نریندر مودی کی تقریر … آر ایس ایس کے عزائم کی آئینہ دار

انڈین نیشنل کانگریس پاکستان کے قیام کو بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح اور مسلم لیگ کے ہاتھوں اپنی شکست سمجھتی تھی



بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی پر دہلی کے لال قلعے پراپنی تقریر میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اعتراف اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت کے مزید عزائم واضح کردیے۔ قبل ازیں وزیر اعظم مودی جون 2015ء میں ڈھاکا میں اپنی ایک تقریر میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کا اعتراف کرچکے ہیں۔ مودی کی جانب سے ڈھاکا اور دہلی کی مذکورہ تقاریر کا جوہر ایک ہی ہے۔ یعنی پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی عزائم۔ البتہ فرق یہ ہے کہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کا اعلیٰ ترین سطح پر اعتراف سقوط مشرقی پاکستان کے پینتالیس برس بعد کیا گیا اور اب بھارتی وزیر اعظم پاکستان کی سالمیت کے خلاف اپنا لائحہ عمل فی الفور یا پیشگی بتا رہے ہیں۔

مودی کی مذکورہ تقریر ہماری نظر میں پاکستان کے خلاف آر ایس ایس کے ستر سال قدیم ایجنڈے اور بی جے پی کے عزائم کا اظہار ہے۔ اس تقریر میں پاکستان کے خلاف جو کچھ کہا گیا اس میں اہل پاکستان کے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے۔ پاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اکثر بھارتی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے پاکستان کے وجود کو دل سے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔

انڈین نیشنل کانگریس پاکستان کے قیام کو بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگ کے ہاتھوں اپنی شکست سمجھتی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ان کے بعد آنے والی کانگریس کی ساری قیادت اس احساس شکست کے تحت بھی پاکستان کی مخالف رہی... کانگریس کو شکست دے کر اقتدار میں آنے والی جماعت بی جے پی مسلم مخالفت میں کانگریس سے کہیں آگے ہے۔ بی جے پی کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS ) کا ایجنڈا بھارت کو ایک ہندو ریاست بناناہے۔ اسی لیے بھارت کے عام ہندوؤں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

انتہا پسندی کو اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بتایا جارہا ہے۔ کئی مسلم ملکوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہاں انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے۔ اس بات کی حقیقت اور اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کو کسی مسلم ملک میں عوام کی تائید حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں تو مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی انتخابات میں کبھی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

پاکستان کے انتخابی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ... دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں بھارت واحد ملک ہے جہاں مذہبی انتہا پسند تنظیم RSS کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ بینک بڑھتے بڑھتے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت تک جاپہنچا ہے۔ 1984ء میں بی جے پی نے بھارتی پارلیمنٹ میں صرف دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ 2014ء کے عام انتخابات میں سیکیولر ملک بھارت میں بی جے پی کے پاس 543 کے ایوان میں 282 نشستیں ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کو تیس سال میں ملنے والی اس کامیابی میں مختلف عوامل کار فرما ہیں لیکن ان میں سب سے اہم فیکٹر ''ہندوتوا'' کا نعرہ ہے۔ 1992ء میں ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات بھی RSS کے نمایاں کاموں میں شامل ہیں۔

پاکستان میں انتہا پسندی کے فروغ میں سوویت یونین کے خلاف امریکا اور مغربی یورپ کی پالیسیوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ افغانستان میں امریکا، مغربی یورپ، عرب ممالک اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں اور افغان مجاہدین کی زبردست مزاحمت کی وجہ سے سوویت یونین کو شکست تو ہوگئی لیکن بعد میں ان پالیسیوں کے کئی نقائص کی بھاری قیمت بھی پاکستانی قوم کو ادا کرنا پڑی۔ اب پاکستان کی حکومت اور فوج عوام کی حمایت سے ماضی کے کئی فیصلوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اور دیگر کئی مسلم ممالک میں انتہا پسندی کے فروغ میں بعض بیرونی طاقتوں کی دلچسپی بھی ہے لیکن بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی وجوہات خالصتاً داخلی ہیں۔

1925ء میں قائم ہونے والی مذہبی انتہاپسند تنظیم RSS نے اپنا بنیادی مقصد ہندو نیشنل ازم کا فروغ قرار دیا۔ RSS جرمنی کے نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے متاثر رہی ۔ RSS نے نسل پرستی کی بنیاد پر اسرائیل کے قیام کی بھی حمایت کی۔ اس تنظیم نے انگریزوں کے خلاف کانگریس کی مختلف تحریکوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھتے ہوئے اپنے حامیوں کو ہدایت کی کہ انڈیا میں برٹش گورنمنٹ کے خلاف کسی سرگرمی میں کوئی حصہ نہ لیا جائے۔ برٹش راج سے نجات اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی میںRSS نے بالاہتمام کوئی حصہ نہیں لیا۔ قیام پاکستان سے قبل ایک مرحلے پر گاندھی جی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کا رویہ اختیار کیا جائے۔ RSS نے گاندھی جی کی اس سوچ کی کھل کر خوب مخالفت کی۔

انگریز نے برصغیر سے جاتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کو بھارت کا اقتدار منتقل کیا۔ کانگریس نے بھارت کے کثیر المذہبی ، کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی معاشرے میں حکومتی نظام چلانے کے لیے سیکیولرزم اپنانے کا اعلان کیا تھا۔ بھارتی آئین کے خالق ماہر قانون اور ماہر اقتصادیات بی آر امبیڈکر خود ہندوؤں کے ایک نچلے طبقے دلِت سے تعلق رکھتے تھے۔ بابا صاحب امبیڈکر بھارت کے کمزور اور محروم ترین طبقے دلتوں کو حقوق دلانے کے لیے سرگرم عمل رہے۔ بی آر امبیڈکر نے بھارتی آئین کے نکات اور مندرجات ہندوؤں میں ذات پات کے نظام اور بھارت میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی موجودگی کے پیش نظر سیکیولر ازم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترتیب دیے تھے۔

آزادی کے بعد RSS نے بھارت کے سہہ رنگی جھنڈے اور بی آر امبیڈکر کے تحریر کردہ بھارتی آئین کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ RSS کا مطالبہ تھا کہ بھارت کے قومی پرچم کا رنگ زعفرانی ہونا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین بھارت میں رائج قدیمی ذات پات کے نظام اور ہندوؤں کے قانون ''منو سمرتی'' کے مطابق نہیں ہے۔ بھارت کے بابائے قوم موہن داس گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تعلق بھی RSS سے رہا تھا۔

آر ایس ایس چاہتی ہے کہ بھارت میں رہنے والے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہندو ثقافت اور زبان اختیار کریں یا پھر وہ بھارت سے چلے جائیں۔ ہندو نیشنل ازم یا ہندوتوا کا بھارت بھر میں فروغ RSS کا بنیادی مقصد ہے۔ واضح رہے کہ انڈین نیشنل ازم اور ہندو نیشنل ازم دو مختلف نظریات ہیں۔ گاندھی انڈین نیشنل ازم کے قائل تھے۔ لیکن آج گاندھی کی سوچ کی علمبردار انڈین نیشنل کانگریس بھارت میں ایک اقلیتی جماعت ہے۔ انتہا پسند مذہبی جماعت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہندو عوام میں جذباتی ہیجان برپا کرکے اور پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دے کر بی جے پی کو بھارتی پارلیمنٹ کی واضح اکثریت جماعت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

بی جے پی کی حکومت میں انتہا پسندی کی جڑیں ناخواندہ عوامی حلقوں سے آگے بڑھ کر ریاستی اداروں میں بھی سرایت کر چکی ہیں ۔ بھارت کی وزراتِ تعلیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نصاب میں ہر پہلو سے ہندو پس منظر کو شامل کرے۔RSS کے رضاکار غیر ہندؤں کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں نفرت پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ RSS کی انتہا پسندی اور بی جے پی کی کئی پالیسیوں کی معتدل فکر ہندو اور دانشور بھی تائید نہیں کرتے اور اِن پالیسیوں کو بھارت کے کثیرالثقافتی معاشرے کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔

ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کے ملک بھارت میں غریبوں کی تعداد اور اُن کے مصائب میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت تقریباً ستّر کروڑ بھارتیوں کی روزانہ آمدنی بمشکل سوا دو سو (انڈین)روپے ہے۔ اپنے عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کے بجائے RSS نے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان مخالف جذبات کے فروغ کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔یہ حکمتِ عملی بھارت کے سب پڑوسی ملکوں خصوصاً پاکستان کے لیے انتہائی تشویش اور خطرات کاباعث ہے۔ پاکستان کی حکومت ، مسلح افواج اور عوام کو اپنے دشمنوں کی کثیرجہتی اسٹرٹیجی سے مکمل آگہی اور مناسب حفاظتی اقدامات کی طرف مسلسل متوجہ رہنے اور دفاع کے لیے ہر طرح سے تیار رہنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں