’’لائک‘‘ نہ کرنے پر تنخواہ سے کٹوتی
ژاؤ کا دعویٰ ہے کہ ویب پیج پر کمپنی کے معاملات سے متعلق اپ ڈیٹس کی جاتی ہیں، جن سے ملازمین کا واقف رہنا بہت ضروری ہے
MANSEHRA:
سوشل میڈیا کا استعمال اب سبھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر شاذ ہی کوئی تعلیم یافتہ فرد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے دور ہو۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں فاصلے سمٹ جاتے اور آجر اجیر، نوکر مالک، اور ماتحت و افسر سب اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ، جیسے فیس بُک پر یہ رجحان نظر آتا ہے کہ لوگ دوستوں اور عزیزواقارب کے علاوہ اپنے افسروں کی پوسٹس کو بھی لائک کرتے ہیں۔ بلکہ مؤخرالذکر کی پوسٹس کو لازماً لائک کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے اس کا مقصد افسر کی خوش نودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خوشامد پسند باس بھی اپنی پوسٹس پر ماتحتوں کی لائکس دیکھ کر یقیناً خوش ہوتے ہوں گے۔ اس فطرت کے حامل افسر خوشامد نہ کرنے والے ماتحتوں کوکسی نہ کسی انداز میں ان کی 'گستاخی' کی سزا ضرور دیتے ہیں۔ مگر جناب ایک چینی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے تو حد ہی کردی۔ اس نے اپنی پوسٹس پر تبصرے نہ کرنے والے دو سو ملازمین پر جُرمانہ عائدکردیا !
ایک چینی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ میں واقع ایک ٹریول کمپنی کے سی ای او ،چانگ منگ نے دو سو ملازمین کی تنخواہ سے فی کس پچاس یو آن منہا کرلینے کا حکم جاری کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان ملازمین نے اپنے باس کے سینا ویبو (Sina Weibo)اکاؤنٹ پر کمنٹس نہ کرنے کا ' جُرم ' کیا تھا۔ ( سینا ویبو، فیس بُک طرز کی چینی سوشل ویب سائٹ ہے)۔ کمپنی کے مارکیٹنگ مینیجر، ژاؤ رکسن کے مطابق سی ای او نے کچھ عرصہ قبل سینا ویبو پر اکاؤنٹ بنایا تھا۔تب ملازمین کے لیے حکم جاری کیا گیا کہ وہ باقاعدگی سے اس پیج کا وزٹ کریں اور اس پر کمنٹس دیں۔اب حکم عدولی کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں سے بہ طور سزا یہ کٹوتی کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔
ژاؤ کا دعویٰ ہے کہ ویب پیج پر کمپنی کے معاملات سے متعلق اپ ڈیٹس کی جاتی ہیں، جن سے ملازمین کا واقف رہنا بہت ضروری ہے۔ پیج پر تبصرہ نہ کرنے والے ملازمین کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں کمپنی پالیسی کی کوئی پروا نہیں ۔ ان کا یہ رویہ کمپنی کے لیے قابل قبول نہیں۔ ژاؤ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ملازمین کو اس طرزعمل سے باز رکھنے کے لیے ان پہ جُرمانہ کیا گیا ۔
کمپنی کے ملازمین نے تنخواہوں سے کٹوتی کے اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ سی ای او کے ویب پیج پر لائک نہ کرنے کی ' سزا' تنخواہوں سے کٹوتی کی صورت میں بھگتنی پڑے گی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سی ای او کا یہ اقدام لیبرقوانین کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم پاکستان کی طرح چین میں بھی لیبر قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ٹریول ایجنسی کے اس اقدام پر عام لوگ بھی اسے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کمپنی کے ویب پیج پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے سفرکے لیے مذکورہ ایجنسی کی خدمات حاصل نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال اب سبھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر شاذ ہی کوئی تعلیم یافتہ فرد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے دور ہو۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں فاصلے سمٹ جاتے اور آجر اجیر، نوکر مالک، اور ماتحت و افسر سب اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ، جیسے فیس بُک پر یہ رجحان نظر آتا ہے کہ لوگ دوستوں اور عزیزواقارب کے علاوہ اپنے افسروں کی پوسٹس کو بھی لائک کرتے ہیں۔ بلکہ مؤخرالذکر کی پوسٹس کو لازماً لائک کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے اس کا مقصد افسر کی خوش نودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ خوشامد پسند باس بھی اپنی پوسٹس پر ماتحتوں کی لائکس دیکھ کر یقیناً خوش ہوتے ہوں گے۔ اس فطرت کے حامل افسر خوشامد نہ کرنے والے ماتحتوں کوکسی نہ کسی انداز میں ان کی 'گستاخی' کی سزا ضرور دیتے ہیں۔ مگر جناب ایک چینی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے تو حد ہی کردی۔ اس نے اپنی پوسٹس پر تبصرے نہ کرنے والے دو سو ملازمین پر جُرمانہ عائدکردیا !
ایک چینی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ میں واقع ایک ٹریول کمپنی کے سی ای او ،چانگ منگ نے دو سو ملازمین کی تنخواہ سے فی کس پچاس یو آن منہا کرلینے کا حکم جاری کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان ملازمین نے اپنے باس کے سینا ویبو (Sina Weibo)اکاؤنٹ پر کمنٹس نہ کرنے کا ' جُرم ' کیا تھا۔ ( سینا ویبو، فیس بُک طرز کی چینی سوشل ویب سائٹ ہے)۔ کمپنی کے مارکیٹنگ مینیجر، ژاؤ رکسن کے مطابق سی ای او نے کچھ عرصہ قبل سینا ویبو پر اکاؤنٹ بنایا تھا۔تب ملازمین کے لیے حکم جاری کیا گیا کہ وہ باقاعدگی سے اس پیج کا وزٹ کریں اور اس پر کمنٹس دیں۔اب حکم عدولی کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں سے بہ طور سزا یہ کٹوتی کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔
ژاؤ کا دعویٰ ہے کہ ویب پیج پر کمپنی کے معاملات سے متعلق اپ ڈیٹس کی جاتی ہیں، جن سے ملازمین کا واقف رہنا بہت ضروری ہے۔ پیج پر تبصرہ نہ کرنے والے ملازمین کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں کمپنی پالیسی کی کوئی پروا نہیں ۔ ان کا یہ رویہ کمپنی کے لیے قابل قبول نہیں۔ ژاؤ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ملازمین کو اس طرزعمل سے باز رکھنے کے لیے ان پہ جُرمانہ کیا گیا ۔
کمپنی کے ملازمین نے تنخواہوں سے کٹوتی کے اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ سی ای او کے ویب پیج پر لائک نہ کرنے کی ' سزا' تنخواہوں سے کٹوتی کی صورت میں بھگتنی پڑے گی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سی ای او کا یہ اقدام لیبرقوانین کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم پاکستان کی طرح چین میں بھی لیبر قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ٹریول ایجنسی کے اس اقدام پر عام لوگ بھی اسے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کمپنی کے ویب پیج پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے سفرکے لیے مذکورہ ایجنسی کی خدمات حاصل نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