یونیورسٹی سے کلب تک
یونیورسٹی کا مطلب علمی درس گاہ ہوتا ہے۔ جوانی بھی ہوتی ہے اور آنکھوں میں کچھ خواب بھی سجے ہوتے ہیں۔
LONDON:
یونیورسٹی کا مطلب علمی درس گاہ ہوتا ہے۔ جوانی بھی ہوتی ہے اور آنکھوں میں کچھ خواب بھی سجے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی سے کلب تک کا کیا مطلب ہے؟ ایک طلبہ تنظیم کی ابتدا 78 میں جامعہ کراچی سے ہوئی۔ چھ سال بعد وہ ایک سیاسی تنظیم میں ڈھل گئی۔ تین سال گزرے تو وہ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئرز منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب تین عشرے گزرنے کے بعد کراچی سے وسیم اختر اور حیدرآباد سے طیب حسین اپنے اپنے شہروں کی بلدیات کے سربراہ منتخب ہوگئے۔
ان تیس بتیس برسوں میں نوجوان اب بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیا اس تجربے نے ایم کیو ایم کی قیادت کو کندن بنادیا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کراچی پریس کلب پر ریاست پاکستان کے حوالے سے باتیں اپنے اندر کس قدر دانش لیے ہوئے تھیں؟ بیس سال کی عمر میں انسان کے پاس خوبصورتی ہوتی ہے تو تیس سال کی عمر میں طاقت اور چالیس سال کی عمر میں دانش مندی۔ سندھ کے شہری علاقوں کے نمایندے حسن اور قوت والا دور گزار کر کب کے دانشور دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ 23 اگست کو پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ کے حاضرین سے لندن سے ہونے والا خطاب کس قدر سمجھ داری پر مبنی تھا؟
دو سو گھنٹوں بعد یعنی یوم آزادی کے صرف نو دنوں کے بعد ہونے والا خطاب حیران کن تھا۔ اس مرتبہ جس شاندار انداز میں 14 اگست منایا گیا، اس نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اربوں روپوں کے جھنڈے، اسٹیکرز، لباس، بیجز اور ٹوپیاں خریدنے والے وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔ چھوٹا بڑا، امیر غریب، شہری و دیہاتی، جوان، بوڑھا، تمام لوگ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان پر اپنے ایمان کو مزید مستحکم کرچکے ہیں۔
ایسے میں ریاست پاکستان کے خلاف نعرے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ لندن والی ایم کیو ایم کی قیادت کے دانش و تجربے کو پرکھا جائے اور وہ بھی تاریخ کی کسوٹی پر۔ اس کے ساتھ پاکستان اور سندھ کی حکومتوں کو ''حصہ بقدر جثہ'' کے اصول کی یاد دہانی کروائی جائے۔ پہلے ہم پہاڑ کی چوٹی سے دنیا کے سات سمندروں کا نظارہ کریں گے اور پھر پاکستان کے سیاسی دریا میں ایم کیو ایم کی ہچکولے کھاتی کشتی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سات سمندر پار سے ہندوستانیوں پر حکومت کرنے والوں کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ ہٹلر کی بدولت کمزور ہوئے تو غلاموں کو آزادی دینے پر مجبور ہوئے۔ عظیم تر برطانیہ نے 1947 میں ہندوستان کو آزاد کیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اگر ہٹلر نہ ہوتا تو ممکن ہے ہمیں ساٹھ یا ستر کے عشرے میں بھی آزادی نہ ملتی۔ اسی طرح اگر امریکا ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری نہ کرتا تو دوسری جنگ عظیم مزید طول پکڑتی۔ بنگلہ دیش اس لیے قائم ہوا کہ وہ مغربی پاکستان سے سولہ سو کلومیٹر دور تھا۔
وہاں بھارتی ''گھس بیٹھیوں'' کا مقابلہ نہ کیا جا سکا۔ لندن ہندوستان سے اور اسلام آباد ڈھاکا سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھے۔ اگر 71 میں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو اتنی آسانی سے سقوط ڈھاکا ممکن نہ تھا۔ موجودہ پاکستان کی سرحدیں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں، اب ایٹمی پاکستان کو توڑنا اتنا آسان نہیں جتنا کچھ نادانوں نے سمجھ لیا ہے۔ شکایات کا حل پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی ممکن ہے۔
ولی خان کی قیادت میں ناراض پختون ان کی زندگی میں ہی بدل گئے تھے۔ اب انھوں نے آئین میں اپنی پسند کے مطابق اپنے صوبے کا نام درج کروایا ہے، ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد سندھ کے بدگمان دوستوں کی بدگمانی بے نظیر نے دور کردی۔ بلوچوں کی اکثریت وفاق کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق مانگ رہی ہے۔ مودی کے ایک بیان پر بلوچوں کا پاکستانی جھنڈے تھام کر سڑکوں پر آنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ مہاجر کو متحدہ بنانا اور ایم کیو ایم کی پورے ملک میں شاخوں سے نکل کر دریا میں غوطہ زنی کی طرف اہم قدم۔ اب کیا ہوگیا؟ یہ بڑا اہم سوال ہے اور پورا کالم پڑھے بغیر کوئی رائے قائم کرنا زیادتی ہوگی۔
اب پاکستان کو توڑنے کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر باہم جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ساٹھ ستر سال قبل نہیں ہوا بلکہ یہ خطہ صدیوں سے باہم جڑا ہوا ہے۔ اب یہ علاقے ریاست پاکستان کا حصہ ہیں، جسے قیامت کی صبح تک قائم رہنا ہے۔ شکایات اور ناراضگی گھروں میں بھی ہوتی ہے اور خاندانوں میں بھی۔ یہ گلی محلوں میں بھی ہوتی ہے اور شہروں میں بھی۔ صوبوں کے درمیان بدمزگیاں ہوتی ہیں اور قوموں کے درمیان بھی۔ اس کا راستہ باہم مل کر بدگمانیاں دور کرنا ہے نہ کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں پر کوڑے برسانا۔
آیئے! سندھ کے شہری علاقے کے لوگوں کی تلخی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، قبل از ایم کیو ایم اور بعد از ایم کیو ایم۔ ایوب خان نے دارالخلافہ کراچی سے منتقل کیا اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے والوں کو سمندر میں دھکیلنے کی بات کی۔ بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا اور پھر ''لسانی بل'' پر بدمزگی پیدا ہوئی۔ 80 کے عشرے میں کراچی اور حیدرآباد نے ایک پارٹی پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ بھرپور نمایندگی کے باوجود بھی ایم کیو ایم پاکستان تو کیا سندھ میں بھی حکومت نہیں بناسکتی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے اختلافات ایم کیو ایم کی اہمیت کو بڑھاتے رہے۔
بے نظیر اور آصف زرداری وفاق میں حکومت بنانے کی خاطر عزیز آباد جاتے تو نواز شریف پی پی کو سندھ حکومت سے مائنس کرنے کی خاطر کراچی کا دورہ کرتے۔ یہ سلسلہ 2013 تک جاری رہا۔ اسی دوران مشرف نے بھی ایم کیو ایم کی بھرپور سرپرستی کی۔ اب دونوں بڑی پارٹیوں کی ہم آہنگی نے متحدہ کی اہمیت گھٹا دی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اسلام آباد میں نہیں تو انھیں اپنے نمبروں کو پورا کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر سندھ پیپلزپارٹی کے حوالے کیا ہے۔ یوں نہ اب کوئی لیگی وادی مہران میں وزیر ہے اور نہ رائے ونڈ کو عزیز آباد کی حاجت۔ وفاق اور سندھ میں ایم کیو ایم کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندگی کہیں بھی نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا یا بہت کم اختیارات بھی تلخی کی ایک اور وجہ ہے،دیگر شہر تو ترقی کررہے ہیں لیکن کراچی کو ''کچرا چوی'' کہہ کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ یہ ہے عدم نمایندگی کی تلخی۔ اسلام آباد میں کابینہ کا اجلاس ہو یا سندھ کیبنٹ کی کوئی میٹنگ، کراچی و حیدرآباد کے منتخب نمایندوں کا دکھائی دیا جانا وقت کی ضرورت ہے ۔
انڈیا اس لیے تعمیر ہوا کہ ہندو ہمیں نمایندگی دینے کو تیار نہ تھے۔پاکستان اس لیے منقسم ہوا کہ ہم بنگالیوں کو ان کاحصہ ان کی آبادی کے مطابق یا بقدر جثہ دینے کو تیارنہ تھے۔ ان مسائل اور تمام تر باتوں کے باوجود بلکہ ان تمام تر شکایات کے باوجود حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی تلخی ریاست پاکستان کے خلاف نعروںکاجواز نہیں بن سکتی۔ بے شک آپ نا انصافی کی شکایات کریں، بلاشبہ آپ حکومتوں پر تنقید کریں لیکن ریاست پاکستان اس سے بالاتر ہے۔ جوانی میںکراچی یونیورسٹی سے اپنی سیاست کی ابتدا کرنے والوں کو بزرگی کی دانشورانہ عمر میں وہ بات نہیں کرنی چاہیے جو کراچی پریس کلب پر کی گئی۔ کراچی کے شہری ایم کیو ایم لندن کی قیادت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تجربے سے کچھ سیکھیں، وہ تجربہ جو گزرا ہے انھوں نے یونیورسٹی سے کلب تک۔
