شام کی سرخ کہانی
2011 میں ہی عوامی مزاحمتی گروپ نے آزاد شامی فوج کے نام سے ایک مسلح گروپ تشکیل دیا
جمہوریہ شام کی سرحد شمال مغرب میں اسرائیل سے ملتی ہے، لبنان، اردن، ترکی اور عراق بھی اس کے قریبی پڑوسی ہیں، اس کی معیشت تیل اور گیس جیسے طاقتور عناصر پر کھڑی ہے، اندازاً ایک کروڑ اناسی، اسی لاکھ کی آبادی میں 90% سے زائد مسلمان ہیں، یہاں سنی اکثریت میں ہیں جب کہ شیعہ اور علوی دوسرے نمبر پر ہیں، صدر بشار الاسد کا تعلق علوی مسلک سے ہے، شام اور اس پر ہونے والے ہولناک جنگی حملوں کی داستان انٹرنیٹ کے ذریعے عام آدمی تک پہنچ رہی ہے، اس خونی داستان کی شروعات 2011 میں ہوئی تھیں، تبدیلی لانے کے جوش نے صدر بشارالاسد کے خلاف ملک میں مظاہرے شروع کردیے، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور بشار الاسد اپنی حکومت بچانے کے لیے ہر طرح سے تیار ہوگئے، 2011 وہ خطرناک سال تھا جس نے شام کی تاریخ میں خونی داستان رقم کردی۔
پانچ برس گزر جانے کے بعد بھی دنیا کی کوئی بھی طاقت شام میں ہونے والی ہولناک سول وار کو روک نہ سکی، محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے لوہے کے پنجرے میں بند مظلوم بھیڑ بکریوں پر خونخوار درندے چھوڑ دیے گئے ہوں اور سب اس کی ہولناکیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ 21 اگست 2013 کی اس خونی رات کو سوتے عام شہریوں پر مشرقی غوط میں ایسے خطرناک میزائل مارے گئے کہ جن سے انسانی جان کے لیے خطرناک سارین گیس کا اخراج ہوا، جس سے چھتیس سو کے قریب انسان متاثر ہوئے۔ اس خونی سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد ان معصوم بچوں کی تھی جو سوتے میں فضا میں ہونے والی گھٹن کے باعث سانس ہی نہ لے سکے اور ہلاک ہوگئے۔ پوری دنیا کے علمبرداروں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا اس کو ''سرخ لکیر'' سے تعبیر کیا گیا، شور و غوغا اٹھا اور بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا اور پھر ایک خاموشی۔
2011 میں ہی عوامی مزاحمتی گروپ نے آزاد شامی فوج کے نام سے ایک مسلح گروپ تشکیل دیا، 2013 میں اسلامک فرنٹ قائم ہوا پھر لبنان جو شام کے پڑوس میں واقع ہے جنگجو تنظیم حزب اللہ شامی اور اسد حکومت کی مدد کے لیے دمشق داخل ہوئی۔ اور ایک نیا تنازعہ کھڑا کیا گیا اس تنازعے کے دوران داعش بھی کود پڑی یہاں تک کہ اس کھینچا تانی میں جولائی 2014 تک ایک تہائی شام پر داعش کا قبضہ ہوگیا، تیل کی تنصیبات ان کے کنٹرول میں چلی گئی۔
امریکا نے اسی علاقے میں شام کے باغیوں کے لیے اسد حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے تھے، ان بے چاروں کو تو کیا لڑنا تھا البتہ وہ ہتھیار داعش نے سنبھال لیے، باغی منہ دیکھتے رہ گئے اور سرمایہ، تربیت ہتھیار سب کچھ داعش کی جھولی میں آن گرا۔ القاعدہ کی ہنگامہ خیزیوں کے بعد داعش کے کارناموں کے اوراق اب شام میں کھل رہے تھے، جو سب دیکھ رہے تھے اور ہاتھ مل رہے تھے کہ داعش کے پاس ایسا کیا ہے کہ وہ تیل کے ذخائر تک جا پہنچا اور انھوں نے اپنی خلافت کا اعلان بھی کردیا۔
