فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے16 دہشت گردوں کی اپیلیں مسترد

سزائے موت پانے والے ملزمان پریڈ لائن ، بنوں جیل اور آرمی پبلک اسکول حملہ سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ملوث تھے


ویب ڈیسک August 29, 2016
اسلام آباد:چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا فوٹو: فائل

عدالت عظمٰی نے فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 16 دہشت گردوں كی اپیلیں خارج كرتے ہوئے قرار دیا ہے كہ فوجی عدالتوں پر بدنیتی اور یك طرفہ كارروائی كرنے كے الزامات درست نہیں ہیں۔



سپریم کورٹ میں 5 ركنی لارجر بینچ نے اكیسویں آئینی ترمیم كے تحت قائم فوجی عدالتوں كی طرف سے سول افراد كو دی جانے والی سزاؤں كو قانون كے مطابق قرار دیتے ہوئے كہا ہے كہ ملزمان كا ٹرائل آرمی ایكٹ كے تحت كیا گیا اور تمام ملزمان كو صفائی كا مكمل موقع دیا گیا، جن ملزمان نے پرائیویٹ وكیل كا دعوٰی نہیں كیا انہیں قانون كے مطابق وكیل كی خدمات فراہم كی گئیں، ٹرائل كے ریكارڈ سے ثابت ہورہا ہے كہ تمام كارروائی آرمی ایكٹ كے تحت مكمل غیر جانبداری كے ساتھ ہوئی، استغاثہ كی طرف سے ثبوت اور شہادتیں پیش كی گئیں جب كہ كچھ ملزمان نے خود اعتراف جرم كیا ہے جس كی تصدیق جوڈیشل مجسٹریٹ نے كی ہے اور ٹرائل كے كسی بھی مرحلے میں اعتراف جرم سے انكار نہیں كیا گیا۔ عدالت نے فوجی عدالت كا فیصلہ برقرار ركھتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 16 دہشتگردوں كی سزاؤں پرعملدرآمد كا حكم دیا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : فوجی عدالتوں سے سزا، لارجر بینچ تشکیل



چیف جسٹس انور ظہیر جمالی كی سربراہی میں جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس منظور احمد ملك اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں كے فیصلوں كے خلاف اپیلوں كی سماعت مكمل كركے 20جون 2016 كو فیصلہ محفوظ كیا تھا،18 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے تحریر كیا ہے جس میں آرمی پبلك اسكول، بنوں جیل، پریڈلائن، فوجی قافلوں اور تنصیبات سمیت دیگر حملوں میں ملوث دہشتگردوں قاری زبیر، حید رعلی، قاری ظاہر گل، عتیق الرحمن، تاج محمد، اكسن محبوب، محمد عربی، محمد غوری، طاہر محمود و دیگر كی درخواستیں مسترد كركے ان كی سزائے موت برقرار ركھی گئی ہے۔



فیصلے میں كہا گیا ہے كہ فوجی عدالتوں نے فیئر ٹرائل كے تمام تقاضے پورے كرتے ہوئے قانون اور حقائق كو مدنظر ركھا ہے اور مجرموں كو دفاع كا بھر پور موقع دیا گیا ہے۔ فیصلے میں مزید كہا گیا ہے كہ دہشت گردی كی غیر معمولی صورتحال كے پیش نظر اكیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایكٹ میں ترمیم كركے فوری سزاؤں كے لیے عدالتیں بنائی گئیں ،ہائی كورٹ اور سپریم كورٹ ان عدالتوں كے فیصلوں پر جائزے كا اختیار اس وقت استعمال كرسكتی ہے اگر فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہو اور قانون كی پیروی نہیں كی گئی ہو، بصورت دیگر فوجی عدالتوں كے فیصلے میں مداخلت نہیں كی جاسكتی، اپیلوں كی سماعت كے دوران ٹرائل كے تمام ریكارڈ اور قانون كا بغور جائزہ لیا گیا لیكن درخواست گزاروں كے لگائے گئے الزامات كے حق میں كوئی مواد نہیں ملا اور نہ ہی درخواست گزاروں كے وكلا نے ٹرائل میں ضابطے سے انحراف كی نشاندہی كی لہٰذا یہ نہیں كہا جاسكتا كہ فوجی عدالتوں كے فیصلے ناكافی شواہد یا كمزور شواہد پر مشتمل ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں پر عملدرآمد معطل



عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہےکہ فوجی عدالت كے كسی ركن پر بدنیتی ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی فوجی عدالتوں كے ٹرائل میں كسی قسم كی لاقانونیت نظر آئی ، مجرمان كے جرائم ایسے تھے جن كا ٹرائل صرف فوجی عدالت میں ہو سكتا تھا، تكنیكی خامیوں كی بنیاد پر فوجی عدالتوں كے فیصلے میں غیر ضرروی مداخلت نہیں كی جاسكتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |