چائے
بارانی علاقے کا جم پل ہوں، بارش، بارش اور مزید بارش یہ میری پیاسی زندگی کا موروثی نعرہ ہے
بارانی علاقے کا جم پل ہوں، بارش، بارش اور مزید بارش یہ میری پیاسی زندگی کا موروثی نعرہ ہے۔ زبان پر بارش اور نظروں کے سامنے بارش، یہ میری نہ ختم ہونے والی حسرت اور تمنا ہے۔ میں جب کبھی مشرقی پاکستان جاتا تھا اور وہاں اکثر و بیشتر جہاز سے اترتے ہی بارشوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو اپنے ان مشرقی بھائیوں کی قسمت پر رشک کرتا تھا جو ایسے جل تھل سبزہ زاروں اور زمینوں میں آباد ہیں۔
وہاں کے پاکستانی جب بھی شکوہ کرتے اور یہ اکثر کرتے کہ ہم ایک جدید دنیا کی آبادی ہیں اور وہ ایک گھسی پٹی پرانی طرز کی آبادی کے شہر میں ہیں تو انھیں بتانے کی کوشش کرتے کہ انھوں نے خشک سالی کبھی دیکھی نہیں ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے۔ قحط اور بارشوں سے ایک عرصہ تک کی محرومی انسانی زندگی کو انسانی افسردگی سے بھر دیتی ہے۔ بارش اور اس سے پیدا ہونے والا سبزہ انسانی زندگی کو گل و گلزار بنا دیتا ہے اور اس میں زندگی کی ایک نئی امنگ پیدا ہوتی ہے جو اس کی مایوسیوں اور محرومیوں کو اس کی زندگی سے غائب کر دیتی ہے۔
بارش میں نہ جانے کیا کشش ہے کہ بارشوں میں پیدا ہونے والے انسان بھی بارش کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ایک بہت ہی پرانی بات یاد آ رہی ہے کہ ایک بار ڈھاکا میں سیاسی جلسہ گاہ تک پیدل چل رہے تھے کہ مولانا مودودی نے ادھر ادھر بکھرے ہوئے سبزے کی بوٹیوں کو دیکھ کر کہا کہ ہمارے وطن عزیز میں کتنا تنوع ہے کہ اس کا ایک حصہ اگر ہر وقت بارشوں کا طلب گا رہتا ہے تو دوسرا حصہ ہر وقت بارشوں سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔
قدرت سرزمین پاکستان کو اپنی کسی نعمت سے محروم نہیں کرتی۔ یہاں ہر موسم اور اس کا ہر رنگ سال بھر دیکھنے کو ملتا ہے۔ خوش نصیب ہیں یہاں کے کاشتکار جو فصلوں کے بیج اٹھا کر اپنی پسند اور مرضی کی زمین میں بو دیتے ہیں جو اس ملک کے کسی نہ کسی حصے میں موجود رہتی ہے اور کاشتکاروں کی پسند کی تسکین کرتی رہتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ اپنے وطن کے ایک حصے میں جہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہوا کرتا تھا، کچھ لوگ اپنی پسند کی فصلیں کاشت کرتے اور چائے پیدا کر لیتے۔ چائے کے بے پناہ سبز اور شاداب کھیت شاید ہی آپ نے دیکھے ہوں۔ ہمارے خشک علاقوں کے باشندوں کو میں نے ان کھیتوں کے کناروں پہ گم سم بیٹھے دیکھا ہے جن میں کبھی میں بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ اتنا تند و تیز سبزہ اور وہ بھی دور دور تک پھیلا ہوا انسانی حیرت کو دوچند کر دیتا ہے۔ سبزے کے ان کھیتوں میں سادہ کپڑوں میں ملبوس لڑکیاں جو چائے کی پتیاں چن رہی ہوتی ہیں اور خود ان کھیتوں کا ایک حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
ان سبزہ زاروں کو نئی رونق بختی ہیں جو انسانی وجود سے ہی سامنے آتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں چائے کے ان کھیتوں میں ظاہر ہے کہ مقامی لڑکیاں کام کرتی تھیں جن کو چائے کے تاجر مزدوری دیا کرتے تھے اور جو میری اطلاع کے مطابق ٹھیک ٹھاک ہوتی تھی۔ چائے کی فصل کے پودے کے پھول سے وہ کلی اور پتی توڑنا جو چائے بنتی ہو ایک ہنر تھا اور مقامی لڑکیاں یہ ہنر خوب جانتی تھیں کہ چائے کے پودے سے انھیں کیا چاہیے اور کراچی کا سیٹھ ان کی کس پسند کو قبول کر سکتا ہے ورنہ پتوں کے ڈھیر سے اسے کچھ مطلب نہیں تھا۔