امریکی ہتھیاروں کی وصولی کے تنازعے میں روسی صدر پیوٹن بڑے گرم ہوئے، ان کی یہ سختی دنیا بھر کے اخباروں میں نمایاں سرخیوں میں چھپی اور کھلے بندوں وہ بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ان سے پہلے جارجیا اور یوکرین بھی چھپتے چھپاتے اسد حکومت کی ہمنوائی کا حق ادا کررہے تھے لیکن روس کو تیل اور گیس کے ایک بڑے خریدار کی حیثیت سے اپنی جاگیرداری کا سکہ تو نبھانا ہی تھا۔ ساری دنیا ایک بار پھر امریکا اور روس کی اس سرد جنگ کا تماشا دیکھنے میں مگن ہوگئی اور اس تماشے میں پھر نقصان اسی کا ہوا کہ جس کا ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ بے چارے مظلوم نہتے عوام... ڈگڈگی بجانے والوں نے کھیل رچایا اور ہم سب دیکھتے ہی رہے۔
پچھلے ان پانچ چھ برسوں سے شام میں اندازاً ڈھائی لاکھ کے قریب انسان مرچکے ہیں، جب کہ کچھ مقامی اور غیر مقامی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد ساڑھے چار لاکھ ہے، جس میں ایک لاکھ نوے ہزار صرف بچے ہیں، گیارہ ملین کے قریب لوگ اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں۔ اس تمام دکھ کے اسباق میں گو لبنان، ترکی، اردن، عراق بھی اپنے پڑوسیوں کے آنسو پونچھنے میں مصروف ہیں لیکن مغربی ممالک میں جرمنی سرفہرست ہے۔
اگر آپ کے پاس دل ہے۔ آپ جذبات سے عاری نہیں ہیں تو یقیناً ان تمام ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھ کر آپ خودبخود رونے پر مجبور ہوجائیں گے جنھیں ہم ہر روز انٹرنیٹ کے فضائی طیارے کے ذریعے دیکھتے رہتے ہیں، اس فضائی طیارے کے جہاں بے شمار نقصانات ہیں وہیں فوائد بھی ہیں، یہی تو ایک سہارا ہے جو انسانی جذبات کو جھنجھوڑ کر پوچھتا ہے، کیا آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں تخت و تاج کی قیمت اس قدر سنگین اور خوفناک ہے، کھوپڑیوں کے مینار آج بھی بن رہے ہیں، ان کو روکنے والا کوئی ہے۔
14 مارچ 2016 کو برطانیہ کے فارن سیکریٹری فلپ ہیمنڈ نے فرمایا:''اس پورے سیارے پر صرف ایک ایسا شخص ہے جس کے ایک فون کال کرنے سے شام میں ہونے والی سول وار کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور وہ شخص ہے مسٹر پیوٹن''۔
امریکا نے شام کے باغیوں کو ہتھیار دیے تو روس کے مسٹر پیوٹن نے انھیں وارننگ دے دی پھر خود بھی میدان میں کود گئے، اس سے پہلے داعش بھی کود چکی تھی اور برطانیہ کے فارن سیکریٹری کا یہ بیان سمجھنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سوکھی لکڑیوں کو جلانا آسان ہوتا ہے لیکن ہم سب دل سے دعا کرتے ہیں کہ بہت لکڑیاں جل چکی ہیں، اب وہاں امن آئے۔ سرزمین شام پر بہت خون بہہ گیا، بہت قربانیاں دے ڈالیں، اب بچوں کے لاشے دیکھے نہیں جاتے کہ معصوم جانوں نے اب رونا بھی چھوڑ دیا ہے، ان کی معصوم خوفزدہ نگاہیں دنیائے عالم سے سوال کرتی ہیں ''میرا قصور کیا ہے؟''
ہم میں سے کسی کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے، کیونکہ ہم خود ڈرے سہمے اپنی الجھنوں میں گرفتار ہیں، ہمیں اپنے ہی جھمیلوں سے سر کھجانے کی فرصت نہیں، ہم اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں، کسی اور مظلوم کی جانب کیا دیکھیں۔ اور بس اسی طرح چل رہا ہے اس دنیا کا کارواں... کہ ہم سب سرد ہوچکے ہیں۔