علی بابا جسے ہم نے کھو دیا آخری حصہ
ان کی پہلی کہانیوں کی کتاب دھرتی دہکانا1983 میں شایع ہوئی جس میں تقریباً 18 کہانیاں شامل تھیں۔
علی بابا کی شادی پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار ساقی کی بہن سے ہوئی تھی جس سے انھیں بیٹے کے علاوہ پانچ بیٹیاں بھی پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں اپنی بیوی سے پیار تھا مگر وہ اپنی بیوی اور بچوں کو غربت کی وجہ سے خوشیاں نہیں دے سکے جس کا انھیں ہمیشہ ملال رہا۔ ان کے والد پاکستان ریلوے میں ملازم تھے۔ علی بابا نے ابتدائی تعلیم کوٹری سے نانگو لائن میونسپل اسکول سے حاصل کی اور پھر میٹرک کے بعد وہ ریلوے میں ہی کلرک کی نوکری پر لگ گئے مگر وہاں انھیں اپنی پسند کا ماحول نہیں ملا اور وہ نوکری چھوڑ کر ٹیکسٹائل انڈسٹری میں چلے گئے ، وہاں سے بھی چھوڑ آئے اور اپنا پورا وقت لکھنے کے لیے وقف کردیا اور ملنے والی رقم سے اپنا گھر چلانا شروع کیا۔ ان کی پہلی کہانی سندھ کے بڑے میگزین نئی زندگی میں چھپی، اس رسالے کو شمشیر الحیدری دیکھا کرتے تھے۔ علی بابا نے تقریباً 300 شارٹ اسٹوریز لکھی ہیں۔
ان کی پہلی کہانیوں کی کتاب دھرتی دہکانا1983 میں شایع ہوئی جس میں تقریباً 18 کہانیاں شامل تھیں۔ ان کی دوسری کتاب 1984 میں شایع ہوئی اور تیسری کتاب 1994 میں چھپ کر مارکیٹ میں آگئی۔ انھوں نے ایک ناول موئن جو دڑو لکھا جسے وہ کہتے تھے کہ لوگوں کو پسند آیا ہے لیکن وہ اگر بعد میں لکھتے تو وہ اور بھی زیادہ شاہکار ہوتا۔
اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے سندھ باد کا سفر ناول لکھا جو 1993 میں شایع ہوا۔ پی ٹی وی کے ڈراموں میں ویسے تو انھوں نے بڑے اچھے اور شاہکار ڈرامے لکھے جن میں خاص طور پر بالیشاہی، چنڈائیں مانی، کارونجھر جو قیدی، رنی کوٹ جا رکھوالا، راندیکو، جیون کولھی، مومل، مجلہ سجلہ مانڑھوں۔ انھوں نے تقریباً 100 کے قریب ٹی وی ڈرامے لکھے ج۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو مجمعے میں بھی تنہا سمجھتے تھے اور سماجی پروگراموں میں شرکت سے دور رہتے تھے۔ شاید اس کی وجہ ایک تو غربت اور افلاس ہے اور دوسرا یہ کہ اسے جو پذیرائی ہمیں دینی چاہیے تھی وہ ہم نے نہیں دی۔
ایک شخص جو فن و ادب سے مالا مال ہے مگر مالی طور پر کنگال ہے جس نے اسے گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔ اس کے والد محمد رمضان نے چاہا تھا کہ علی بابا معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل کرے جو اس نے حاصل کیا مگر دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں مقام حاصل نہ کرسکا۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ اپنے کام پر اتراتے نہیں تھے، دوست اگر ان پر تنقید بھی کرتے تو وہ مسکرا کر ٹال دیتے تھے۔
انھوں نے کبھی بھی کسی کی برائی نہیں کی اور نہ ہی کسی پر کوئی لیبل لگایا۔ چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود انھوں نے کوئی گروپ یا سرکل نہیں بنایا۔ اس کی سادگی، سچائی، کم گوئی اور شرمیلے پن نے اسے باقی لوگوں سے الگ رکھا اور اس کی شخصیت منفرد بن کر ابھری۔ انھوں نے اپنے ساتھ جبر ہونے پر بھی کبھی کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ اپنی تحریر میں کہانیوں کے ذریعے دوسروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو کرداروں کے ذریعے پیش کیا، یہ تھا اس شخص کی بڑائی اور صبر جو دوسروں کے لیے لکھتا رہا مگر اپنے آپ کو خاموشی کے ساتھ زندگی اور زمانے کی ناانصافی کو برداشت کیا خاموشی کے ساتھ۔
علی بابا ایک اچھے شاعر بھی تھے مگر انھوں نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ان کا ایک لوک گیت جسے جیجی زرینہ نے بڑے میٹھی آواز میں گایا ہے وہ ہے اگیں مانڑھوں لاڑجا۔ علی بابا کا تجربہ اور مشاہدہ بڑا وسیع تھا، وہ تھر، کاچھو، اپر سندھ، کوہستان، سمندر اور دریا کے اس پاس بسنے والے لوگوں سے ملتے رہے ان کی تہذیب، زبان، رسم و رواج، مسائل، بہادری، روزگار کے وسائل اور مذہبی رسومات کو بڑے قریب سے دیکھا جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں جاذبیت اور طاقت ہے۔ وہ ایک مسافر تھا جہاں دل کرتا چل پڑتا، جہاں رات ہوئی پڑاؤ ڈال دیا۔
وہ جب کہیں بنجر محفل میں بولتے تو لگتا تھا جیسے کوئی کردار بول رہا ہے۔ ان کی باتوں میں رومانس چھلکتا تھا، وہ اپنے لفظوں سے سننے والوں پر سحر طاری کردیتا تھا۔ وہ کئی گھنٹے کوٹری سے گزرنے والے دریائے سندھ کی موجوں کو اور کبھی وہاں سے اڑتی ہوئی ریت کو دیکھتے اور تکتے رہتے تھے۔ وہ اکثر سندھ یونیورسٹی جایا کرتے جہاں پر طلبا سے خاص طور پر فلسطینی طلبا سے انگریزی میں بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ علم سے محبت کی وجہ سے انھوں نے اپنی ایک زمین کا ٹکڑا مفت میں گرلز اسکول کھولنے کے لیے عطیہ کردیا۔ انھوں نے سرکاری نوکری اس لیے نہیں کی کہ وہ سرکاری غلام نہیں بننا چاہتے تھے۔
علی بابا کی موت سندھی ادب کے لیے بڑا نقصان ہے، ہم تو سوچ رہے تھے کہ اس بکمال ادیب نے کئی سال نہیں لکھا اور وہ مایوس ہوگئے تھے مگر ہم امید کرتے تھے کہ کبھی بھی وہ اپنا قلم اٹھاسکتے ہیں اور دوبارہ وہ موئن جو دڑو جیسا شاہکار ناول دے سکتے ہیں۔
ایسا ہو نہ سکا اور وہ اگست کی 8 تاریخ 2016 کو ہم سے دور ہوگئے اور انھیں کراچی سے کوٹری لایا گیا جہاں پر ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں کئی سیاسی، سماجی اور ادبی شخصیات نے شرکت کی اس کے بعد انھیں خاندانی قبرستان محمد یوسف بلوچ گاؤں میں مٹی ماں کی گود میں سلایا گیا۔ ان کی موت پر سندھی لینگویج اتھارٹی نے دوپہر سے چھٹی کا اعلان کردیا، سندھ فنکار ویلفیئر نے 10 دن کا، سندھی ادبی سنگت نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ اب تک انھیں خراج تحسین پیش کرنے اور تعزیتی اجلاس کے لیے کئی پروگرام پورے سندھ میں روزانہ ہو رہے ہیں۔ریڈیو، ٹی وی، اخبار پروگرامز پیش کر رہے ہیں، کالم اور مضمون لکھے جا رہے ہیں۔
علی بابا کی ایک تحریر منفرد اور معنی خیز ہے جس میں سندھی قوم کے لیے کئی پیغامات ہیں۔ یہ کریڈٹ علی بابا کو جاتا ہے کہ انھوں نے لکھنے کے نئے ڈھب اپنائے اور تحریروں میں نئی کہاوتیں پیش کیں۔ کاش وہ لکھنے میں موڈی نہ ہوتے تو وہ ہمیں ان گنت مزید تحفے دے جاتے جس سے ہم لوگ محروم رہ گئے۔ انھوں نے جو نشان ادبی راہ میں چھوڑے ہیں ہمیں وہیں سے انھیں آگے بڑھانا ہوگا اور جس غربت اور بے بسی میں ان کی زندگی گزری اس طرح کی زندگی کا ہم راستہ روکنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی اور اس طرح سے ہم سے جدا نہ ہوسکے۔
ہمیں کسی دوسرے کو گمنامی والی زندگی گزارنے سے بچانا ہوگا۔ ایسی ادبی، سماجی اور علمی شخصیات کو حکومت کی طرف سے پہلے ہی کچھ ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن سے ان لوگوں کی عارضی مالی امداد کے بجائے مستقل روزگار کا بندوبست ہوسکے تاکہ خوددار لوگ شان مان اور عزت کے ساتھ روزی بھی کمائیں اور قومی خدمت بھی کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ ادبی اور فنی تنظیمیں اس طرح کے روزگار دینے کے لیے کچھ پروگرام مرتب کریں جس کے ذریعے سب کو ذریعہ معاش مل سکے۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر ہمارے پاس ادبی خزانے میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