پاکستان میں دہشتگردی کی وجوہات
دہشت گردی کا شکار وہ ملک ہوتے ہیں جو عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔
دہشت گردی کا شکار وہ ملک ہوتے ہیں جو عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کی ابتدا سے ہی عدم استحکام کا شکار کر دیا گیا۔ وہ ملک جو جمہوریت کے لیے بنا تھا آمریت کا شکار ہو گیا۔ یہ ایک ہولناک تضاد تھا کیونکہ جمہوریت کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، آمریت کی اپنی۔ جمہوریت کی بنیاد اور زندگی کا انحصار عوام پر ہوتا ہے اور آمریت چند مخصوص طبقوں اور گروہوں پر انحصار کرتی ہے جس کے نتیجے میں عوام اور ان طبقوں کے درمیان معاشی عدم مساوات کے ساتھ ہر طرح کی عدم مساوات پیدا ہو جاتی ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
ملک کے وسائل اور دولت ملک کے چند طبقوں اور گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ یہ عمل اتنا شدید ہے کہ آج ملک کی نصف آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ سرکاری حکام کے مطابق گندا پانی پینے کی وجہ سے روزانہ دس ہزار افراد کم عمری میں موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ اسپتالوں کی حالت ناگفتہ یہ ہے۔ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لاہور جیسے شہر میں سرکاری اسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریض اور فرش پر لٹا کر مریضوں کو ڈرپ لگائی جا رہی ہے۔ غریب بیماری کی شکل میں سک سک کر مرتا ہے۔
مہنگا علاج تو ایک طرف سستا علاج بھی اس کے بس میں نہیں۔ کیونکہ اس کے پاس وسائل ہی نہیں۔ جہاں روزانہ آمدنی ڈیڑھ دو سو روپے ہو۔ وہ بھی مزدوری ملنے پر۔ وہاں تو ٹونے ٹوٹکے اور دم پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں۔ پورے پاکستان میں صحت کی سہولتوں کا یہی حال ہے۔ بڑے شہروں میں صحت کی سہولتیں صرف امیروں کو میسر ہیں جو پرائیویٹ کلینک میں لاکھوں روپے اپنے علاج معالجہ پر صرف کر سکتے ہیں۔ ان پرائیویٹ کلینک میں علاج کے نام پر لوٹ مار جاری ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں دیہات کا تو اللہ ہی مالک ہے۔ جہاں اسپتال ڈسپنسری ہیں تو ڈاکٹر نہیں۔ مریضوں سے سلوک ایسے ہوتا ہے جیسے وہ انسان نہیں جانور ہیں۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو وہ پرائیویٹائز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوالٹی ایجوکیشن کو حاصل کرنے کے لیے بارھویں جماعت تک والدین کے ایک بچے پر بیس لاکھ خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ضروری نہیں کہ بچہ ڈاکٹر انجینئر بن سکے۔ اتنے پیسے خرچ کرنے کے باوجود بھی اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی لوٹ مار میں کسی سے کم نہیں۔ مہنگی کتابیں کاپیاں اور یونیفارم جو وہ خود مہیا کرتے ہیں، لوئر مڈل اور مڈل کلاس والدین کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیوشن اکیڈمیز کا خرچہ علیحدہ ہے۔ اب ان خرچوں میں بجلی وغیرہ کے بل ڈال دیں تو کھانے کے لیے کیا اور کتنا بچتا ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اپنے قد سے چھوٹے رہ جانے ملکوں میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر بھارت اور نائیجیریا ہیں۔ کیوں کہ جب بچوں کو کھانے کے لیے مکمل غذا نہیں ملے گی تو ان کے قد نہ صرف چھوٹے رہ جائیں گے بلکہ ان کا دماغ بھی صحیح طرح سے نشوونما نہیں پا سکے گا چھوٹے قد اور کمزور دماغ کے ساتھ ہماری نئی نسل پاکستان کی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکے گی۔ اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ستر سال ہونے کو آ رہے ہیں۔ حکومت پاکستانی شہریوں کو رہائش کی سہولتیں ہی مہیا نہیں کر سکی ہے۔ بے گھر لوگوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ حکومتی رہائشی اقدامات آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
حکومتی سطح پر تو گھر بنائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر اپنے ہی وفا دار لوگوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ عام شہری خاص طور پر سڑک پر کوڑے میں سے رزق تلاش کرنے والے کا اس سے کیا واسطہ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 90 لاکھ گھروں کی کمی ہے اور یہ کمی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کے پاس اپنے ذاتی گھر ہیں۔ تمام زندگی اپنے گھر کا خواب لیے پاکستانیوں کی اکثریت قبروں میں اتر جاتی ہے۔