چائے کے کھیت جنھیں اسٹیٹ کہا جاتا تھا مشرقی پاکستان کے سرسبز اور بارشی علاقے کی نعمت تھی جو اس خطے میں سری لنکا، بھارت کے کچھ حصے اور مشرقی پاکستان میں واقع تھی۔ اس کی تجارت کراچی کے ہنر مندوں کے سپرد تھی۔ چائے کی ایک ادھ کمپنی بھی اسی نام سے معروف تھی اصفہانی چائے۔ پاکستان میں خوب چلتی تھی۔ جو خالصتاً پاکستان کی پیداوار تھی۔ دوسری کسی برینڈ نام کی کمپنیاں عموماً غیرملکی کاروباری لوگوں کی تھیں۔ یہ اب بھی پاکستان میں خوب پسند کی جاتی ہیں مثلاً لپٹن وغیرہ۔
اس نام سے سروجنی نائیڈو اور مولانا محمد علی جوہر کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے جس میں چائے کے برینڈ نام لپٹن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ سنا ہے چائے کو رائج کرنے میں انگریز تاجروں نے بڑی محنت کی تھی اور پورے ملک میں اس کے سیلز مین نہ صرف چائے بیچتے بلکہ بنا کر لوگوں کو پلاتے بھی تھے کیونکہ تب تک ہندوستانی چائے کے مشروب سے آشنا نہ تھے۔
برطانوی کمپنی نے اپنے اہلکاروں کی ایک فوج بھارت کے مختلف حصوں میں پھیلا دی تھی جو چائے کے اثرات ہی نہیں اس کے کاروبار سے بھی عوام کو باخبر کرتے اور پھر لازم تھا کہ چائے کا استعمال بھی بتایا جاتا جس کے لیے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد مقرر کی گئی جو بھارت میں چائے بنا کر پلاتی اور چائے کے اثرات پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چائے کا آغاز ہوا تھا۔ اب تو چائے کے بغیر زندگی کا تصور بھی آسان نہیں ہے اور برطانوی کاروباری لوگوں کی کوششوں سے یہ اب دنیا بھر میں رائج ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک چائے کے بغیر مہمان نوازی کا تصور رکھتا ہو۔ بہرکیف چائے پیجئے۔ اگرچہ ڈاکٹر اس مشروب کے خلاف ہیں۔
وہاں کے پاکستانی جب بھی شکوہ کرتے اور یہ اکثر کرتے کہ ہم ایک جدید دنیا کی آبادی ہیں اور وہ ایک گھسی پٹی پرانی طرز کی آبادی کے شہر میں ہیں تو انھیں بتانے کی کوشش کرتے کہ انھوں نے خشک سالی کبھی دیکھی نہیں ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے۔ قحط اور بارشوں سے ایک عرصہ تک کی محرومی انسانی زندگی کو انسانی افسردگی سے بھر دیتی ہے۔ بارش اور اس سے پیدا ہونے والا سبزہ انسانی زندگی کو گل و گلزار بنا دیتا ہے اور اس میں زندگی کی ایک نئی امنگ پیدا ہوتی ہے جو اس کی مایوسیوں اور محرومیوں کو اس کی زندگی سے غائب کر دیتی ہے۔
بارش میں نہ جانے کیا کشش ہے کہ بارشوں میں پیدا ہونے والے انسان بھی بارش کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ایک بہت ہی پرانی بات یاد آ رہی ہے کہ ایک بار ڈھاکا میں سیاسی جلسہ گاہ تک پیدل چل رہے تھے کہ مولانا مودودی نے ادھر ادھر بکھرے ہوئے سبزے کی بوٹیوں کو دیکھ کر کہا کہ ہمارے وطن عزیز میں کتنا تنوع ہے کہ اس کا ایک حصہ اگر ہر وقت بارشوں کا طلب گا رہتا ہے تو دوسرا حصہ ہر وقت بارشوں سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔
