حریت پسند کشمیریوں کی جدوجہد آزادی

مسئلہ کشمیرکے تناظر میں سب سے پہلے دہشت گردی وآزادی پرمختصر وضاحت ضروری ہے


[email protected]

مسئلہ کشمیرکے تناظر میں سب سے پہلے دہشت گردی وآزادی پرمختصر وضاحت ضروری ہے تاکہ دہشت گردی وجدوجہد آزادی میں فرق واضح ہوسکے۔

دہشت گردی افراد گروہ وحکومت کے خلاف سیاسی ودوسرے مقاصد کے حصول کے لیے طاقت و دھمکیوں کا استعمال ہے۔ دہشت گردی کشت وخون کا کھیل ہے جس میں دھماکوں اورقتل و غارت کے ذریعے معاشرے یا کسی ریاست میں خوف وہراس پھیلایا جاتا ہے اورعوام کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ جانی ومالی نقصان ہوسکے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں ایک ہولناک صورتحال پیدا ہوجائے۔''ایسے واقعات و حادثات جن کی بدولت لوگوں میں خوف و دہشت پیدا ہو''

با الفاظِ دیگر:

''ایسے جرائم جو بے گناہ معصوم لوگوں کے خلاف کیے جائیں اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے''

سادہ و عام الفاظ میں آزادی سے مراد ہے:

''انسانی سرگرمیوں پر ہر قسم کی حدود و پابندیوں کی عدم موجودگی۔''

تاہم ایک منظم معاشرے میں ایسی بے قید آزادی کا پایا جانا ناممکن ہے۔ اس طرح کی آزادی تو صرف اس فطری دور ہی میں میسر آسکتی تھی جب کہ معاشرے کی کوئی تنظیم نہ تھی۔

1889 کے منشور حقوق انسانی میں اس لفظ کی ان الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے:

''آزادی سے مراد ایسے کام کرنے کی آزادی ہے جس سے دوسرے کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے''

اب کشمیرکے حوالے سے ہم دیکھیں اور مسئلہ کشمیر پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بھارت کشمیر میں دہشت گردی کرارہا ہے اورکشمیری عوام اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور اپنی بقا و سلامتی کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کی فطری قومی شہری، سیاسی، معاشی غرض ہر قسم کی آزادی چھین لی ہے اور اپنی تقریباً 7 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے۔ کشمیری عوام کا قتل عام روزکا معمول بن چکا ہے۔کشمیریوں کو ہر طرح سے پریشان کیا جارہا ہے۔ ان کا استحصال کیا جارہا ہے،ان سے ان کی زندگیوں کو چھینا جارہا ہے، گھروں کو لوٹا جارہا ہے، ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔کشمیری عوام بھارت کے تمام تر ظلم و جبر کے باوجود اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں کہ انھیں صرف وصرف ان کا پیدائشی حق یعنی حق خود ارادیت چاہیے اور اس سے کم وہ کسی بات پر رضامند نہیں ہوںگے۔ وہ بھارت سے الحاق نہیں چاہتے بلکہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔

1948 میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں اتار دیں اور اس پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے حالانکہ قانون آزادی ہند کے تحت یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل کیے جائیںگے یا ریاستیں اپنی مرضی سے اپنے حالات کے مطابق جس سے چاہیں (یعنی پاکستان یا بھارت) الحاق کرسکتی ہیں۔

کشمیریوں کو بھی اس کا حق دیا گیا تھا کیونکہ کشمیری اکثریت میں تھے یعنی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن آج تک کشمیریوں کو یہ حق نہ دیا گیا بلکہ بھارت نے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اس پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور آج بھی وہاں اپنی کثیر افواج کے ذریعے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کیے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان و بھارت کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں لیکن اب تک اس مسئلے کا کوئی موثر و پائیدار حل تلاش نہ کیا جاسکا ہے۔ یہ مسئلہ اب دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے اور نہایت شدت اختیارکرگیا ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

پاکستان نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی پیش کیا اوراس نے فیصلہ بھی دیا کہ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق حق خود ارادیت دی جائے لیکن بھارت نے اس فیصلے کی کوئی پرواہ نہ کی اور آج تک کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی۔ اس کے برعکس اس کے مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا۔

آج یہ مسئلہ اس قدر شدت اختیارکرچکا ہے کہ اب اس کا موثر و پائیدار حل تلاش کرنا ہی نہ صرف دونوں ممالک کے مفادات میں ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن وامان کے لیے بھی اس کا حل نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ مسئلہ جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کا ضامن بن چکا ہے یعنی جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف یہی وہ اہم ترین مسئلہ ہے جو بھارت وپاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گیا ہے اور یہ دونوں ممالک کے معاشی، سیاسی واقتصادی و تجارتی سطح پر صورتحال کو متاثر کررہاہے اور اثر انداز ہورہا ہے۔پس اگر بھارت مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے لے اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے تو یہ بات اس کے بھی وسیع تر مفاد میں ہے اور بھارت کو بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

مثلاً بھارت کو پاکستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان، ایران تک تجارتی سہولیات دستیاب ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سارک ممالک کے اتحاد سے بہت سے معاشی فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ بھارت کی غربت میں خاصی حد تک کمی آسکتی ہے۔ بصورت دیگر کسی کے ہاتھ کچھ نہ کچھ آئے گا اور امن وامان کا مسئلہ خطے میں بدستور موجود رہے گا اور کشمیر کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔

مختصر یہ کہ پاکستان کی تمام ترکوششوں کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مسئلہ اب تک حل نہ ہوسکا ہے اور پل پل بدلتی عالمی سیاست کے ضمن میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے امکانات ہیں۔ اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے اور بڑی طاقتیں اس کی پشت پناہی کرتی رہیںگی تو مستقبل قریب میں یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف کشمیریوں کا مستقبل بدستور خطرے میں رہے گا اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں بھی امن کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا اور پاکستان و بھارت کے درمیان ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کے خطرات بدستور موجود رہیںگے۔

پس بھارت کو دہشت گردی اور جد وجہد آزادی میں فرق کرنا ہوگا، دنیا جانتی ہے دہشت گردی ایک الگ چیز ہے اور جد وجہد آزادی ایک الگ چیز، بھارت کشمیر میں دہشت گردی کرارہاہے، کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھارہاہے اور اپنی تمام تر کوششوں و طاقت کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں اسے سخت ناکامی کا سامنا ہے ۔

اس ناکامی کو چھپانے کے لیے بھارت اپنی دہشت گردی کا الزام کشمیریوں پر ڈالنے اور اس آڑ میں ان کا جد وجہد آزادی کو کچلنے کی ناکام کوشش کررہاہے تاہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ کشمیری عوام ہر ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنے اصولی موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ وہ بھارتی تسلط سے ہر قیمت پر آزادی چاہتے ہیں، کشمیریوں کو جھکانا یا ان کی جد وجہد کو روکنا یا کچلنا آسان نہیں ہے۔

لہٰذا اب بھارت کو چاہیے کہ مسئلے کی سنگینی کو سمجھے اور خطے میں امن وامان کی خاطر کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔ نیزکشمیری جد وجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنا چھوڑدے اور جلد سے جلد مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف توجہ دے۔ بصورت دیگر اس کے نہایت مضر و منفی اثرات مرتب ہوںگے اور جنوبی اشیا کا خطہ ایک نہ ختم ہونے والی خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں