یہ نفرتیں یہ سختیاں
اس پر مجھے ایک ٹی وی مکینک کی کہانی یاد آرہی ہے، آپ بھی سن لیجیے
پاکستان زندہ باد! آج کل ہم اور آپ اسی نعرے کو دہرا رہے ہیں اور اپنے آپ کو ایک سچا پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ زبان پہ کچھ اور دل میں کچھ اور ایکشن کچھ۔ بہت سے لوگوں نے یہی وطیرہ بنالیا ہے کہ جس طرح فائدہ ملتا ہے وہ حاصل کیا جائے۔ چاہے چمچے بنو یا پیر کے جوتے۔
اس پر مجھے ایک ٹی وی مکینک کی کہانی یاد آرہی ہے، آپ بھی سن لیجیے۔ ایک ٹی وی مکینک تھا، 9-8 بہن بھائیوں کا کنبہ، ماں باپ۔ باپ ان کا عیاش آدمی تھا، جو کچھ کماتا عورتوں کے شوق میں پورا کردیتا، ماں نے 9-8 بچے تو پیدا کرلیے اب کرے کیا، لڑائی جھگڑے، نشے کی حالت میں باپ نے ماں کو طلاق دے دی۔ اب اولاد کیا کرے۔ خاندان میں جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی، گھر کا ایک اسٹور جو گھر کے باہر تھا، باپ کو دے دیا، ماں کو تسلی دی اور کہا کہ یہ سب بہن بھائی مل کر باپ سے ذلت کا بدلہ لیں گے، ماں آئے دن چیخ و پکار کرتی اور اپنی اولاد سے کہتی کہ اس آدمی سے بدلہ لو۔
یہ ٹی وی مکینک چالاکی سے ماں کو نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر کو کہا کہ میری ماں بہت دکھی عورت ہے، سارا سارا دن اور رات جاگتی رہتی ہے، نیند اس کو نہیں آتی، اور اسی بے چینی میں اپنے آپ کو مارنے پیٹنے لگتی ہے، اپنے آپ کو زخمی کرلیتی ہے، ہم سب ماں کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں، نہ کام کرسکتے ہیں اور نہ ماں کو اکیلا چھوڑ سکتے ہیں۔ اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا، ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں، اس نے سمجھا یہ ٹی وی مکینک بہت دکھی ہے اور اپنی ماں کے لیے بہت پریشان بھی۔
اس ڈاکٹر نے ماں کے لیے ٹھیک ٹھاک نیند کے انجکشن اور دوائیں دے دیں۔ ٹی وی مکینک کیونکہ ایک غربت کا مارا کم پڑھا لکھا، مگر بے حد مکار آدمی تھا، اس نے وہ دوائیں اپنی ماں کو دینا شروع کردیں۔ آہستہ آہستہ اپنی ماں کو اس نے دواؤں کے اثر کا عادی بنادیا، گھر میں سکون ہوگیا، ٹی وی مکینک کے باقی بہن بھائی بھی اپنے اپنے دھندوں کو ڈھونڈنے لگے، ماں کی دو چار دن کے بعد جب ذرا پوری آنکھیں کھلتیں وہ ہر ایک کے کرتوت جاننے پر بھی چیختی چلاتی اور پھر سب اس کو پکڑ کر انجکشن لگاتے اور اللہ اللہ خیر صلا۔
بے تحاشا غربت و افلاس کا مارا یہ کنبہ اپنے پڑوسیوں کو اچھے حالوں میں دیکھتا تو خود بھی امیر بننے کے خواب دیکھتے، لڑکیاں اپنی اداؤں سے بہت سارے کام کرنے کو تیار ہوگئیں۔ یوں پورا خاندان ایک خاندانی کاروبار کرنے لگا۔ ماں کو انجکشن دے دے کر اس قدر عادی بنادیا گیا وہ عقل و جسم سے عاری ہوگئی۔ ایک دیوانہ جتنا جیتا ہے وہ بھی اتنی ہی جی سکی اور آخرکار اس جہان فانی سے کوچ کرگئی، باپ باہر پڑے پڑے ہی پہلے مرچکا تھا، سو خاندانی کاروبار جو شروع ہوا تو گزرے کل اور آج میں فرق ہوگیا، اب ذرا ماڈرن انداز میں کام ہو رہا ہے۔ جو راستہ اس ٹی وی مکینک نے دولت کمانے کے لیے اپنایا اور اپنے سب بہن بھائیوں کو ایسے اس میں لگایا کہ کسی کو گناہ کا احساس تک نہ رہا اور وہ اس کو اپنی عقل مندی اور چالاکی سمجھتے ہوئے ایک دلدل میں پھنس گئے۔
پیر والے روز جو اچانک سے میڈیا چینلز پہ حملہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کراچی کا سکون یکدم تلخ ہوگیا، سڑکوں پر آگ نظر آنے لگی اور لوگ حیران و پریشان۔ ابھی تک ہنگامہ خیزی کا سلسلہ جاری ہے، بیانات پر بیانات آرہے ہیں اور عقل حیران ہے کہ ہو کیا رہا ہے، ہم سب پاکستانی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے مخلص ہیں۔
دن بہ دن خرابی کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ کیوں ذاتی مفادات اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ ان کو پانے کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہیں۔ کہتے ہیں کہ کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں۔ ناانصافیاں اور عدل کا فقدان یقیناً ہم سب کو جانور بنادے گا، درندہ بنا دے گا اور سب کچھ تباہ کردے گا۔ بے انتہا ضروری ہے کہ چھوٹی سطح سے لے کر بڑی سطح تک انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ ہم تو الحمدللہ مسلمان ملک کے مسلمان شہری ہیں۔ رسول پاکؐ اور خلفائے راشدین کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
ہماری تعلیمات ہی اتنی شاندار ہیں کہ اگر ہم صرف ان کو اپنالیں اور اللہ پر یقین کامل رکھیں تو کوئی قوت ہمیں پست نہیں کرسکتی۔ امتحانات اور سختیاں تو ہر دور زندگی کا حصہ ہوں گی مگر ان تعلیمات سے جو انسانیت کا درس ہمیں ملتا ہے جو اخوت اور یکجہتی ہمیں ملتی ہے، جو محبتیں و عزت ہمیں ملتی ہے وہ بڑے بڑے محلوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا ہوگی ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات کا احترام کرنا ہوگا، جائز حد تک بے جا دباؤ، حقارت، کم ظرفی اور اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھنا یقینا نقصان دہ ہوگا۔
آخر ہم کن کن محاذوں پر لڑیں گے، کتنے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے اور آخر کیوں ہم اپنے لوگوں کو اپنا دشمن بنائیں اور ان کو غیروں کے ہاتھوں میں دیں۔ سیاست، مرتبہ اور امارت، یہ سب اپنی جگہ درست مگر لوگوں کا حق مار کر ان کو تھلے لگا کر آخر کب تک یہ سب ہوتا رہے گا۔
ایک عام شہری بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کسی بڑے عہدے پر فائز۔ زندگی اور زندگی کی سہولیات اور ضروریات سب کچھ سب لوگوں کے لیے جب تک ہم برابر نہیں سوچیں گے جب تک ہم تفریق کرتے رہیں گے، ہم حلال حرام میں پھنسے رہیں گے اور ایک ایسا کنبہ بن جائے گا جس میں گناہ کا احساس ہی ختم ہوجائے گا، بس لوٹو اور کھاؤ، کون کتنا کھا سکتا ہے، کتنا جی سکتا ہے کہ نہ زندگی انسان کے اختیار میں اور نہ موت انسان کے اختیار میں۔
بے انتہا نازک دور ہے اس وقت ہمارے ملک میں، خلوص اور حب الوطنی ڈھونڈنی پڑ رہی ہے، امتحانات لیے جا رہے ہیں، کچھ پتا نہیں کہ چور کون اور محافظ کون۔ ہماری نوجوان نسل کے لیے یقیناً یہ ایک مشکل دور ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس طرف اور کس ڈگر پر لے کر جائیں۔ قدم قدم پر گمراہ کرنے والے دشمن ہمارے اپنے بنے ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے مفادات سے لے کر بڑے بڑے ظلم و ناانصافی تک، سرحدوں پر دشمنوں کی موجودگی اور ہماری افواج پہ بے حد پریشر۔ ملک کے باہر بھی اور ملک کے اندر بھی۔ حب الوطنی ثابت کرے یا اپنے اندر موجود دشمنوں سے لڑے۔
مختلف جرائم دن بہ دن پھیل رہے ہیں، بچوں سے لے کر بڑے اداروں تک کرائم سے خالی نہیں، افراتفری کا عالم اور سنوائی کی کیفیت؟ ہر دکھ و تکلیف میں مبتلا شخص چاہتا ہے کہ اس کی فوری سنوائی ہو اور یہ کوئی غلط بھی نہیں۔ بہت ضرورت ہے کہ ایسے پریشر سے پاک ادارے بنائے جائیں تو عام لوگوں کے لیے فوری امداد اور انصاف فراہم کرسکے۔ گھروں سے بچے اغوا کرلیے جائیں، کئی سال سے مسنگ افراد کے لیے مہم چلائی جا رہی ہیں، بڑے بھی گھروں سے اٹھا لیے جائیں، اور ان کا کوئی پتہ نہ ہو تو پھر کیسے سکون و قرار معاشرے میں موجود ہوگا۔ پاور کا غلط استعمال معاشروں میں زہر گھول دیتا ہے ہر آدمی کی عزت نفس کا خیال رکھنا، یقیناً ریاست کا کام ہے۔ ایک کنبے کو عزت اور خیر سے جوڑے رکھنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے۔ پاکستان گھر ہے ہم سب کا اور ہم سب نے مل کر اس کو سنوارنا ہے۔ ایک دوسرے کے مسائل سمجھنا اور ان کو حل کرنا ہی بہترین عمل ہے ہم ایک دوسرے کو سنیں اور سمجھیں کہ اس سے اچھا کوئی راستہ نہیں۔