پولیس کے شعبے جرائم کا گڑھ کیوں
قیام پاکستان سے قبل صرف پولیس تھانے یا بہت بڑی حد کے تھانے میں پولیس کی چوکیاں ہوتی تھیں
قیام پاکستان سے قبل صرف پولیس تھانے یا بہت بڑی حد کے تھانے میں پولیس کی چوکیاں ہوتی تھیں جہاں پولیس اہلکار دن رات ڈیوٹی دیتے تھے اور تنہا رہنے والے اہلکاروں کو وہاں رہائش کی سہولت بھی مل جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد آبادی بڑھنے کے ساتھ پولیس تھانوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی کیونکہ جرائم بہت کم تھے تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی تعداد بھی کم ہوتی تھی جہاں پولیس اہلکار پرانی بندوقوں اور لاٹھیوں کے ذریعے جرائم پرکنٹرول کیا کرتے تھے۔ جرائم کی تعداد بھی کم تھی۔
چوری، ڈاکے یا اقدام قتل کے چھوٹے جرائم ہی ہوتے تھے اور قتل کی واردات شاذ و نادر اور مہینوں ہی میں ہوتی تھی اور دور دور تک خوف پھیل جاتا تھا۔اس وقت ایمانداری اور آپس میں محبت اور مل جل کر رہنے کا زمانہ تھا اور پولیس کا رعب اور خوف ہی بہت تھا اور چار پانچ عشروں قبل تک پولیس کی عزت تھی اور پولیس میں بھرتی کے خواہش مند عوام کی خدمت کے جذبے سے بھرتی ہوتے تھی۔ پولیس میں تنخواہیں کم اور سادگی عام تھی اور پولیس میں ملازمت لوگوں کی ترجیح نہیں ہوتی تھی۔
سابق صدر ایوب خان کے شروعاتی دور تک پولیس غیر سیاسی تھی اور پولیس کا حکومتوں کی طرف سے استعمال زیادہ تر انتظامی اور امن وامان تک محدود تھا۔ ایوب خان کے آخری دور میں ان کے خلاف تحریک چلی تو جلوسوں کوکنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا گیا اور سیاسی لوگوں کی پولیس میں مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملک بھر میں آبادی میں اضافے کے ساتھ تھانوں اور اہلکاروں کی تعداد بڑھتی گئی اور 1971 میں ملک دولخت ہوا اور سیاسی حکومت آئی جس کے شروع کے سالوں میں بھی پولیس سیاسی نہیں تھی مگر بعد میں سیاسی حکومتوں نے سیاسی بنیاد پر پولیس میں بھرتیاں کیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے پولیس کو استعمال کرنا شروع کیا اورگزشتہ چالیس سالوں میں ملک بھر میں پولیس مکمل سیاسی ہوچکی ہے جس کے ذمے دار بھی سیاسی لوگ اور سیاسی حکومتیں ہیں۔
گزشتہ چالیس سالوں میں تمام جمہوری اورغیر جمہوری حکومتوں نے پولیس کو سیاسی بنیاد پر اپنے خلاف سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ سی آئی ڈی پولیس کو جرائم پیشہ عناصر کی بجائے سیاست دانوں کی سرگرمیوں اور حرکات کا پتا لگانے کے لیے مخصوص کیا گیا جس کے نتیجے میں جرائم کو فروغ ملا جرائم پیشہ عناصر منظم اور مضبوط ہوکر طاقتور ہوگئے اور انھوں نے اغوا برائے تاوان کے لیے لوگوں کے ساتھ، سرکاری افسروں اور سیاسی لوگوں کو بھی اغوا کیا جنھیں پولیس خود تاوان دے کر بازیاب کراتی اور دعویٰ کیا جاتا کہ انھیں بغیر تاوان دیے رہا کردیاگیا ہے۔
جس کا علم حکومت کو بھی ہوتا تھا مگر پولیس کو سیاسی بنانے والی حکومتیں جرائم پیشہ عناصر کی طاقت کے آگے بے بس تھیں اور پولیس کی ناکامی کے بعد پنجاب اور سندھ میں سیاسی حکومتوں نے فوج کے ذریعے آپریشن کرائے، پولیس کو سیاست میں ملوث کرکے فائدے حکومتوں نے اٹھائے اور سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام کو ہوا جس کی عالمی تشہیر کے بعد ہی حکومتوں نے بدنام ہوکر ہی اقدامات کیے جو فوج اور رینجرز کے ذریعے ہوئے اور پولیس کی نااہلیت بڑھی کارکردگی ختم اور لاقانونیت عام ہوئی ، قانون اور انصاف پر عدم اعتماد بڑھتا گیا۔ سندھ اور پنجاب پولیس اسٹیٹ بنے ہوئے ہیں جہاں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی جس پر کورٹوں میں آئے دن سخت سے سخت ریمارکس پاس ہوتے ہیں۔
پولیس میں غیر قانونی تقرروتبادلوں کو بھی اعلیٰ عدالتوں نے روکا پولیس میں موجود نا انصافیاں ختم کرائیں اور وہ تک ہوا جو عدلیہ کا نہیں انتظامیہ کی ذمے داری تھی۔ حکومتوں کے نوازے ہوئے سیاسی اور سفارشی پولیس افسروں کو اعلیٰ انتظامی عہدے ملے تو انھوں نے موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جن میں آئی جی پولیس سطح تک کے افسران شامل تھے۔ سابق آئی جی غلام حیدر جمالی کو سندھ حکومت کے بڑے ہٹانا نہیں چاہتے تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں کرپشن کے سنگین الزامات کے باعث ہٹانا پڑا۔
جرائم کے ساتھ نہ صرف پولیس میں کرپشن بڑھی بلکہ ملک بھر میں مختلف ناموں سے پولیس کے شعبے قائم ہوئے جن کی وجہ سے جرائم میں کمی سے زیادہ پولیس کرپشن میں اضافہ ہوا ۔پہلے سی آئی اے پولیس ملک بھر میں مشہور تھی تو وہاں رشوت کے نرخ بھی زیادہ ہوتے تھے اور سی آئی اے کی دہشت بھی تھی جسے جنرل پرویز کے دور میں ختم کردیاگیا اور پولیس میں انویسٹی گیشن کا شعبہ الگ کردیاگیا جس کے الگ اعلیٰ افسران تھے اور ڈسٹرکٹ پولیس سے تحقیقاتی کام واپس لے لیا گیا جس سے ضلع پولیس کی کمائی متاثر ہوئی۔
2008 میں مشرف کے بعد پی پی حکومت نے پھر ضلع پولیس کو با اختیارکردیا اور دہشت گردی روکنے کے لیے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کے نام سے سی ٹی ڈی پولیس کا وجود عمل میں لایا گیا۔ ملک میں دہشت گردی فوج کے سخت اقدامات سے کم ہوئی تو سی ٹی ڈی کے غیر قانونی اقدامات نے پولیس کے خلاف شکایات سنگین کرا دیں اور سی ٹی ڈی سے اچھے کام کم ہوئے البتہ کرپشن اور غیر قانونی حرکتوں کے ریکارڈ قائم ہوئے جس میں اعلیٰ پولیس افسران بھی ملوث ہیں۔ (جاری ہے)
چوری، ڈاکے یا اقدام قتل کے چھوٹے جرائم ہی ہوتے تھے اور قتل کی واردات شاذ و نادر اور مہینوں ہی میں ہوتی تھی اور دور دور تک خوف پھیل جاتا تھا۔اس وقت ایمانداری اور آپس میں محبت اور مل جل کر رہنے کا زمانہ تھا اور پولیس کا رعب اور خوف ہی بہت تھا اور چار پانچ عشروں قبل تک پولیس کی عزت تھی اور پولیس میں بھرتی کے خواہش مند عوام کی خدمت کے جذبے سے بھرتی ہوتے تھی۔ پولیس میں تنخواہیں کم اور سادگی عام تھی اور پولیس میں ملازمت لوگوں کی ترجیح نہیں ہوتی تھی۔
سابق صدر ایوب خان کے شروعاتی دور تک پولیس غیر سیاسی تھی اور پولیس کا حکومتوں کی طرف سے استعمال زیادہ تر انتظامی اور امن وامان تک محدود تھا۔ ایوب خان کے آخری دور میں ان کے خلاف تحریک چلی تو جلوسوں کوکنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کیا گیا اور سیاسی لوگوں کی پولیس میں مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملک بھر میں آبادی میں اضافے کے ساتھ تھانوں اور اہلکاروں کی تعداد بڑھتی گئی اور 1971 میں ملک دولخت ہوا اور سیاسی حکومت آئی جس کے شروع کے سالوں میں بھی پولیس سیاسی نہیں تھی مگر بعد میں سیاسی حکومتوں نے سیاسی بنیاد پر پولیس میں بھرتیاں کیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے پولیس کو استعمال کرنا شروع کیا اورگزشتہ چالیس سالوں میں ملک بھر میں پولیس مکمل سیاسی ہوچکی ہے جس کے ذمے دار بھی سیاسی لوگ اور سیاسی حکومتیں ہیں۔
