ایلی ویزیل ہمارے دکھ زیادہ ہیں
انسانوں کے مذاہب، زبان ، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھرکے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے
انسانوں کے مذاہب، زبان ، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھرکے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے ۔ انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں۔ ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا، 1945 میں اس آگ سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔ Auschwitz کے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہوچکا تھا۔ اس کا خاندان نیست ونابودکردیاگیا تھا وہ بے گھر اور بے وطن تھا،ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش زدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا، صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں۔
اس نے آسمان کی طرف نظرکر کے خدا سے سوال کیا تھا ''آخرکیوں،ایسا کیوں ہونا تھا اورمجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا۔ پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے،جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیا تھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 17سال تھی ، مگر فریادوں کا تنہا مبلغ بن گیا تھا اس نے کہا تھا '' تم سب جو گزرے جا رہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگرکہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی۔''
محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے، اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لغت ایجادکرنی ہوگی۔ اس لیے کہ ہمارے دکھ دردکی شدت موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 20 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو 20 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں ۔
آئیں! ذراتاریخ کے اندر سفرکرتے ہیں، طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکرکالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا۔ جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مردہ تھے۔کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے دار ڈھونڈتی تھیں اور آہ وبکا کررہی تھیں ۔
بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کالنگا کے میدان سے آج بھی آہ وبکا کی آوازیں آتی ہیں، آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں۔ آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غریبوں کی بستیاں گھوم کر دیکھ لیں، ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان کے گریے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ ان مناظر اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں ۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ جو دکھ ہوتے ہیں یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جبتک کہ اس کی جان نہ نکل جائے ۔آئیں! ہم اپنے دکھوں کے ذمے داروں کا تعین کرتے ہیں۔ (1) ۔اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیردار اور سردار شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں ، سرداری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔
اس لیے انھیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انھیں ذلیل کرتے رہو اورانھیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔(2) دوسرا گروپ ۔جس میں صنعت کار ، تاجر ، بزنس مین ، سرمایہ دار، بلڈرز اورکاروباری حضرات شامل ہیں یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب ، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خوشبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہونگے۔ ان کا سب کچھ صرف اورصرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے،احساس ، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے ۔ان کا مذہب ، ایمان ، دین سب پیسہ ہے۔ (3) تیسر ا گروپ ۔اس گروپ میں علماء، مشائخ اور ملا شامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمے داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمے دار یہ ہی ہیں یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائدہ اٹھاسکتے تھے اٹھا رہے ہیں ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے ۔ (4) چوتھا گروپ ۔ جس میں سیاست دان ، بیورو کریٹس ، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیںاور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں۔ شیطان اگر دنیا میں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھاتے رہو اور اپنے اقتدار کے سورج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 20 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو ۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا، 1945 میں اس آگ سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔ Auschwitz کے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہوچکا تھا۔ اس کا خاندان نیست ونابودکردیاگیا تھا وہ بے گھر اور بے وطن تھا،ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش زدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا، صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں۔
اس نے آسمان کی طرف نظرکر کے خدا سے سوال کیا تھا ''آخرکیوں،ایسا کیوں ہونا تھا اورمجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا۔ پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے،جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیا تھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 17سال تھی ، مگر فریادوں کا تنہا مبلغ بن گیا تھا اس نے کہا تھا '' تم سب جو گزرے جا رہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگرکہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی۔''
محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے، اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لغت ایجادکرنی ہوگی۔ اس لیے کہ ہمارے دکھ دردکی شدت موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ الفاظ سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 20 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو 20 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں ۔
آئیں! ذراتاریخ کے اندر سفرکرتے ہیں، طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکرکالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا۔ جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مردہ تھے۔کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے دار ڈھونڈتی تھیں اور آہ وبکا کررہی تھیں ۔
بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کالنگا کے میدان سے آج بھی آہ وبکا کی آوازیں آتی ہیں، آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں۔ آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غریبوں کی بستیاں گھوم کر دیکھ لیں، ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان کے گریے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ ان مناظر اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں ۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ جو دکھ ہوتے ہیں یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جبتک کہ اس کی جان نہ نکل جائے ۔آئیں! ہم اپنے دکھوں کے ذمے داروں کا تعین کرتے ہیں۔ (1) ۔اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیردار اور سردار شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں ، سرداری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔
اس لیے انھیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انھیں ذلیل کرتے رہو اورانھیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔(2) دوسرا گروپ ۔جس میں صنعت کار ، تاجر ، بزنس مین ، سرمایہ دار، بلڈرز اورکاروباری حضرات شامل ہیں یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب ، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خوشبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہونگے۔ ان کا سب کچھ صرف اورصرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے،احساس ، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے ۔ان کا مذہب ، ایمان ، دین سب پیسہ ہے۔ (3) تیسر ا گروپ ۔اس گروپ میں علماء، مشائخ اور ملا شامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمے داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمے دار یہ ہی ہیں یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائدہ اٹھاسکتے تھے اٹھا رہے ہیں ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے ۔ (4) چوتھا گروپ ۔ جس میں سیاست دان ، بیورو کریٹس ، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیںاور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں۔ شیطان اگر دنیا میں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھاتے رہو اور اپنے اقتدار کے سورج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 20 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو ۔