جب سنسر بے رحم تھا
یہ کچھ ایسی پرانی بات نہیں کہ اگر کسی دن کالم میں ناغہ ہو جاتا تھا تو لگتا تھا جیسے سانس غائب ہو گیا ہے۔
یہ کچھ ایسی پرانی بات نہیں کہ اگر کسی دن کالم میں ناغہ ہو جاتا تھا تو لگتا تھا جیسے سانس غائب ہو گیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لکھنا لکھانا زندگی تھی۔ دن رات کا زیادہ وقت کالم کے لیے موضوع کی تلاش میں گزرتا تھا۔ جب تک کسی دن کا کالم لکھا نہیں جاتا تھا تب تک وہ دن گویا گزرتا ہی نہیں تھا۔ وہ دن میرے دل و دماغ پر باقی اور ادھار رہتا تھا۔ جب میں اس کی ادائیگی سے فارغ ہو جاتا تو سکھ کا سانس لیتا جیسے قرض ادا ہو گیا ہے لیکن یہ ایسا قرض تھا جو ہر روز واجب ہوتا اور ہر روز ادا کرنا پڑتا تھا۔
نہ صرف اخبار کا ایڈیٹر میرا ایک بڑا قرض خواہ ہوتا بلکہ قارئین بھی قرض خواہوں میں شامل ہوتے۔ کبھی ناغہ ہوتا تو وہی بات ہوتی کہ آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا حالانکہ یہ تو رسماً لکھ دیا ہے ورنہ کہاں مرزا اور کہاں یہ کوہستانی دیہاتی جس کے لکھنے نہ لکھنے سے اگر کسی کو کچھ فرق پڑتا ہے تو وہ اس کی جیب ہے اور کالم نویسی ہی اس کا ذریعہ روزگار ہے جس پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ لکھنے لکھانے کو کب بطور ذریعہ روزگار اور معاش اختیار کیا تھا لیکن جب بھی کیا تھا اچھا نہیں کیا تھا۔ تب تو لگتا تھا کہ ایک آزاد ذریعہ روزگار مل گیا ہے اور ذریعہ روزگار کا آزاد ہونا ایک نعمت سے کم نہیں مگر یہ آزادی بھی کوئی ایسی آزادی نہیں تھی جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
اس پر کئی پابندیاں تھیں۔ سرکار کی طرف سے پابندی، اخبار کے مالک کی طرف سے پابندی، قارئین کی پسند و ناپسند کی پابندی اور سب سے بڑھ کر اپنے ضمیر کی پابندی۔ یہ ہیں وہ چند پابندیاں یعنی جس کے نرغے میں پھنس کر کالم نویسی کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ نہ معلوم کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ اس کا کوئی متبادل میرے ذہن میں موجود ہی نہیں کیونکہ سوائے اچھا برا لکھنے کے کوئی دوسرا ہنر آتا ہی نہیں۔ اس لیے بس یہی لکھنا ہی ہنر ہے جسے آپ میرا ذریعہ روزگار سمجھیں یا ہر روز کا تعارف۔ میرے پاس اپنی زندگی کو باقی رکھنے کا یہی ایک ذریعہ ہے اور کیا یہ اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں کہ یہ ذریعہ بظاہر میرے اختیار میں ہے، کسی سے مانگ تانگ نہیں کرنی پڑتی۔ یہ ایک بہت ہی سستا ذریعہ روزگار ہے جس کے لیے قلم دوات میں دفتر سے لے لیتا ہوں۔ اگر حکومت کی مرضی ہو تو وہ روشنی بھی دے دیتی ہے جس میں بیٹھ کر میں چند سطریں لکھ لیتا ہوں۔
جس دن روشنی ناراض ہو جاتی ہے اس دن میرا قلم میرا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور میں بے حرف رہ جاتا ہوں۔ یہ دن میرے لیے بڑا ہی آزمائش کا دن ہوتا ہے۔ کاغذ سامنے ہے، قلم ہاتھ میں ہے مگر اس کمزور آنکھوں والے سے لکھا نہیں جاتا۔ میری بینائی ایک مدت سے کھل کر میرے پیشے کا ساتھ نہیں دے رہی حالانکہ میرا پیشہ قلم دوات کی طرح بینائی کا بھی محتاج ہے۔ واپڈا والوں کو میری کمزوری کا پتہ چل گیا ہے چنانچہ وہ مجھے چھیڑتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کبھی تو روشنی بالکل ہی بند کر دیتے ہیں اور میری خواہشوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
زندگی ایسی ہی رکاوٹوں سے گزرتی ہوئی چلی آ رہی ہے اور مجھے تو وہ وقت بھی یاد آتا ہے جب کچھ لکھ کر محتسب کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے کہ وہ آئے اور ہماری تحریر کے حسن و قبح کو نہیں اپنی حکومت کی ضرورت کو سامنے رکھے اور جب ہمارے سامنے وہ تحریر کے کسی حصے کو قلمزد کر دیتے تھے تو ان سے عرض کرتے کہ وہ ذرا سی رعایت تو کر دیں، یہ عبارت ایسی حکومت دشمن نہیں ہے لیکن جواب ملتا جب ہم سے جواب طلب ہو گا تو اس کی سزا میں ہماری نوکری چلی جائے گی۔
آپ کا کیا جائے گا اور بات درست تھی۔ یحییٰ خان کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ ہم لوگ ایسے ہی حالات سے گزر کر زندہ رہتے تھے۔ یحییٰ خان کے دور سے یاد آیا کہ اس کے ساتھیوں نے لفظ ''سیاست'' پر پابندی لگا دی تھی۔ اب مشکل یہ تھی کہ میرے تو کالم کا نام اور عنوان ہی سیاسی باتیں تھا۔ میں اس مشکل سے کیسے گزر سکتا تھا چنانچہ میں نے سیاسی باتیں کا عنوان ہی بدل دیا اور اسے غیرسیاسی باتیں قرار دے دیا۔ یہ ''غیرسیاسی'' عنوان ایسا چلا کہ رائج الوقت بن گیا اور سیاسی باتوں سے زیادہ معروف ہو گیا۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما درآں باشد کہ دشمن کوئی شرارت کرتا ہے اور شر کی بات کرتا ہے لیکن اس میں خیر کا پہلو نکل آتا ہے اور میرے لیے خیر کا ایک پہلو نکل آتا ہے۔
یحییٰ خان کو تو ہوش کہاں تھا لیکن اس کے ساتھی اور ہمارے مہربان یہ سب حرکتیں کرتے رہتے اور جب کبھی ہم شکایت کرتے کہ کچھ تو رحم کرو تو وہ جواب دیتے کہ تم لوگ ہماری نوکری کا بندوبست کرو ہم تمہاری تحریروں کو رحم کی نظروں سے دیکھیں گے۔