سیاست گری

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں ان دنوں جمہوریت اپنی باری لے رہی ہے۔

h.sethi@hotmail.com

اپنے ملک میں گزشتہ کافی عرصہ سے لوگ اہل سیاست کا ذکر اچھے انداز کے بجائے برے الفاظ میں کرنے لگے ہیں حالانکہ دنیا کی ہر قابل ذکر لغت میں Politicion کے معانی ایسے شخص کے ہیں جو حکومت کے علم اور حکمرانی کے فن کا ماہر اور سیاسیات کا تربیت یافتہ ہو اور جو حکومت کی ساخت، تنظیم اور اصولوں کا ادراک بھی رکھتا ہو۔

اس Definition پر غور کریں تو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عالی دماغ مدبر کی شخصیت ذہن میں ابھرتی ہے جو اپنی سیاسی پارٹی کا وفادار رہتے ہوئے ملک اور اپنے Electorate یعنی اپنے انتخاب کنندگان کی بھلائی اور ترقی کے لیے کام اور قانون سازی کرنے کا فریضہ انجام دیتا نظر آئے اور پارٹی کے منشور پر قائم رہتے ہوئے پارٹی لیڈر کو بھی اصولوں سے انحراف کرنے پر روک نہ سکے تو کم از کم ٹوک دینے کے فرض میں کوتاہی نہ کرے۔ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہی نظام حکومت میں تو سیاستدان نہیں ہوتے شہ کے مصاحب یا ملازم اور کارندے ہوتے ہیں لہٰذا سیاستدان تو منتخب حکومتوں میں رہ کر ہی جمہوری نظام چلاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں ان دنوں جمہوریت اپنی باری لے رہی ہے۔ حالات اچھے رہے عوام تنگ، بدحال، بے اماں اور بیزار نہ ہوئے، فوج بے صبری نہ ہوئی اور جمہوریت نے ڈکٹیٹرشپ کا لبادہ نہ اوڑھا تو سب خیر ہو گی۔ بصورت دیگر تاریخ کے زیادہ نہیں آٹھ دس ورق ہی الٹی طرف پلٹیں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ جائے اور وہ یہ سوچتے ہوئے کہ ''بدترین جمہوریت بہترین ڈکٹیٹر شپ سے اچھی ہوتی ہے'' گومگو کا شکار ہو جائیں۔

میرے ایک دوست شیخ حفیظ الدین نے جو کراچی میں انکم ٹیکس پریکٹشنر ہے ٹیلیفون کر کے مشورہ طلب کیا ہے کہ مصروفیت کے باوجود اس کا حلقہ احباب اور دسترخوان کافی وسیع ہے۔ کیا ان دو پلس پوائنٹس کے ہوتے ہوئے اسے سیاست میں آنے میں دشواری تو نہ ہو گی۔


اس کے جواب میں میرے مشاہدے اور تعلق میں جو اکثر اہل سیاست آئے ہیں انھیں ذہن میں رکھ کر میں نے غور کیا ہے تو آٹھ دس فوری Pre Requisites اس کے سامنے رکھ دی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق نصف سے زیادہ سیاستدان ان شرائط میں سے کسی نہ کسی شرط پر پورا اترتے ہیں۔میں نے اس سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا تم کبھی جیل میں گئے ہو۔ وہ ناراض ہوا کہ یہ کیا بیہودہ سوال ہے میں نے اسے cool رہنے کا کہا اور کئی مشہور لوگوں کے نام گنوائے جو باقاعدہ پلاننگ کر کے سیاسی زیور کلائیوں میں پہن کر تصویریں کھنچوا کر اور انھیں اپنے خرچے پر چھپوا کر جیل گئے اور پھر رہائی کے بعد عوامی خدمت کے لیے سیاست میں آگئے۔

