انتظامیہ کے مطابق اب تک 100سے زائد افراد کی آنکھیں چَھرے لگنے سے ضائع ہوچکی ہیں، انھیں نہایت قریب سے نشانہ بنایاگیا جبکہ چھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اگرچہ21 جولائی کو بھارتی وزارت داخلہ نے بیان جاری کیاتھا کہ وہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر نظرثانی کررہی ہے تاہم یہ بیان جھوٹی طفل تسلی ثابت ہوا کیونکہ بھارتی سیکورٹی فورسز نہ صرف چَھرے داربندوقوں کا مسلسل استعمال کرتی رہی بلکہ مختلف فورموں پر اس ظالمانہ ہتھیار کا دفاع بھی کر رہی ہیں۔
سنٹرل ریزو پولیس فورس نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں بیان جمع کرایا ہے کہ چَھرے دار بندوقوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے اہلکار مظاہرین پر گولیاں برسائیں گے جس سے مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔اس سے قبل جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ چھرے دار بندوقیں ایک ایسی برائی ہے جو ناگزیر ہے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی( جے کے سی سی ایس) کے پروگرام ڈائریکٹر خرم پرویز کا کہناہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز اب بھی چھرے دار بندوقیں استعمال کررہی ہیں۔ سنٹرل ریزو پولیس فورس نے اعتراف کیا کہ انھوں نے سترہ لاکھ چھرے مظاہرین پر برسائے۔
چھرے دار بندوقوں کے خلاف 'کشمیر بلائنڈ سپاٹ' کے نام سے ایک مہم بھی چلائی جارہی ہے، اس کے منتظمین نے پوری دنیا کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو خطوط اور ای میلز بھیجیں اور سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو خوب نمایاں کریں۔ ان کا کہناہے:'' ہم دنیا کی توجہ کشمیر کی کہانی کی طرف دلا رہے ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا نے کشمیر کی طرف سے نظریں چرائی ہوئی ہیں۔جب کشمیر کا معاملہ آتاہے تو دنیا کی بینائی ختم ہوجاتی ہے۔
اگرچہ چَھرے دار بندوقوں سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں تاہم سن 2010ء سے اب تک ان بندوقوں سے 10افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے مریضوں کی اکثریت آئی جن کی آنکھیں چَھرے دار بندوقوں سے متاثر ہوئی تھیں۔ 90افراد کی آنکھوں، پیشانی، کمر اور پیٹ کے آپریشن کئے گئے۔ بعض مریض ایسے بھی تھے کہ ان کے مختلف النوع آپریشن کرنے پڑے، ان کے زخم دہشت زدہ کرنے والے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں انسانوں پر چَھرے دار بندوقیں چلائی جارہی ہیں ورنہ پوری دنیا میں مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس غیرمہلک ہتھیار استعمال کرتی ہے۔
کشمیری قوم پر بدترین بھارتی مظالم کے سبب بھارت پوری دنیا کی طرف سے غیظ وغضب کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کشمیریوں پر مظالم کا نوٹس لیا ہے ، انھوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کریں گے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
اسی اثنا میں ریاست جموں وکشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کی تقریر نے قابض بھارت کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے اور بھارتی راجیہ سبھا کے رکن ڈاکٹر کرن سنگھ نے کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ قراردینے والی بھارتی حکومت سے کہا کہ کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا، ذرا کوئی یہ تو بتائے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ کیسے بن گیا؟ ڈاکٹر کرن سنگھ نے راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے انگریز گورنر جنرل کی ملی بھگت اور سودے بازی کا نتیجہ آج تک بھارتی مظالم کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کشمیر کو بھارتی ریاست کہنے کے دعوؤں کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ''اس معاہدے کے گواہ ہیں، کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کبھی تھا نہ ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کا کہنا تھا جب ان کے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے تو وہ بھی اس کمرے میں موجود تھے ، اس دستاویز کے مطابق بھارت کے ساتھ صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور پر الحاق ہوا، باقی تمام معاملات ریاست کے اپنے تھے اور ہیں''۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھارتی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کو یاد دلایا کہ باقی تمام ریاستیں تو بھارت میں ضم ہوگئیں لیکن کشمیر کبھی بھارت میں ضم نہیں ہوا اور بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اس کا ثبوت ہے۔ انھوں نے کہا:'' بھارت صرف کشمیر کے رقبہ پر دعویدار ہے اور آج تک بھارت نے کشمیریوں کو اپنا نہیں سمجھا ورنہ کشمیر میں 41 دن سے جو ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا''۔مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا یہ بیان بھی بھارت کے لئے کم پریشان کن نہیں ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ''مقبوضہ وادی کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان نہیں، بھارت ہے''۔کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی بھی بھارتی حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ کشمیری عوام سے بات چیت کا دروازہ کھولے۔محبوبہ نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت شروع کرنے کا اشارہ دیا اور کہا کہ ریاست دونوں ملکوں کے درمیان پل کا کام کرسکتی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما مقبوضہ کشمیر میں جاری بحران کا نہایت آسان حل پیش کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کا اپنا وعدہ پورا کرے، وہ کشمیری قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے، یہ ایک جمہوری حل ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پیلٹ( چَھرے دار بندوقوں) سے حل کیا جاسکتاہے نہ بُلٹ کے ذریعے، یہ صرف اور صرف بیلٹ کے ذریعے حل کیا جاسکتاہے۔ چئیرمین کل جماعتی حریت کانفرنس سیدعلی شاہ گیلانی کا کہناہے کہ بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کو ایک بڑے ذبح خانے میں تبدیل کر دیاہے جہاں لوگ بالخصوص نوجوان روزانہ قتل کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 82 کشمیریوں کو شہید کیاگیا۔انھوں نے کہا کہ وہ اس ظلم اور وحشت کے خلاف ہرمحاذ پر لڑیں گے۔
کشمیر کی تازہ صورت حال کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ بھارت نے گزشتہ 69 برسوں میں کشمیر کے مسئلہ کی بین الاقوامی حیثیت ختم کرنے کی بھرپورکوشش کی اور اس میں قدرے کامیابی بھی حاصل کی۔ اقوام متحدہ نے تقسیم برصغیر کے فوراً بعد کشمیریوں کی مرضی( استصواب رائے) سے یہ مسئلہ حل کرنے کو کہاتھا۔ بعدازاں بھارت نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ حل کرلے گا تاہم جب بھی میز بچھائی جاتی، بھارت فرار ہوجاتاتھا۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیاہے جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سخت پریشان کن ہے۔ اب تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے کٹھ پتلی کشمیری سیاست دان بھی ''کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے'' والے راگ میں بھارت کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ایسا لگ رہاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا کھیل ختم ہوچکا ہے، کشمیری قوم تیزی سے ایک ایسے ریفرنڈم کی طرف بڑھ رہی ہے جو اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ہوگا اور جس میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انھیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرناہے یا بھارت کے ساتھ یا پھر وہ ایک خودمختار ریاست کی صورت میں زندگی بسر کریں گے۔