پاکستانیوں کی دوتہائی آبادی کرائے کے گھروں میں رہ رہی ہے جہاں رہائش کی انتہائی ناکافی سہولتیں ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی شہروں میں کچی آبادیوں میں رہ رہے ہیں جہاں نہ گندے پانی کی نکاسی ہے اور نہ پینے کا صاف پانی۔ ان علاقوں کے مکینوں کی اکثریت کی آمدنی ماہانہ آٹھ سے بارہ ہزار روپے ہے جب کہ اہل خانہ آٹھ افراد پر مشتمل ہیں۔ کچی آبادیوں میں کرایہ چار پانچ ہزار سے کم نہیں۔ اگر وہ یہ کرایہ دیں گے تو کیا کھائیں گے اور کتنا کھائیں گے۔ گوشت بھی یہ لوگ سال میں ایک مرتبہ بقر عید کے موقع پر کھاتے ہیں۔ جیسے جیسے قربانی مہنگی ہو رہی ہے صاحب حیثیت لوگوں میں نادار لوگوں کو قربانی کا گوشت دینے کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے اس کے بجائے وہ فریجوں میں سال بھر کے لیے گوشت اکٹھا کر لیتے ہیں نتیجے میں بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت رائج ہے لیکن ایسی جمہوریت جو دولت مندوں اور حکمران طبقات کی خدمت کرتی ہے۔ اس جمہوری نظام میں صرف وہی لوگ آ سکتے ہیں جنہوں نے ناجائز ذرایع دولت اکٹھی کی ہو۔ اس رائج جمہوری نظام میں ڈاکٹر انجینئر استاد ادیب دانشور دیگر پڑھے لکھوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب تو الیکشن کا خرچہ کروڑوں میں چلا گیا ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا۔ اب تو بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل کے چیئرمین کا الیکشن لڑنے والوں کا خرچ کروڑ تک چلا گیا ہے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اپنی محدود آمدنی میں انتہائی مہنگے انتخابات کیسے لڑ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ ان کا کردار ووٹ ڈالنے تک محدود ہو گیا ہے۔ لازمی نہیں کہ عوام کا جیتا ہوا امیدوار کامیاب بھی ہو کیونکہ اس کا فیصلہ حکمران طبقوں نے کرنا ہے کہ کس نے جیتنا ہے اور کس نے ہارنا ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں برادری نظام فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے بقول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے اگلے الیکشن میں 70 فیصد جو امیدوار کامیاب ہوں گے ان کا ابھی سے بتایا جا سکتا ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بڑے سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کی ٹانگیں اس لیے توڑ دی گئیں کہ اس نے برادری ازم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالا تھا۔ چھوٹے شہروں قصبوں دیہات میں برادری کے بڑے کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنا اپنی عزت جان و مال سے ہاتھ دھونا ہے۔
مندرجہ بالا عوامل کی اندرونی وجہ سے پاکستان مستقل طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ چنانچہ پاکستان ایک ایسی زرخیز سرزمین بن گیا ہے جہاں شدت پسندی کے جراثیم بڑی تیزی سے پروان چڑھتے ہیں اور عوام ہر طرح کے تعصبات کا شکار ہوتے ہوئے بڑی آسانی سے دہشت گرد گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم کا نیا جنم اگلے سال مکمل ہو گا۔
ملک کے وسائل اور دولت ملک کے چند طبقوں اور گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ یہ عمل اتنا شدید ہے کہ آج ملک کی نصف آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ سرکاری حکام کے مطابق گندا پانی پینے کی وجہ سے روزانہ دس ہزار افراد کم عمری میں موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ اسپتالوں کی حالت ناگفتہ یہ ہے۔ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لاہور جیسے شہر میں سرکاری اسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریض اور فرش پر لٹا کر مریضوں کو ڈرپ لگائی جا رہی ہے۔ غریب بیماری کی شکل میں سک سک کر مرتا ہے۔
مہنگا علاج تو ایک طرف سستا علاج بھی اس کے بس میں نہیں۔ کیونکہ اس کے پاس وسائل ہی نہیں۔ جہاں روزانہ آمدنی ڈیڑھ دو سو روپے ہو۔ وہ بھی مزدوری ملنے پر۔ وہاں تو ٹونے ٹوٹکے اور دم پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں۔ پورے پاکستان میں صحت کی سہولتوں کا یہی حال ہے۔ بڑے شہروں میں صحت کی سہولتیں صرف امیروں کو میسر ہیں جو پرائیویٹ کلینک میں لاکھوں روپے اپنے علاج معالجہ پر صرف کر سکتے ہیں۔ ان پرائیویٹ کلینک میں علاج کے نام پر لوٹ مار جاری ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں دیہات کا تو اللہ ہی مالک ہے۔ جہاں اسپتال ڈسپنسری ہیں تو ڈاکٹر نہیں۔ مریضوں سے سلوک ایسے ہوتا ہے جیسے وہ انسان نہیں جانور ہیں۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو وہ پرائیویٹائز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوالٹی ایجوکیشن کو حاصل کرنے کے لیے بارھویں جماعت تک والدین کے ایک بچے پر بیس لاکھ خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ضروری نہیں کہ بچہ ڈاکٹر انجینئر بن سکے۔ اتنے پیسے خرچ کرنے کے باوجود بھی اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی لوٹ مار میں کسی سے کم نہیں۔ مہنگی کتابیں کاپیاں اور یونیفارم جو وہ خود مہیا کرتے ہیں، لوئر مڈل اور مڈل کلاس والدین کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیوشن اکیڈمیز کا خرچہ علیحدہ ہے۔ اب ان خرچوں میں بجلی وغیرہ کے بل ڈال دیں تو کھانے کے لیے کیا اور کتنا بچتا ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اپنے قد سے چھوٹے رہ جانے ملکوں میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر بھارت اور نائیجیریا ہیں۔ کیوں کہ جب بچوں کو کھانے کے لیے مکمل غذا نہیں ملے گی تو ان کے قد نہ صرف چھوٹے رہ جائیں گے بلکہ ان کا دماغ بھی صحیح طرح سے نشوونما نہیں پا سکے گا چھوٹے قد اور کمزور دماغ کے ساتھ ہماری نئی نسل پاکستان کی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکے گی۔ اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ ستر سال ہونے کو آ رہے ہیں۔ حکومت پاکستانی شہریوں کو رہائش کی سہولتیں ہی مہیا نہیں کر سکی ہے۔ بے گھر لوگوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ حکومتی رہائشی اقدامات آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
حکومتی سطح پر تو گھر بنائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر اپنے ہی وفا دار لوگوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ عام شہری خاص طور پر سڑک پر کوڑے میں سے رزق تلاش کرنے والے کا اس سے کیا واسطہ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 90 لاکھ گھروں کی کمی ہے اور یہ کمی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کے پاس اپنے ذاتی گھر ہیں۔ تمام زندگی اپنے گھر کا خواب لیے پاکستانیوں کی اکثریت قبروں میں اتر جاتی ہے۔
پاکستانیوں کی دوتہائی آبادی کرائے کے گھروں میں رہ رہی ہے جہاں رہائش کی انتہائی ناکافی سہولتیں ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی شہروں میں کچی آبادیوں میں رہ رہے ہیں جہاں نہ گندے پانی کی نکاسی ہے اور نہ پینے کا صاف پانی۔ ان علاقوں کے مکینوں کی اکثریت کی آمدنی ماہانہ آٹھ سے بارہ ہزار روپے ہے جب کہ اہل خانہ آٹھ افراد پر مشتمل ہیں۔ کچی آبادیوں میں کرایہ چار پانچ ہزار سے کم نہیں۔ اگر وہ یہ کرایہ دیں گے تو کیا کھائیں گے اور کتنا کھائیں گے۔ گوشت بھی یہ لوگ سال میں ایک مرتبہ بقر عید کے موقع پر کھاتے ہیں۔ جیسے جیسے قربانی مہنگی ہو رہی ہے صاحب حیثیت لوگوں میں نادار لوگوں کو قربانی کا گوشت دینے کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے اس کے بجائے وہ فریجوں میں سال بھر کے لیے گوشت اکٹھا کر لیتے ہیں نتیجے میں بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت رائج ہے لیکن ایسی جمہوریت جو دولت مندوں اور حکمران طبقات کی خدمت کرتی ہے۔ اس جمہوری نظام میں صرف وہی لوگ آ سکتے ہیں جنہوں نے ناجائز ذرایع دولت اکٹھی کی ہو۔ اس رائج جمہوری نظام میں ڈاکٹر انجینئر استاد ادیب دانشور دیگر پڑھے لکھوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب تو الیکشن کا خرچہ کروڑوں میں چلا گیا ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا۔ اب تو بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل کے چیئرمین کا الیکشن لڑنے والوں کا خرچ کروڑ تک چلا گیا ہے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اپنی محدود آمدنی میں انتہائی مہنگے انتخابات کیسے لڑ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ ان کا کردار ووٹ ڈالنے تک محدود ہو گیا ہے۔ لازمی نہیں کہ عوام کا جیتا ہوا امیدوار کامیاب بھی ہو کیونکہ اس کا فیصلہ حکمران طبقوں نے کرنا ہے کہ کس نے جیتنا ہے اور کس نے ہارنا ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں برادری نظام فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے بقول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے اگلے الیکشن میں 70 فیصد جو امیدوار کامیاب ہوں گے ان کا ابھی سے بتایا جا سکتا ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بڑے سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کی ٹانگیں اس لیے توڑ دی گئیں کہ اس نے برادری ازم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالا تھا۔ چھوٹے شہروں قصبوں دیہات میں برادری کے بڑے کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنا اپنی عزت جان و مال سے ہاتھ دھونا ہے۔
مندرجہ بالا عوامل کی اندرونی وجہ سے پاکستان مستقل طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ چنانچہ پاکستان ایک ایسی زرخیز سرزمین بن گیا ہے جہاں شدت پسندی کے جراثیم بڑی تیزی سے پروان چڑھتے ہیں اور عوام ہر طرح کے تعصبات کا شکار ہوتے ہوئے بڑی آسانی سے دہشت گرد گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم کا نیا جنم اگلے سال مکمل ہو گا۔