’’ پُورا کھانا کھاؤ ورنہ جُرمانہ دو‘‘
لوآن کی پالیسی کی وجہ سے اس کے مستقل گاہکوں میں سے بیشتر نے کھانا بچانے کی عادت پر قابو پالیا ہے
لاہور:
ریستورانوں میں کھانا کھانے کا اتفاق تو سبھی کو ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر ہم کھانے سے پوری طرح انصاف نہیں کرپاتے۔ کچھ نہ کچھ کھانا پلیٹوں میں باقی رہ جاتا ہے جسے ہم یوں ہی چھوڑ دیتے اور بل ادا کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے، دنیا بھر کے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں یومیہ کتنا کھانا اس طرح ضائع ہوتا ہوگا؟ ہمارے معاشرے میں ضیاع ِخوراک کے حوالے سے شعور نہیں پایا جاتا تاہم ترقی یافتہ ممالک میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر اس اہم مسئلے کا سدباب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔حال ہی میں جرمنی کے ریستورانوں نے خوراک ضایع ہونے سے بچانے کے لیے انوکھا طریقہ اپنایا ہے ... انھوں نے کھانا بچانے والے گاہکوں سے ' جُرمانہ' لینا شروع کردیا۔
جرمن صوبے بادن وورتمبرگ میں ایک جاپانی نژاد باشندے، لوآن گیو نے ریستوران کھول رکھا ہے۔ پورا کھانا نہ کھانے پر گاہکوں سے اضافی رقم وصول کرنے کا سلسلہ جرمنی میں سب سے پہلے اسی نے شروع کیا ۔ لوآن کہتا ہے کہ کھانے سے انصاف نہ کرنے والے گاہک سے ایک یورو اضافی وصول کرنے کا مقصد اپنی آمدن بڑھانا نہیں بلکہ انھیں یہ احساس دلانا ہے کہ غذا ضائع کرنا کوئی اچھا عمل نہیں، کیوں کہ دنیا میں کروڑوں لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہیں، جنھیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ لوآن کے مطابق اس نے اپنے گاہکوں پر ' جُرمانے' کا سلسلہ دو برس قبل شروع کیا تھا۔ اب تک اس مد میں اس کے پاس نو سو یوروجمع ہوچکے جنھیں وہ خیراتی ادارے کو عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
لوآن کا کہنا ہے، دو سال کے دوران اس سے کسی گاہک نے اضافی رقم لینے پر شکایت نہیں کی بلکہ کئی لوگوں نے اس اقدام کو سراہا۔ لوآن کی اس پالیسی کے چرچے ہونے پر مقامی ذرائع ابلاغ نے اس کے ریستوران آنے والے کئی لوگوں سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنے گھر میں کوشش کرتے ہیں کہ کم سے کم کچرا جمع ہو تو پھر ریستورانوں میں بھی اسی بات پر عمل کرنا چاہیے۔
لوآن کی پالیسی کی وجہ سے اس کے مستقل گاہکوں میں سے بیشتر نے کھانا بچانے کی عادت پر قابو پالیا ہے۔ اب وہ اتنا ہی کھانا آرڈر کرتے ہیں جتنی بھوک ہوتی ہے۔ لو آن کی پیروی میں جرمنی کے متعدد ریستورانوں نے یہی پالیسی متعارف کروادی ہے۔ تیسری دنیا میں، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد شکم سیری سے محروم ہے ،وہاں اگر ہوٹل اور ریستوران یہی پالیسی اپنا لیں تو اس سے خوراک کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔
ریستورانوں میں کھانا کھانے کا اتفاق تو سبھی کو ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر ہم کھانے سے پوری طرح انصاف نہیں کرپاتے۔ کچھ نہ کچھ کھانا پلیٹوں میں باقی رہ جاتا ہے جسے ہم یوں ہی چھوڑ دیتے اور بل ادا کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے، دنیا بھر کے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں یومیہ کتنا کھانا اس طرح ضائع ہوتا ہوگا؟ ہمارے معاشرے میں ضیاع ِخوراک کے حوالے سے شعور نہیں پایا جاتا تاہم ترقی یافتہ ممالک میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر اس اہم مسئلے کا سدباب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔حال ہی میں جرمنی کے ریستورانوں نے خوراک ضایع ہونے سے بچانے کے لیے انوکھا طریقہ اپنایا ہے ... انھوں نے کھانا بچانے والے گاہکوں سے ' جُرمانہ' لینا شروع کردیا۔
جرمن صوبے بادن وورتمبرگ میں ایک جاپانی نژاد باشندے، لوآن گیو نے ریستوران کھول رکھا ہے۔ پورا کھانا نہ کھانے پر گاہکوں سے اضافی رقم وصول کرنے کا سلسلہ جرمنی میں سب سے پہلے اسی نے شروع کیا ۔ لوآن کہتا ہے کہ کھانے سے انصاف نہ کرنے والے گاہک سے ایک یورو اضافی وصول کرنے کا مقصد اپنی آمدن بڑھانا نہیں بلکہ انھیں یہ احساس دلانا ہے کہ غذا ضائع کرنا کوئی اچھا عمل نہیں، کیوں کہ دنیا میں کروڑوں لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہیں، جنھیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ لوآن کے مطابق اس نے اپنے گاہکوں پر ' جُرمانے' کا سلسلہ دو برس قبل شروع کیا تھا۔ اب تک اس مد میں اس کے پاس نو سو یوروجمع ہوچکے جنھیں وہ خیراتی ادارے کو عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
لوآن کا کہنا ہے، دو سال کے دوران اس سے کسی گاہک نے اضافی رقم لینے پر شکایت نہیں کی بلکہ کئی لوگوں نے اس اقدام کو سراہا۔ لوآن کی اس پالیسی کے چرچے ہونے پر مقامی ذرائع ابلاغ نے اس کے ریستوران آنے والے کئی لوگوں سے انٹرویو کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنے گھر میں کوشش کرتے ہیں کہ کم سے کم کچرا جمع ہو تو پھر ریستورانوں میں بھی اسی بات پر عمل کرنا چاہیے۔
لوآن کی پالیسی کی وجہ سے اس کے مستقل گاہکوں میں سے بیشتر نے کھانا بچانے کی عادت پر قابو پالیا ہے۔ اب وہ اتنا ہی کھانا آرڈر کرتے ہیں جتنی بھوک ہوتی ہے۔ لو آن کی پیروی میں جرمنی کے متعدد ریستورانوں نے یہی پالیسی متعارف کروادی ہے۔ تیسری دنیا میں، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد شکم سیری سے محروم ہے ،وہاں اگر ہوٹل اور ریستوران یہی پالیسی اپنا لیں تو اس سے خوراک کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