قدرت سرزمین پاکستان کو اپنی کسی نعمت سے محروم نہیں کرتی۔ یہاں ہر موسم اور اس کا ہر رنگ سال بھر دیکھنے کو ملتا ہے۔ خوش نصیب ہیں یہاں کے کاشتکار جو فصلوں کے بیج اٹھا کر اپنی پسند اور مرضی کی زمین میں بو دیتے ہیں جو اس ملک کے کسی نہ کسی حصے میں موجود رہتی ہے اور کاشتکاروں کی پسند کی تسکین کرتی رہتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ اپنے وطن کے ایک حصے میں جہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہوا کرتا تھا، کچھ لوگ اپنی پسند کی فصلیں کاشت کرتے اور چائے پیدا کر لیتے۔ چائے کے بے پناہ سبز اور شاداب کھیت شاید ہی آپ نے دیکھے ہوں۔ ہمارے خشک علاقوں کے باشندوں کو میں نے ان کھیتوں کے کناروں پہ گم سم بیٹھے دیکھا ہے جن میں کبھی میں بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ اتنا تند و تیز سبزہ اور وہ بھی دور دور تک پھیلا ہوا انسانی حیرت کو دوچند کر دیتا ہے۔ سبزے کے ان کھیتوں میں سادہ کپڑوں میں ملبوس لڑکیاں جو چائے کی پتیاں چن رہی ہوتی ہیں اور خود ان کھیتوں کا ایک حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
ان سبزہ زاروں کو نئی رونق بختی ہیں جو انسانی وجود سے ہی سامنے آتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں چائے کے ان کھیتوں میں ظاہر ہے کہ مقامی لڑکیاں کام کرتی تھیں جن کو چائے کے تاجر مزدوری دیا کرتے تھے اور جو میری اطلاع کے مطابق ٹھیک ٹھاک ہوتی تھی۔ چائے کی فصل کے پودے کے پھول سے وہ کلی اور پتی توڑنا جو چائے بنتی ہو ایک ہنر تھا اور مقامی لڑکیاں یہ ہنر خوب جانتی تھیں کہ چائے کے پودے سے انھیں کیا چاہیے اور کراچی کا سیٹھ ان کی کس پسند کو قبول کر سکتا ہے ورنہ پتوں کے ڈھیر سے اسے کچھ مطلب نہیں تھا۔
چائے کے کھیت جنھیں اسٹیٹ کہا جاتا تھا مشرقی پاکستان کے سرسبز اور بارشی علاقے کی نعمت تھی جو اس خطے میں سری لنکا، بھارت کے کچھ حصے اور مشرقی پاکستان میں واقع تھی۔ اس کی تجارت کراچی کے ہنر مندوں کے سپرد تھی۔ چائے کی ایک ادھ کمپنی بھی اسی نام سے معروف تھی اصفہانی چائے۔ پاکستان میں خوب چلتی تھی۔ جو خالصتاً پاکستان کی پیداوار تھی۔ دوسری کسی برینڈ نام کی کمپنیاں عموماً غیرملکی کاروباری لوگوں کی تھیں۔ یہ اب بھی پاکستان میں خوب پسند کی جاتی ہیں مثلاً لپٹن وغیرہ۔
اس نام سے سروجنی نائیڈو اور مولانا محمد علی جوہر کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے جس میں چائے کے برینڈ نام لپٹن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ سنا ہے چائے کو رائج کرنے میں انگریز تاجروں نے بڑی محنت کی تھی اور پورے ملک میں اس کے سیلز مین نہ صرف چائے بیچتے بلکہ بنا کر لوگوں کو پلاتے بھی تھے کیونکہ تب تک ہندوستانی چائے کے مشروب سے آشنا نہ تھے۔
برطانوی کمپنی نے اپنے اہلکاروں کی ایک فوج بھارت کے مختلف حصوں میں پھیلا دی تھی جو چائے کے اثرات ہی نہیں اس کے کاروبار سے بھی عوام کو باخبر کرتے اور پھر لازم تھا کہ چائے کا استعمال بھی بتایا جاتا جس کے لیے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد مقرر کی گئی جو بھارت میں چائے بنا کر پلاتی اور چائے کے اثرات پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چائے کا آغاز ہوا تھا۔ اب تو چائے کے بغیر زندگی کا تصور بھی آسان نہیں ہے اور برطانوی کاروباری لوگوں کی کوششوں سے یہ اب دنیا بھر میں رائج ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک چائے کے بغیر مہمان نوازی کا تصور رکھتا ہو۔ بہرکیف چائے پیجئے۔ اگرچہ ڈاکٹر اس مشروب کے خلاف ہیں۔