’’انگریز آئے ہیں‘‘ منچھر جھیل کے ماہی گیروں کی بستی میں بیتے کچھ لمحے

جھیل کے کنارے سے ذرا ہٹ کر مختصر سے احاطے میں مچھلیوں کی خریدوفروخت کے لیے منڈی قائم ہے

جھیل کے کنارے سے ذرا ہٹ کر مختصر سے احاطے میں مچھلیوں کی خریدوفروخت کے لیے منڈی قائم ہے : فوٹو : فائل

LONDON:
چودہ اگست کا سورج اپنی ساری چمک کے ساتھ دہک رہا تھا، اس سے بے خبر کہ وہ اگست کی چودہویں تاریخ لے کر طلوع ہوا ہے، جو ایک ملک کے قیام، ایک قوم کی آزادی کا دن ہے، وہی کیا، اُس کی حدت میں سانس کھینچتے لوگ بھی اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھے۔

ذکر ہے گزری اتوار کے ان لمحوں کا جب میرے ہم وطن پرچموں، جھنڈیوں، بیجز، ٹی شرٹس، کیپس، چوڑیوں، ماسکس، ملی نغموں کی سی ڈیز، آتش بازی، سجاوٹ اور فیس پینٹنگ پر پچاس ارب روپے خرچ کر کے یوم آزادی منا رہے تھے، کراچی اور لاہور کی فضائیں قومی نغمات سے مرتعش تھیں، رونق معراج تھی، گہماگہمی عروج پر تھی۔۔۔مگر جہاں میں تھا وہاں ہر طرف دل گداز خامشی تھی، جو منچھر جھیل کے لہراتے پانیوں کے اُس پار کیرتھر کی پہاڑیوں اور ادھر ماہی گیروں کے گھروندوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر موٹر بوٹ کے انجن نے سناٹے میں دراڑیں ڈال دیں۔

لکڑی کی فرسودہ کشتی میں انجن لگا کر روایت کو جدت سے جوڑا گیا تھا، کشتی انجن کے سہارے چل رہی تھی، لیکن اسے سمت مانجھی اپنے چپو سے دے رہا تھا۔ پاکستان کی اس سب سے بڑی جھیل میں ہر طرف دھوپ تیر رہی تھی۔ بائیں کنارے کے قریب کم ہوتے پانی کے بیچوں بیچ بارہ پندرہ ''گھر'' دیکھ کر ماہی گیر سے میرا سوال تھا،''یہ کیا ہے؟'' اس نے بتایا کہ یہ کشتیاں ہیں، جن میں ماہی گیروں نے اپنے گھر بسارکھے ہیں اور کنبوں کے ساتھ ان کشتی گھروں میں زندگی کر رہے ہیں۔ دو دو کشتیاں ملا کر ان پر چھپر ڈال دیا گیا ہے۔

اندر چارپائیاں، پانی کی ٹنکیاں، تھوڑا بہت ضروری سامان، باہر ٹنگے رنگ برنگے کپڑے۔۔۔ بس یہی کُل اثاثہ، یہی زندگی۔ اس جھیل میں اب ایسی چند ہی رہائش گاہیں رہ گئی ہیں، ورنہ کبھی یہاں پورا ''محلہ'' آباد تھا، ہمارا چھوٹا سا وینس، جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، جس کا کہیں چرچا نہیں ہوتا۔ کشتیوں کے ساتھ جھیل میں بنے خشکی کے چھوٹے چھوٹے قطعات یا بالشت بھر جزیرے بھی ماہی گیروں کا بسیرا رہے ہیں، جو اب جھیل سے نکل کر کنارے جابسے ہیں۔ ان ننھے منے جزیروں میں سے ایک پر بنا بڑا سا مٹی کا چولھا اور دوسرے پر عمارت کے آثار یہاں آباد ہو کر اُجڑ جانے والی زندگی کا پتا دیتے ہیں۔ ماہی گیروں نے بتایا کہ انھیں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعلیٰ کے والد عبداﷲ شاہ نے نہ صرف یہ گھروندے بنا کر دیے بل کہ جھیل کنارے واقع اپنا وسیع مکان بھی مانجھی گھرانوں کے حوالے کر دیا۔ میرے لیے عبداﷲ شاہ یا کسی بھی زورآور کی شخصیت کا یہ حیرت انگیز پہلو تھا۔

توقع کے عین مطابق جھیل کے کنارے سیاحت کے لیے آنے والوں کی خاطر اور اس مقام کو دل کش بنانے کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا۔ شاید خوف خدا رکھنے والے حکم راں اور سرکاری محکمے قدرت کے نظاروں میں کوئی مداخلت کرنا نہیں چاہتے اور اسے ''بدعت'' سمجھ کر ایسے مقامات کو جوں کا توں چھوڑ دیتے ہیں۔