یونیورسٹی کا مطلب علمی درس گاہ ہوتا ہے۔ جوانی بھی ہوتی ہے اور آنکھوں میں کچھ خواب بھی سجے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی سے کلب تک کا کیا مطلب ہے؟ ایک طلبہ تنظیم کی ابتدا 78 میں جامعہ کراچی سے ہوئی۔ چھ سال بعد وہ ایک سیاسی تنظیم میں ڈھل گئی۔ تین سال گزرے تو وہ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئرز منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب تین عشرے گزرنے کے بعد کراچی سے وسیم اختر اور حیدرآباد سے طیب حسین اپنے اپنے شہروں کی بلدیات کے سربراہ منتخب ہوگئے۔
ان تیس بتیس برسوں میں نوجوان اب بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوگئے ہیں۔ کیا اس تجربے نے ایم کیو ایم کی قیادت کو کندن بنادیا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کراچی پریس کلب پر ریاست پاکستان کے حوالے سے باتیں اپنے اندر کس قدر دانش لیے ہوئے تھیں؟ بیس سال کی عمر میں انسان کے پاس خوبصورتی ہوتی ہے تو تیس سال کی عمر میں طاقت اور چالیس سال کی عمر میں دانش مندی۔ سندھ کے شہری علاقوں کے نمایندے حسن اور قوت والا دور گزار کر کب کے دانشور دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ 23 اگست کو پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ کے حاضرین سے لندن سے ہونے والا خطاب کس قدر سمجھ داری پر مبنی تھا؟
دو سو گھنٹوں بعد یعنی یوم آزادی کے صرف نو دنوں کے بعد ہونے والا خطاب حیران کن تھا۔ اس مرتبہ جس شاندار انداز میں 14 اگست منایا گیا، اس نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اربوں روپوں کے جھنڈے، اسٹیکرز، لباس، بیجز اور ٹوپیاں خریدنے والے وطن کی محبت سے سرشار ہیں۔ چھوٹا بڑا، امیر غریب، شہری و دیہاتی، جوان، بوڑھا، تمام لوگ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان پر اپنے ایمان کو مزید مستحکم کرچکے ہیں۔
ایسے میں ریاست پاکستان کے خلاف نعرے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ لندن والی ایم کیو ایم کی قیادت کے دانش و تجربے کو پرکھا جائے اور وہ بھی تاریخ کی کسوٹی پر۔ اس کے ساتھ پاکستان اور سندھ کی حکومتوں کو ''حصہ بقدر جثہ'' کے اصول کی یاد دہانی کروائی جائے۔ پہلے ہم پہاڑ کی چوٹی سے دنیا کے سات سمندروں کا نظارہ کریں گے اور پھر پاکستان کے سیاسی دریا میں ایم کیو ایم کی ہچکولے کھاتی کشتی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سات سمندر پار سے ہندوستانیوں پر حکومت کرنے والوں کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ ہٹلر کی بدولت کمزور ہوئے تو غلاموں کو آزادی دینے پر مجبور ہوئے۔ عظیم تر برطانیہ نے 1947 میں ہندوستان کو آزاد کیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اگر ہٹلر نہ ہوتا تو ممکن ہے ہمیں ساٹھ یا ستر کے عشرے میں بھی آزادی نہ ملتی۔ اسی طرح اگر امریکا ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری نہ کرتا تو دوسری جنگ عظیم مزید طول پکڑتی۔ بنگلہ دیش اس لیے قائم ہوا کہ وہ مغربی پاکستان سے سولہ سو کلومیٹر دور تھا۔
وہاں بھارتی ''گھس بیٹھیوں'' کا مقابلہ نہ کیا جا سکا۔ لندن ہندوستان سے اور اسلام آباد ڈھاکا سے ہزاروں میل کے فاصلے پر تھے۔ اگر 71 میں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو اتنی آسانی سے سقوط ڈھاکا ممکن نہ تھا۔ موجودہ پاکستان کی سرحدیں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں، اب ایٹمی پاکستان کو توڑنا اتنا آسان نہیں جتنا کچھ نادانوں نے سمجھ لیا ہے۔ شکایات کا حل پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی ممکن ہے۔
