بارش۔ میری زندگی
رات بھر میں زمین پر اور بادل آسمان پر سوتے جاگتے رہے ہیں
رات بھر میں زمین پر اور بادل آسمان پر سوتے جاگتے رہے ہیں۔ میں بارش میں اپنے بارانی گاؤں کو یاد کرتا رہا جہاں کی زندگی بارش کا دوسرا نام ہے۔ یوں تو اس زرعی ملک میں اس کی پوری زندگی ہی بارش سے ہے لیکن اس ملک میں ایسے خطے بھی موجود ہیں جہاں کی آبپاشی کا کسی حد تک واحد ذریعہ بارش ہی ہے۔ بارشیں برسیں تو زندگی بھی برستی ہے ورنہ آسمان خاموش ہو تو زمین پر عام زندگی بھی خاموش ہو جاتی ہے اور چپ چاپ غم کرتی اور آنسو بہاتی ہوئی آسمان سے برسنے والے پانی کو یاد کرتی رہتی ہے جو اسے موت کے منہ سے نکال سکتا ہے۔
اس کی زندگی بارش کے حسین قطروں میں پوشیدہ ہے یہ برستے ہیں تو زندگی سر اٹھا کر چلنا پھرنا شروع کر دیتی ہے ورنہ کاشتکار اور اس کے کھیت سبھی زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار رہتے ہیں۔ میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ میں ایک بارانی گاؤں کا باشندہ ہوں اگر بادل مہربان ہوں تو میں ایک خوشحال کاشتکار اور کسان ہوں ورنہ ہمارے نیک لوگ اور بارش کے عام طلب گار سبھی کسی کھلے میدان میں نماز استقساء یعنی بارش کی دعا کے لیے نماز میں جمع ہو جاتے ہیں اور خدا کے حضور قحط سالی ختم کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا پرانا معمول ہے اور اس کے لیے جو اجتماعی نماز ادا کی جاتی ہے اسے طلب بارش کی دعا کہتے ہیں۔ ہم آج کے گنہ گار مسلمان ہی نہیں ماضی کے نیک و پاک مسلمانوں کو بھی قحط کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اللہ کے حضور میں اجتماعی فریاد اور دعا کے لیے حاضر ہو گئے۔
بارشیں کم ہونے کی وجہ ایک تو سائنسی سلسلہ ہے دوسرا کوئی دوسرا یعنی ہمارے لیے ہمارے کسی گناہ کی سزا ہوتی ہے۔ سائنسی وجوہات کو محکمہ موسمیات والے بیان کرتے رہتے ہیں لیکن تاریخ میں بعض دوسری وجوہات کا ذکر بھی ملتا ہے اور تو اور حضرت عمرؓ کی خلافت میں بھی ایک بار بارش کا زبردست بحران پیدا ہو گیا۔
آج کی طرح اس زمانے میں بھی بارش برسانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا سوائے دعا اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں فریاد کے چنانچہ قحط سالی سے گھبرا کر حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو بارش کی دعا کے لیے جمع کیا اور نماز شروع کرنے سے پہلے حضرت عمرؓ نے حاضرین سے پوچھا کہ کیا کسی کے پاس آنحضرتؐ کی کوئی نشانی موجود ہے ایک صحابی نے بتایا کہ ان کے پاس حضور پرنور کی ایک چادر موجود ہے۔ حضرت عمرؓ نے وہ چادر لانے کے لیے کہا اور پھر اسی متبرک چادر کو اوڑھ کر دعا کی کہ یا اللہ اپنے رسول پاکؐ کی اس نشانی کے صدقے رحم فرما اور بارش برسا۔ بتاتے ہیں کہ ابھی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ لوگ بھیگے ہوئے کپڑوں میں گھروں کو پہنچے۔ ایک حضور پاکؐ کی نشانی دوسرے حضرت عمرؓ کی دعا نتیجہ ظاہر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک اور ان کا ایک نامور غلام عمر بن خطاب جب اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوئے تو ان کی دعا منظور ہوئی۔ قحط ختم ہوا اور کھیتوں کی زندگی لوٹ آئی۔ اب اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کیا آج بھی کوئی ایسا معجزہ دکھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اگر اس کے قریب ہونے کی سعادت حاصل کر سکیں تو آج بھی آگ گلستان پیدا کر سکتی ہے لیکن اس کی صریحاً نافرمانی کرنے والے کیسے اس کی رحمت پا سکتے ہیں بہر کیف ماضی کے بعض معجزے یاد کرنے میں بھی سعادت ہے اور کیا معلوم کوئی اللہ کا بندہ مقبولیت کا اعزاز حاصل کر لے۔
نیکی کے ذکر سے بھی نیکی پھیلتی ہے۔ میں جیسا کہ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں وادی سون ایک بارانی نیم کوہستانی علاقہ ہے جس میں کوئی نہر نہیں چلتی اور بدقسمتی سے اتنے بڑے چشمے بھی نہیں ہیں جو زمین سیراب کر سکیں۔ لوگ کنوئیں کھودتے ہیں اور ان کے محدود پانی سے زمین کا کوئی ٹکڑا سیراب کر لیتے ہیں۔
جس میں سبزی جیسی قیمتی فصل کاشت کی جاتی ہے باقی زمین بارش کا انتظار کرتی ہے جو برس بھی جاتی ہے لاہور میں جب بارش ہوتی ہے تو میں موبائل فون کے ساتھ لگ جاتا ہوں یہ آلہ بھی دور جدید کی ایک نعمت ہے پتہ چل جاتا ہے کہ بارش محدود ہے یا اس کا دائرہ ہم خشکی کے ماروں کی زمینوں تک بھی پھیلا ہوا ہے بس یہی زندگی ہے بعض اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک کھیت بارش کے پانی سے لبالب بھر جاتا ہے تو اس کا پڑوسی کھیت خشک رہ جاتا ہے یعنی بادل آیا اور کسی جگہ اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا۔ ہمارے ہاں زمین کے جس ٹکڑے میں قرب و جوار سے بارش کا پانی بھی جمع ہو جاتا ہے اس کی قیمت دگنی تگنی ہوتی ہے بارش اگر زندگی ہے تو اس کی واضح جھلک ہمارے بارانی علاقے میں دکھائی دیتی ہے جہاں زرعی زمین کی قیمت اس میں گرنے والے پانی سے طے ہوتی ہے۔