گزشتہ چالیس سالوں میں تمام جمہوری اورغیر جمہوری حکومتوں نے پولیس کو سیاسی بنیاد پر اپنے خلاف سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ سی آئی ڈی پولیس کو جرائم پیشہ عناصر کی بجائے سیاست دانوں کی سرگرمیوں اور حرکات کا پتا لگانے کے لیے مخصوص کیا گیا جس کے نتیجے میں جرائم کو فروغ ملا جرائم پیشہ عناصر منظم اور مضبوط ہوکر طاقتور ہوگئے اور انھوں نے اغوا برائے تاوان کے لیے لوگوں کے ساتھ، سرکاری افسروں اور سیاسی لوگوں کو بھی اغوا کیا جنھیں پولیس خود تاوان دے کر بازیاب کراتی اور دعویٰ کیا جاتا کہ انھیں بغیر تاوان دیے رہا کردیاگیا ہے۔
جس کا علم حکومت کو بھی ہوتا تھا مگر پولیس کو سیاسی بنانے والی حکومتیں جرائم پیشہ عناصر کی طاقت کے آگے بے بس تھیں اور پولیس کی ناکامی کے بعد پنجاب اور سندھ میں سیاسی حکومتوں نے فوج کے ذریعے آپریشن کرائے، پولیس کو سیاست میں ملوث کرکے فائدے حکومتوں نے اٹھائے اور سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام کو ہوا جس کی عالمی تشہیر کے بعد ہی حکومتوں نے بدنام ہوکر ہی اقدامات کیے جو فوج اور رینجرز کے ذریعے ہوئے اور پولیس کی نااہلیت بڑھی کارکردگی ختم اور لاقانونیت عام ہوئی ، قانون اور انصاف پر عدم اعتماد بڑھتا گیا۔ سندھ اور پنجاب پولیس اسٹیٹ بنے ہوئے ہیں جہاں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی جس پر کورٹوں میں آئے دن سخت سے سخت ریمارکس پاس ہوتے ہیں۔
پولیس میں غیر قانونی تقرروتبادلوں کو بھی اعلیٰ عدالتوں نے روکا پولیس میں موجود نا انصافیاں ختم کرائیں اور وہ تک ہوا جو عدلیہ کا نہیں انتظامیہ کی ذمے داری تھی۔ حکومتوں کے نوازے ہوئے سیاسی اور سفارشی پولیس افسروں کو اعلیٰ انتظامی عہدے ملے تو انھوں نے موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جن میں آئی جی پولیس سطح تک کے افسران شامل تھے۔ سابق آئی جی غلام حیدر جمالی کو سندھ حکومت کے بڑے ہٹانا نہیں چاہتے تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں کرپشن کے سنگین الزامات کے باعث ہٹانا پڑا۔
جرائم کے ساتھ نہ صرف پولیس میں کرپشن بڑھی بلکہ ملک بھر میں مختلف ناموں سے پولیس کے شعبے قائم ہوئے جن کی وجہ سے جرائم میں کمی سے زیادہ پولیس کرپشن میں اضافہ ہوا ۔پہلے سی آئی اے پولیس ملک بھر میں مشہور تھی تو وہاں رشوت کے نرخ بھی زیادہ ہوتے تھے اور سی آئی اے کی دہشت بھی تھی جسے جنرل پرویز کے دور میں ختم کردیاگیا اور پولیس میں انویسٹی گیشن کا شعبہ الگ کردیاگیا جس کے الگ اعلیٰ افسران تھے اور ڈسٹرکٹ پولیس سے تحقیقاتی کام واپس لے لیا گیا جس سے ضلع پولیس کی کمائی متاثر ہوئی۔
2008 میں مشرف کے بعد پی پی حکومت نے پھر ضلع پولیس کو با اختیارکردیا اور دہشت گردی روکنے کے لیے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کے نام سے سی ٹی ڈی پولیس کا وجود عمل میں لایا گیا۔ ملک میں دہشت گردی فوج کے سخت اقدامات سے کم ہوئی تو سی ٹی ڈی کے غیر قانونی اقدامات نے پولیس کے خلاف شکایات سنگین کرا دیں اور سی ٹی ڈی سے اچھے کام کم ہوئے البتہ کرپشن اور غیر قانونی حرکتوں کے ریکارڈ قائم ہوئے جس میں اعلیٰ پولیس افسران بھی ملوث ہیں۔ (جاری ہے)