میرے اس دوست کے والد چچا یا بھائی میں سے کوئی بھی سیاست میں نہ رہا تھا اس لیے لاہور کے شریف خاندان، گجرات کی چوہدری فیملی، وہاڑی کے کھچی، سرگودھا کے ٹوانے، ڈیرہ غازی خاں کے لغاری مزاری، سرحد کے ولی، ہوتی، بلوچستان کے سردار، سندھ کے جتوئی، سومرو، مخدوم، چانڈیو وغیرہ وغیرہ کے ساتھ اس کا کوئی مقابلہ نہ ہو سکتا تھا۔ یعنی وہ روایتی یا پیشہ ورانہ سیاست دانوں کی کیٹگری میں نہیں آتا تھا۔پھر میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے لوٹ مار فراڈ کر کے، رشوت لے کر، قرضے معاف کر کے، بھتہ لے کر، زمینوں پر قبضے کر کے، کمیشن بٹور کر کتنی ناجائز اور حرام کی کمائی اکٹھی کر رکھی ہے تو اس نے دانت نکال کر دکھا دیے۔

میں نے پوچھا کہ تمہاری ذات برادری اور مزارعوں کمیوں کی کتنی تعداد ہے، اس پر بھی اس کا جواب نفی میں پا کر کہا کہ تم ووٹر کہاں سے لاؤ گے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا لوگ تمہیں حضور، مائی باپ یا سردار کہہ کر بلاتے ہیں تو جواب ملا دوست اور کلائنٹ تو مجھے بھائی یا پھر شیخ صاحب کہتے اور بلاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کتنے ملاقاتی تمہیں کرسی پر بیٹھا پا کر فرش یا زمین پر بیٹھتے ہیں، جواب ملا سبھی برابر والی کرسیوں یا صوفے پر بیٹھتے ہیں۔ میرا اگلا سوال تھا کہ تم نے کتنے لوگوں کو جیلوں سے چھڑایا اور کتنے افراد کو نوکریاں دلوائیں، سرکاری اراضی پر قبضے کروائے یا دفتروں میں پھنسے ان کے ناجائز کام کروائے ہیں۔ ان تمام سوالوں کا اس کے پاس کوئی مثبت جواب نہ پا کر مجھے اس سے سخت مایوسی ہوئی۔

اس نے مجھ سے کوئی آسان حل ڈھونڈھنے کا کہا تو میں نے جواب دیا افسوس کہ تمہارے آباؤ اجداد میں کوئی اتنا بڑا بزرگ یا پیر بھی نہیں گزرا جس نے خود روکھی سوکھی کھا کر، چٹائی پر بیٹھ کر دینی خدمت کی ہو جس کے تم گدی نشین یا مجاور ہوتے اور وقت گزرنے پر تم نے دنیا داری والی پیری مریدی ہی سیکھ لی ہوتی اور اللہ والے بزرگ کے جانے کے بعد محنت کر کے اس کے صدقے میں مال مویشی اور دس بیس مربعے اراضی ہی گھیر لیتے تو آج سیاست تمہارے گھر کی لونڈی ہوتی۔میں نے آخر میں اسے سمجھایا کہ تم نے تیس پینتیس سال محنت اور رات دن کام کر کے مکان، دفتر، کار بنائے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی دیانت اور امانت کو اصول بنایا۔ دوستیاں بنائیں اور کمائیں، ضرورت مندوں کے کام کیے اور عزت کا مقام حاصل کیا۔

اسی کو غنیمت جان کر سنبھالا۔میرے تمام تر تجزیے کے جواب میں میرے دوست نے کہا کہ تم شاید میری سیاست میں آنے کی خواہش کو مثالیں دے کر میرے لیے ناقابل عمل ثابت کرنا چاہتے ہو لیکن عمران خاں تو صرف ایک جلسہ کر کے سیاست میں IN ہو گیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ کپتان نے جس دن گیٹ کریش کیا اس کے پیچھے اس کی مستقل مزاجی جہد مسلسل، سچ کی آواز، غیر متزلزل عزم اور کئی سال کی ریاضت ہے، عوام و خواص نے اس کی باتوں اور دعوؤں کو سچ اور صحیح جان اور مان کر اس پر لبیک کہا، یہ سچ ہے کہ کپتان کے آنے پر Status Quo قائم رکھنے میں کوشاں طاقتوں کی صفوں میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔ اب جعلی اثاثے ڈکلیئر کرنے والوں پر کھوجی چھوڑے جائیں گے۔ افلاس اور ناخواندگی کا کینسر جب قابل علاج ہو گا تو معاشرہ صحت یاب اور تنومند ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
Load Next Story