وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے تحفظ میں ناکام ہو گئیں چیف جسٹس

لوگوں کا تحفظ نہیں کرسکتے توحکومت میں کیوں ہیں؟چیف جسٹس،عدالت کہے تو وزیراعلیٰ مستعفی ہوجاتے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل

لوگوں کا تحفظ نہیں کرسکتے توحکومت میں کیوں ہیں؟چیف جسٹس،عدالت کہے تو وزیراعلیٰ مستعفی ہوجاتے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر بلوچستان حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ جو حکومت اپنے عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی اسے حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی، ڈاکٹر سعیدکی رہائی کیلیے تاوان کس وزیرکو ادا کیا گیا سب کو معلوم ہے، رہائی کیلیے مذاکرات کرنیوالے افسران کو فوری معطل کرنا چاہیے تھا جو اغواء کنندگان کی گرفتاری میں اپنی جان کے ڈرکی وجہ سے ناکام رہے۔

صوبے میں28ڈاکٹر قتل ہو گئے آج تک ایک قاتل بھی نہیں پکڑا گیا،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بدھ کو اپنے حکم نامے میں قرار دیا کہ اگرکوئی یہ سمجھ رہاہے کہ وہ اپنی ناکامی پر وقت لے رہاہے تو یہ ان کے رسک پر ہو رہا ہے،لوگوں کو تحفظ دینا حکومت کی ذمے داری ہے لیکن حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام رہی،لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے لاپتہ افراد کے لواحقین مزید پریشانیوں سے دو چار ہو چکے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد حکومت نے امن و امان کی بہتری کیلیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جس کی سربراہی وزیر اعلیٰ خودکر رہے ہیں جبکہ اس میں کمانڈر سدرن کمانڈ،آئی ایس آئی ،ایم آئی،صوبائی وزیر داخلہ ،آئی جی پولیس سب شامل ہیں ان سب نے مل بیٹھ کر امن او امان کی بہتری کیلیے ایک حکمت عملی ترتیب دی ہے اور عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔


جس کی وجہ سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے ۔انھوں نے اس حوالے سے ایک پیشرفت پر مبنی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تاہم عدالت نے اسے مسترد کر دیا ۔چیف جسٹس نے کہا ڈاکٹر سعیدکی رہائی کس طرح ہوئی،کس نے تاوان کی رقم کس کو ادا کی، اس کا سب کو علم ہے ۔عدالت کے استفسار پرشاہدحامد نے تسلیم کیا کہ ڈاکٹر سعیدکی رہائی 95لاکھ تاوان دیکر عمل میں آئی ،ملزمان سے مذاکرات کیے گئے تھے ۔چیف جسٹس نے کہا یہ ہمارا ملک ہے اس کو مجرموں کے حوالے نہیں کر سکتے۔چیف سیکریٹری اور آئی جی ملزمان کوگرفتار نہیں کر سکتے تو ان کا عہدوں پر برقرار رہنے کا جوازکیا ہے۔ ہڑتالی ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر رشید نے بتایا کہ ڈاکٹر سعیدکوکوئٹہ یا اس کے آس پاس رکھا گیا تھا، اغواء میں دھادڑکی اہم شخصیت ملوث ہے۔جب ہم نے اس کی گرفتاری کیلیے گورنر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں وہ بہت با اثر ہے ۔



گورنر بلوچستان نے کہاکہ اسمبلی میں سب چوربیٹھے ہوئے ہیں ،شاہد حامد نے کہاکہ ایسی باتیں کہنے سے روکا جائے تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ یہ باتیں اب عام ہیں ایک وزیر نے خودکہاکہ اغواء میں وزراء ملوث ہیں ۔دھادڑ میں کون وزیر رہتا ہے سب کو علم ہے۔عدالت تمام معاملے سے مطمئن نہیں ،ہم بہت آگے نہیں جانا چاہتے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ جب تک آٹھ دس بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا معاملات بہتر نہیں ہونگے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ صوبائی حکومت نے عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی کی تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ڈاکٹروں کے وکیل نے کہاکہ حکومت تحفظ کی یقین دہانی کرائے تو ڈاکٹر فرائض سنبھالنے میں ایک منٹ کی دیر بھی نہیں کریں گے۔این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کی جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہیں، جان و مال کے تحفظ میں ناکامی پرذمے داران قانون کی گرفت میں آئیں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ بلوچستان حکومت اپنا آئینی اختیارکھوچکی ہے ، وزیراعلیٰ صوبے میں اغوا ء اور ہلاکتوںکی ذمہ داری قبول کریں، تحفظ نہیں کرسکتے تو حکومت میںکیوں بیٹھے ہیں؟ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی قانونی اتھارٹی کے بغیرکام کر رہا ہے تو اس کو ذمہ داری بھی لینا ہو گی۔بلوچستان حکومت آئینی اختیارکھونے کے بعد ڈھیٹ بنی بیٹھی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے کہا کہ عدالت کہتی ہے تو وزیر اعلیٰ استعفیٰ دے دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو نہیں پتہ کہ آپ نے کیا کرنا ہے، آئین پڑھیں اور فیصلہ پڑھیں ۔ بلوچستان حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت ڈاکٹروںکو ہڑتال ختم کرنے کا حکم دے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہ حکم کیوں دیں؟ آپ انھیں تحفظ فراہم کریں۔ عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال میں ذمے داران جلد آئین اور قانون کی گرفت میں آئیں گے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story