ولی خان کی قیادت میں ناراض پختون ان کی زندگی میں ہی بدل گئے تھے۔ اب انھوں نے آئین میں اپنی پسند کے مطابق اپنے صوبے کا نام درج کروایا ہے، ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد سندھ کے بدگمان دوستوں کی بدگمانی بے نظیر نے دور کردی۔ بلوچوں کی اکثریت وفاق کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق مانگ رہی ہے۔ مودی کے ایک بیان پر بلوچوں کا پاکستانی جھنڈے تھام کر سڑکوں پر آنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ مہاجر کو متحدہ بنانا اور ایم کیو ایم کی پورے ملک میں شاخوں سے نکل کر دریا میں غوطہ زنی کی طرف اہم قدم۔ اب کیا ہوگیا؟ یہ بڑا اہم سوال ہے اور پورا کالم پڑھے بغیر کوئی رائے قائم کرنا زیادتی ہوگی۔
اب پاکستان کو توڑنے کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر باہم جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ساٹھ ستر سال قبل نہیں ہوا بلکہ یہ خطہ صدیوں سے باہم جڑا ہوا ہے۔ اب یہ علاقے ریاست پاکستان کا حصہ ہیں، جسے قیامت کی صبح تک قائم رہنا ہے۔ شکایات اور ناراضگی گھروں میں بھی ہوتی ہے اور خاندانوں میں بھی۔ یہ گلی محلوں میں بھی ہوتی ہے اور شہروں میں بھی۔ صوبوں کے درمیان بدمزگیاں ہوتی ہیں اور قوموں کے درمیان بھی۔ اس کا راستہ باہم مل کر بدگمانیاں دور کرنا ہے نہ کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں پر کوڑے برسانا۔
آیئے! سندھ کے شہری علاقے کے لوگوں کی تلخی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، قبل از ایم کیو ایم اور بعد از ایم کیو ایم۔ ایوب خان نے دارالخلافہ کراچی سے منتقل کیا اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے والوں کو سمندر میں دھکیلنے کی بات کی۔ بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا اور پھر ''لسانی بل'' پر بدمزگی پیدا ہوئی۔ 80 کے عشرے میں کراچی اور حیدرآباد نے ایک پارٹی پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ بھرپور نمایندگی کے باوجود بھی ایم کیو ایم پاکستان تو کیا سندھ میں بھی حکومت نہیں بناسکتی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے اختلافات ایم کیو ایم کی اہمیت کو بڑھاتے رہے۔
بے نظیر اور آصف زرداری وفاق میں حکومت بنانے کی خاطر عزیز آباد جاتے تو نواز شریف پی پی کو سندھ حکومت سے مائنس کرنے کی خاطر کراچی کا دورہ کرتے۔ یہ سلسلہ 2013 تک جاری رہا۔ اسی دوران مشرف نے بھی ایم کیو ایم کی بھرپور سرپرستی کی۔ اب دونوں بڑی پارٹیوں کی ہم آہنگی نے متحدہ کی اہمیت گھٹا دی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اسلام آباد میں نہیں تو انھیں اپنے نمبروں کو پورا کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر سندھ پیپلزپارٹی کے حوالے کیا ہے۔ یوں نہ اب کوئی لیگی وادی مہران میں وزیر ہے اور نہ رائے ونڈ کو عزیز آباد کی حاجت۔ وفاق اور سندھ میں ایم کیو ایم کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندگی کہیں بھی نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا یا بہت کم اختیارات بھی تلخی کی ایک اور وجہ ہے،دیگر شہر تو ترقی کررہے ہیں لیکن کراچی کو ''کچرا چوی'' کہہ کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔ یہ ہے عدم نمایندگی کی تلخی۔ اسلام آباد میں کابینہ کا اجلاس ہو یا سندھ کیبنٹ کی کوئی میٹنگ، کراچی و حیدرآباد کے منتخب نمایندوں کا دکھائی دیا جانا وقت کی ضرورت ہے ۔
انڈیا اس لیے تعمیر ہوا کہ ہندو ہمیں نمایندگی دینے کو تیار نہ تھے۔پاکستان اس لیے منقسم ہوا کہ ہم بنگالیوں کو ان کاحصہ ان کی آبادی کے مطابق یا بقدر جثہ دینے کو تیارنہ تھے۔ ان مسائل اور تمام تر باتوں کے باوجود بلکہ ان تمام تر شکایات کے باوجود حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی تلخی ریاست پاکستان کے خلاف نعروںکاجواز نہیں بن سکتی۔ بے شک آپ نا انصافی کی شکایات کریں، بلاشبہ آپ حکومتوں پر تنقید کریں لیکن ریاست پاکستان اس سے بالاتر ہے۔ جوانی میںکراچی یونیورسٹی سے اپنی سیاست کی ابتدا کرنے والوں کو بزرگی کی دانشورانہ عمر میں وہ بات نہیں کرنی چاہیے جو کراچی پریس کلب پر کی گئی۔ کراچی کے شہری ایم کیو ایم لندن کی قیادت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تجربے سے کچھ سیکھیں، وہ تجربہ جو گزرا ہے انھوں نے یونیورسٹی سے کلب تک۔