خیر میں یہ تحریر اس سیاحتی مقام کی زبوں حالی بیان کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا، ان لفظوں کی جنم بھومی وہ جملہ ہے جس نے نہ جانے کس کس مفہوم کا روپ دھار کر مجھے اپنی گرفت میں لے لیا، جس سے میں اب تک نکل نہیں پایا۔




جھیل کے وسط میں ایک مزار ہے، کسی بزرگ کا مزار، جو حال ہی میں ہونے والی بارشوں سے آنے والے پانی کے باعث ڈوبا ہوا تھا، صرف مزار پر لہراتا روحانیت کا پھریرا نظر آرہا تھا۔

آخر کشتی اسی کنارے آلگی جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ نشیب سے اوپر چڑھ کر نیم پختہ پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی میں ان بچیوں کے نرغے میں تھا جو میرے وہاں پہنچنے کے بعد سے میرے گرد گھیرا ڈالے سوالی نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ ماہی گیروں کی بچیاں، جن کے باپ پانی میں اپنے بازوؤں کا گوشت اور ہڈیاں گھلا کر بھی اتنی یافت نہیں کر پاتے کہ ان کے بچوں کا پورے دن میں ایک بار ہی پورا پیٹ بھر سکے، پورے کپڑے ان کا تن ڈھانپ سکیں۔ سو مجبوری پھیلے ہوئے ننھے ننھے ہاتھوں کی صورت ''محنت کی عظمت'' کی داستان سناتی ہے۔

جھیل کے کنارے سے ذرا ہٹ کر مختصر سے احاطے میں مچھلیوں کی خریدوفروخت کے لیے منڈی قائم ہے، جہاں منچھر جھیل کے پانی سے لڑ کر مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے اپنی محنت اونے پونے بیچتے ہیں۔

''مجھے آپ لوگوں کے گھر دیکھنا ہیں'' ملاح نے میری فرمائش قبول کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہ کی۔ جھیل کنارے سے کچھ ہی فاصلے پر کچے راستے سے اترتی ڈھلان مٹی کے گھروں سے جا ملتی ہے۔ اپنے میزبان کی راہ نمائی میں اور میری اہلیہ دو کچے مکانوں کے درمیان بنی پتلی سی گلی سے گزرتے اچانک ان کے گھر میں داخل ہوگئے، وہاں کہیں کوئی دروازہ نہیں تھا، دونوں طرف بچھی چارپائیوں میں بے ترتیبی سے بیٹھی لیٹی عورتیں پینٹ شرٹ پہنے ایک اجنبی کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر بوکھلا گئیں، ان سے کہیں شدید بوکھلاہٹ میری تھی، میں فوراً پیچھے ہٹ کر گلی میں آگیا۔ ایک نسوانی آواز سندھی کی خوش بو لیے میری سماعت میں اتری،''انگریز اچن تھا'' (انگریز آئے ہیں)۔۔۔

بس پھر یہ تعارفی جملہ تھا اور اس میں جکڑا میرا سارا وجود۔ یوم آزادی کے لمحوں میں یہ تین لفظی جملہ جانے کتنے مفاہیم لیے تھا۔

میرے سامنے ماہی گیروں کی زندگی کا رنگ اور افلاس کی تصویریں تھیں۔ بے در کچی دیواریں، باسوں پر ٹھیرے چھپر تلے بچھی چارپائیاں، لباس سے یکسر محروم یا ادھ ننگے بچے، چھوٹی سی منڈیر کے پرے ایک اور ایسا ہی گھر، اس سے پرے ایک اور، صحن میں بندھی اکلوتی بھینس اور چند بکریاں۔۔۔ کھرے پاکستانی تو یہ ہیں، جو اس دھرتی کی مٹی اوڑھے زندگی کر رہے ہیں'' میں نے سوچا، مگر وہ ایک جملہ ہر سوچ پر حاوی تھا، ''انگریز آئے ہیں۔'' اب انھیں کون بتائے کہ انگریز تو کب کے جا چکے، انھیں کون سمجھائے کہ تم آزاد ہو چکے ہو، انھیں کیسے یقین دلایا جائے کہ پاکستان بن چکا ہے۔ میں نے کچھ نہیں بتایا، آپ بھی انھیں نہیں بتائیے گا، کہیں ان کا مان نہ ٹوٹ جائے۔
Load Next Story